موسی علیہ السلام جب مدین براستہ کوہ طور سے نبوت سے سرفراز ھو کر آئے تو آپ کا اصل مشن تو اولادِ یعقوب کو ” جہاں ھے ،جیسا ھے ” کی بنیاد پر مصر سے نکال کر واپس فلسطین لانا تھا ،، مگر ضمناً انہوں نے فرعون کو بھی دین کی دعوت دی ،، اور مظالم سے باز آنے کو کہا ،، مگر جب فرعون نے دو ٹوک پوچھا کہ آپ مجھے بلیک اینڈ وائٹ میں بتایئے کہ مجھ سے کیا چاھتے ھیں ،، تو آپ نے یہی مطالبہ کیا کہ ” ان ارسل معنا بنی اسرائیل ” تو بنی اسرائیل کو ھمارے ساتھ جانے دے ،، فرعون وعدہ کرتا مگر عین وقت پر مکر جاتا ،، عذاب پر عذاب آ رھے تھے اور وہ وعدہ کرتا کہ اے جادوگر تو اپنے رب سے دعا کر جیسا کہ اس نے تجھ سے وعدہ کیا ھوا ھے ،ھمیں نصیحت ھو گئ ھے
وقالوا يا أيها الساحر ادع لنا ربك بما عهد عندك إننا لمهتدون- الزخرف،49 )
دوسری جگہ وہ کہتا اگر تو نے ھم سے عذاب کو ٹال دیا تو ھم تیری بات مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ کر دیں گے ،، ” لئن کشفت عنا الرجز لنؤمنن لک و لنرسلن معک بنی اسرائیل.،، الاعراف ،134)
ادھر فرعون سے معرکہ چل رھا تھا ،، مگر دوسری جانب 30 سال کی محنت کے دوران بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام کو کبھی بھی اللہ کا رسول نہیں مانا ،، انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام کو بنی اسرائیل کے ھوشیار سیاسی لیڈر کے طور پہ مانا تھا ،جس نے فرعون کے پاس ھی پرورش پا کر اس کے داؤ پیچ سیکھے اور انہیں فرعون پر ھی استعمال کر رھا ھے ،، قرآنِ حکیم بار بار اس حقیقت سے پردہ اٹھاتا ھے مگر ھم نے کبھی اس طرف دھیان نہیں دیا ،، اللہ کو دیکھ کر ماننے کا مطالبہ بنی اسرائیل نے کیا تھا ، فرعون نے نہیں ،، اس کی تفصیل بھی آگے چل کر آ رھی ھے فی الحال اتنا سمجھ لیں کہ موسی علیہ السلام چو مکھی جنگ لڑ رھے تھے ،، بنی اسرائیل میں دو اسلام آمنے سامنے کھڑے آپس میں دست بگریباں تھے ، پرانا موروثی اسلام جس پر فریسیوں کی یعنی علماء اور مشایخ کی اجارہ داری تھی ، عوام ان سے الگ کسی اور کی بات پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھے اور نہ ھی کسی نئے نظریئے کو قبول کرنے کو راضی تھے ، یہانتک کہ سر کی آنکھوں سے موسی علیہ السلام کے معجزات دیکھ کر ، آپ کے عصا کی ضرب سے دریا کا پھٹ کر رستہ دینا ، اس رستے سے اپنا نکل کر پار جانا اور اسی رستے میں فرعون کا غرق ھو جانا دیکھ لینے کے باوجود ابھی ان کے پاؤں سے قلزم کی مٹی نہیں جھڑی تھی کہ انہوں نے مطالبہ کر دیا کہ ”
(و جاوزنا ببنی اسرائیل البحر فاتوا علی قوم یعکفون علی اصنام لهم قالوا یا موسی اجعل لنا الها کما لهم الهه قال انکم قوم تجهلون – الاعراف – 138): اور ھم نے پار چڑھایا بنی اسرائیل کو دریا سے تو ایک ایسے گروہ کے پاس سے ان کا گزر ھوا جو اپنے بتوں کو سامنے رکھے مراقبہ کیئے بیٹھے تھے ،، کہنے لگے اے موسی ھمیں بھی ایسا خدا بنا دو ، موسی نے کہا تم ایک جاھل قوم ھو ،، آپ پورے قران میں کہیں نہیں پڑھیں گے کہ بنی اسرائیل نے موسی علیہ السلام کو ” یا رسول اللہ ” یا کبھی ” یا نبی اللہ ” کہا ھو- ھمیشہ یا موسی یا موسی کی گردان رھی ھے ،، جواب میں پورے قرآن میں پڑھ لیجئے اللہ پاک نے بھی ان کو اے ایمان والو کے پیارے لقب سے یاد نہیں کیا ،، اے یعقوب کی اولاد ، اے اسرائیل کی اولاد ھی کہہ کر پکارا ، اس لئے جب میں قرآن حکیم میں اپنے لئے اے ایمان والو پڑھتا ھوں تو میرا دل اللہ کی محبت سے اس طرح بھر جاتا ھے جیسے شھد کا چھتہ شہد سے کھچا کھچ بھر جاتا ھے ،، جواب میں بدن کا ایک ایک مسام کہتا ،، لبیک و سعدیک یا ربی ، یا اللہ ،، بس تو حکم دے اور میرا ماننا دیکھ ،،
انہیں موسی علیہ السلام کا ان دیکھا خدا قبول نہیں تھا ، سامنے رکھا بت پوجنے کی اجازت مانگتے تھے ، اس کے بعد کی دو آیات پڑھنے والی ھیں جس میں حضرت موسی علیہ السلام اپنے رب کے احسانات گنواتے ھیں ،، فرعون سے جان بچ جانے کے باوجود ان کا مطالبہ تھا کہ وہ خدا کو دیکھے بغیر نہیں مانیں گے ، اللہ پاک فرماتے ھیں کہ اے نبی یہ یہود تم سے مطالبہ کرتے ھیں کہ ان کے سامنے آسمان سے کتاب نازل ھو ،، یہ موسی علیہ السلام سے اس سے قبل اس سے بھی بڑا مطالبہ کر چکے ھیں کہ اللہ ھمیں کھلی آنکھوں سے دکھاؤ ،، ( سئلك اهل الكتاب ان تنزل عليهم كتابا من السماء فقد سالوا موسي اكبر من ذلك فقالوا ارناا جهرۃ— النساء 138 )
وہ کسی شریعت ،کسی خدا کو نہیں مانیں گے ،، جب تک کہ خدا کو خود نہیں دیکھ لیں گے ، موسی علیہ السلام نے انہیں براہ راست اللہ کا کلام سنانے کا وعدہ کیا ، جو کہ ان کے لئے ایک بہت بڑی چھوٹ تھی ،، اس کے لئے انہوں نے اپنے اپنے بزرگوں کے نام دیئے جن میں سے موسی علیہ السلام نے 70 بندے چنے جو اللہ کا کلام سن کر تصدیق کرتے کہ واقعی موسی سے خدا کلام کرتا ھے ،،(
وَاخْتَارَ مُوسَىٰ قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلًا لِّمِيقَاتِنَا ۖ فَلَمَّا أَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُم مِّن قَبْلُ وَإِيَّايَ ۖ أَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاءُ مِنَّا ۖ،، الاعراف 155 ) ان بد بختوں کو اپنے روایتی بزرگوں ، علماء و مشایخ پہ تو اعتبار تھا مگر موسی علیہ السلام پہ اعتبار نہیں تھا اور یہ سلسلہ آخری قید ملنے تک جاری رھا ،، انہوں نے کبھی موسی علیہ السلام کے رب کو رب نہیں مانا ،، جنہوں نے مانا تھا ان کو فرعون نے سولی پہ لٹکا دیا تھا ،، ” قالوا آمنا برب العالمین ، ربِ موسی و ھارون ” موسی کا رب اور تھا ،، اور بنی اسرائیل کا رب اور تھا ،،، انہوں نے موسی علیہ السلام سے جب بھی ذکر کیا تو رب کو تھرڈ پرسن کے طور پر ھی مخاطب کیا ، اپنے رب سے کہہ ، اپنے رب سے پوچھ ،، ” کبھی بھی ھمارے رب سے پوچھ نہیں کہا ،، گویا وہ صرف موسی علیہ السلام کا رب تھا ،، ادع لنا ربک ، قالوا ادع لنا ربک ،، نتیجے میں اللہ پاک نے بھی انہیں ” اے ایمان والو ،، اے میرے بندو ،، کے خطاب سے محروم ھی رکھا ،، وہ قرآن میں اللہ کی طرف سے جب مسلمانوں کے لئے پیارے پیارے محبت بھرے خطاب اور القاب سنتے تو حسد سے ان کے اندر آگ بھڑکنے لگتی ، یا عبادی الذین ظلموا انفسھم ،، قل یا عباد الذین آمنوا اتقوا ربکم ،، یا عبادِ فاتقون ،، فبشر عباد ،،،
یا اللہ جب تو ھمیں اتنے پیارے پیارے القاب سے مخاطب کرے گا تو ھماری جان بھی تیرے حکموں پہ قربان ھے ، تیرا مشکل حکم بھی ھمارے لئے آسان ھو جاتا ھے ان القاب کی مٹھاس کی وجہ سے ،،،،،
دریا پار کرانے کے بعد موسی علیہ السلام حضرت ھارون علیہ السلام کو اپنی قوم کو سونپ کر طور کی طرف روانہ ھوئے تاکہ وھاں چلہ کشی کے بعد اپنی قوم کے لئے شریعت وصول کر سکیں ، قوم کو 30 دن کا بتا کر گئے تھے کیونکہ اصل مدت 30 دن ھی تھی ، جس کا اتمام 40 دن کے ساتھ کیا گیا ،،
وواعدنا موسى ثلاثين ليلة وأتممناها بعشر فتم ميقات ربه أربعين ليلة !
دس دن کی تاخیر بنی اسرائیل کے لئے بہانہ بن گئ کہ وہ اپنا مادی خدا بنا لیں ،، یہ وھی شوق تھا جس کا اظہار انہوں نے موسی علیہ السلام سے کیا تھا ، اور جسے موسی علیہ السلام نے سختی سے مسترد کر دیا تھا ۔۔ اب کے سامری نے ان کی مدد کی ،، ھارون علیہ السلام نے مزاحمت کی کوشش کی تو انہیں قتل کرنے پہ تُل گئے ،، سونے کے زیورات سے بچھڑا بنا کر اس میں سامری نے جبرائیل امین کے گھوڑے کے سموں کی مٹی ڈالی ،، یوں حق اور باطل کے ملاپ سے شارٹ سرکٹ کا سا شرارہ نکلا اور بچھڑے نے زندگی پکڑ لی،، وہ بھاں بھاں کر رھا تھا ،، موسی سامری جو کہ سامری کا اصل نام تھا ،سامری اس کا قبیلہ تھا ،، عجیب بات یہ ھے کہ موسی اسرائیلی کو ایک کافر نے پالا اور وہ اللہ کے رسول بنے ، جبکہ موسی سامری کو جبریل علیہ السلام نے غار میں شھد پلا کر پالا وہ ان کو باپ کی طرح پہچانتا تھا ، یہی وجہ تھی کہ جب جبرائیل علیہ السلام موسی علیہ السلام اور فرعون کے لشکر کے درمیان گھوڑی دوڑا رھے تھے تو سامری ان کو دیکھ اور پہچان رھا تھا ،نیز وہ یہ بھی دیکھ رھا تھا کہ جہاں اس گھوڑی کا پاؤں پڑتا ھے وھاں کی مٹی جھٹ سے ھری بھری ھو جاتی ھے ، وہ غاروں کی دنیا کا بندہ تھا سمجھ گیا کہ یہ مٹی حیات لئے ھوئے ھے ، اس نے اسے محفوظ کر لیا ، یوں ایک فتنے کا بیج اپنی گٹھڑی میں رکھ لیا ،، چونکہ اس قوم کا امتحان مطلوب تھا ، اسی لئے اللہ پاک نے اسے انتہائی نامساعد اور ناقابلِ یقین حالات میں جبریل کے ذریعے پالا پوسا ،، اس مٹی کے اٹھانے کے بارے میں موسی علیہ السلام کو آگاہ بھی نہیں کیا ،، اور ایک فتنہ بپا ھو گیا ، یہ اللہ پاک کا کھلا اعلان ھے کہ ” ونبلوكم بالشر والخير فتنة وإلينا ترجعون ” ھم تمہیں شر اور خیر کے ذریعے آزمائیں گے اور تم (نتائج سننے کے لئے) ھمارے پاس لوٹائے جاؤ گے !
خیر قرآن کا بیان ھے کہ ھارون علیہ السلام تو مشرکین کو بچھڑے کی پوجا سے روکتے رھے ،، اپنے ساتھیوں کو لے کر ان پر چڑھائی اس لئے نہیں کی کہ بنی اسرائیل میں آپس میں تفرقہ نہ پڑ جائے ،، یہی بیان انہوں نے حضرت موسی کو دیا ،، انی خشیت ان تقول فرقت بنی اسرائیل ،، مجھے خدشہ یہ تھا کہ آپ کہیں گے کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا ؎
قال يا هارون ما منعك إذ رأيتهم ضلوا (92) ألا تتبعن أفعصيت أمري( 93) قال يا ابن أم لا تأخذ بلحيتي ولا برأسي إني خشيت أن تقول فرقت بين بني إسرائيل ولم ترقب قولی – (طہ 94)
مگر تورات حضرت ھارون علیہ السلام کو ھی بچھڑا بنانے کا مجرم ثابت کرتی ھے ،، جو کہ اس میں تحریف کا واضح ثبوت ھے ، اس کے علاوہ بھی تورات میں انبیاء پر بدکاری سے لے کر شرک تک ھر الزام دھرا گیا ھے اور ان کی صفائی پیش کرنے کی وجہ سے ھی بنی اسرائیل کے انبیاء اور حضرت مریم علیہا السلام کے تذکروں سے قرآن بھرا پڑا ھے !
جاری ھے