اسلامی عقائد و معاشرت پر ھندو مت کے تباہ کن اثرات !
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ، والصلوۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین، وعلی آلہ و اصحابہ اجمعین ،،
امۜا بعد – کل ایک پوسٹ میں رخصتی کا ایک منظر دکھایا گیا تھا جس میں ایک بیٹی اپنے باپ کے گلے لگ کر رو رھی تھی اور اس کے نیچے بڑا دردناک شعر لکھا گیا تھا ،”کہ باپ سے بھی ملتی ھیں تو شوھر سے پوچھ کر،،، بیٹی جب رخصت ھوتی ھے تو حقدار بدل جاتا ھے ،، بظاھر یہ بے ضرر سا شعر ھماری نفسیات کو واضح کر دیتا ھے کہ ھم صدیوں سے نسل در نسل جو اسلام کاپی کرتے چلے آ رھے ھیں ،اسکی بناوٹ میں ملاوٹ کچھ اسطرح رچ بس گئی ھے کہ اب بہت کچھ ھندو ھوتے ھوئے بھی ما شاء اللہ اسلام کی سیٹیزن شپ پا چکا ھے ،،ھمارے سارے سماجی رویۜے ھندو رسم و رواج سے متعین ھوتے ھیں اور اسلام صرف بدنام ھوتا ھے ، یہ کچھ ایسی ھی صورتحال ھے کہ آپ کے ساتھ چلنے والا دوست اچانک پاس سے گزرنے والی گاڑی کو پتھر دے مارے اور پھر جب گاڑی کا مالک گاڑی روک کر غصۜے سے لال پیلا ھو کر باھر نکلے تو وہ دوست معصومیت سے آپ کا نام لے دے کہ ” انکل انکل اس نے پتھر مارا تھا ” اب آپ جو تماشہ دیکھنے کا موڈ بنا کر بیٹھے تھے خود تماشہ بن بیٹھے ” یہ جو بیٹی کی رخصتی پر ھم ماتم کا سماں باندھ دیتے ھیں ! میں روئی تینوں روایا وئے بابلا ،تو پیار کیوں اینہاں پایا وے بابلا ،، تو یہ اسی نفسیات کا کارنامہ ھے ،،40 سال عربوں میں رھتے گزر گئے ھیں کسی باپ کو روتے نہیں دیکھا اور ثقہ راوی کی روایت ھے کہ انہوں نے بھی کسی بیٹی کو رخصتی کے وقت روتے نہیں دیکھا ،، ازواجِ مطھرات ؓ اور بناتِؓ نبیﷺ کے معاملےمیں بھی رو رو کر لوٹ پوٹ ھونے کی کوئی روایت ان گنہگار آنکھوں سے نہیں گزری ،، پھر یہ ھنگامہ سا یا رب کیا ھے ؟ یہ سارا ھنگامہ ھندو عقائد کا ماحصل ھے ،،ھندو ازم میں بیٹی کی ڈولی نہیں جنازہ نکلتا ھے اور وہ باپ کے گھر سے ھر حق سے محروم ھو کر نکلتی ھے، یہانتک کہ باپ کا نام بھی اس کے نام کے ساتھ سے بڑی بے دردی کے ساتھ اچک کر شوھر کا نام لگا دیا جاتا ھے ،،گویا وہ کوئی محسوسات رکھنے والی زندہ ھستی نہیں ھے بلکہ ایک بے جان شے ھے جس کا حق ملکیت بدلی ھو کر کسی اور کے نام رجسٹرڈ ھو گیا ھے ،،اور نکاح نامے کے نام پر بیعہ نامہ تحریر کیا گیا تھا ،جو حقوق کی منتقلی کی دستاویز تھی ،، بیٹی باپ کے گھر کی کسی چیز کی وارث و مالک نہیں ھوتی ! یہ پسِ منظر ھے لپٹ لپٹ کر اور دھاڑیں مار مار کر رونے کا ! کچھ یہی معاملہ ھمارے عقائد کا بھی ھے،سماجی معاملات کی طرح عقائد بھی ھندو ازم سے کچھ یوں گڈ مڈ ھو کر رہ گئے ھیں کہ انکو الگ کرنا ناخنوں سے گوشت الگ کرنے کی طرح تکلیف دہ عمل بن کر رہ گیا ھے،،بڑے بڑے دینداروں کو جب یہ بتایا جاتا ھے کہ یہ عقیدہ اسلامی نہیں بلکہ ھندوانہ ھے تو ان کا ردِ عمل دیکھنے والا ھوتا ھے ! تقابل ادیان میں تخصص انسان کو گوگل میپ کی طرح فوکس کر کے بتا دیتا ھے کہ یہاں اسلام دوسرے مذاھب میں نفوذ کر رھا ھے اور یہاں دوسرا مذھب اسلام میں اسلام کے نام پر داخل ھو رھا ھے !! میں یہ چاھتا ھوں کہ اسلام میں عورت کا جو سماجی مقام اور مرتبہ ھے اس کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے اور جہاں بھی ھم سے کوتاھی ھوئی ھے اس کی نشاندھی کی جائے ،،تا کہ نسلوں کی تربیت کی ذمہ داری اللہ پاک نے جس کے کندھوں پر ڈالی ھے ،،اسے اس ذمہ داری کے قابل بنایا جا سکے ،،اس کے لئے” عورت قرآن کی نظر میں ” کے عنوان سے چند گزارشات کروں گا ،،ان شاء اللہ