وراثت ایک ایسا مسئلہ ھے جس کا سامنا ھر انسان کو کرنا ھوتا ھے ،چاھے اس کے بدن پہ صرف ایک بنیان ھو ، تب بھی اس کے ورثاء ھوتے ھیں ، ایک دفعہ ھم علمِ وراثت کو سمجھ لیں تو یقین جانیں جس چیز کی طرف نظر اٹھے ، اس کے ورثاء فوراً ٹیگ ھو کر انسانی دل و دماغ پہ ڈسپلے ھو جائیں ،یوں موت ھر وقت نظروں کے سامنے رھے ،مولانا تقی عثمانی صاحب لکھتے ھیں کہ ان کے والد مفتی شفیع صاحب اس معاملے میں نہایت حساس تھے ، وہ اپنے کمرے میں کسی ایسی چیز کا وجود برداشت نہیں کرتے تھے ،جس کے مالک وہ خود نہ ھوں ، بعض دفعہ کھانا کھانے کے بعد پلیٹ یا گلاس اٹھانے پہ اس شدت سے اصرار کرتے کہ حیرانی ھوتی کہ ابا جی کو کیا ھو گیا ھے ؟ ایک دفعہ ایک پلیٹ یا کسی گلاس کے معاملے میں جب انہوں نے نہایت غصے سے فرمایا کہ اسے جھٹ سے میرے کمرے سے اٹھا کر لے جاؤ، تو میں نے ھمت کر کے پوچھ لیا کہ ابا جی اس میں اتنی ٹینشن والی کیا بات ھے جب گھر والے فارغ ھونگے تو اٹھا لے جائیں گے،، آخر گھر میں ھی پڑے ھیں کوئی گلی میں تو نہیں کہ کوئی اٹھا لے جائے گا ،، اس پہ مفتی صاحب نے فرمایا کہ دیکھو یہ تمہاری ماں کے جہیز کے ھیں اور اس کی ملکیت ھیں ،، میں اگر اچانک مر جاتا ھوں اور یہ میرے کمرے سے برآمد ھوتے ھیں تو میری ملکیت سمجھے جائیں گے اور یوں غلطی سے وراثت میں تقسیم ھو کر میرے عاقبت کے لئے مسئلہ بن جائیں گے ،، اللہ اللہ ،، کس تقوے والے لوگ تھے اور کتنے خدا خوف تھے کہ معمولی سمجھے جانے والی بات پہ بھی کس قدر کڑی نطر رکھی ھوئی تھی ،، دوسری جانب ھم ھیں کہ پڑوسیوں کی چیزوں سے گھر بھرے بیٹھے ھوتے ھیں اور ذرا خدشہ محسوس نہیں کرتے کہ پڑوسی تو شاید شرم سے اظہار نہ کرے ، مگر میری وراثت میں تقسیم ھو کر یہی معمولی چیز آگ کی بن کر مجھ پہ مسلط رھے گی !