اپنی ایک عادت رھی ھے،،، اچھی کہہ لیں یا بری "کہ 1980 سے ڈائری لکھنی شروع کی،، جس بات میں حکمت دیکھی،جس بات میں درد محسوس ھوا، جس بات نے کلک کیا،،چھوٹی ھو یا بڑی ” لکھ لی،، سوچا تھا بوڑھا ھو جاؤں گا تو کسی نے لفٹ نہ بھی کرائی تو چلیں اسی پہ گزارا کر لیں گے،، کبھی کبھی کھول کے بیٹھتا ھوں تو بہت ساری متضاد کیفیات سے گزرتا ھوں ! کسی نے کہا تھا ! روز جیتا ھوں،روز مرتا ھوں – جب ترے شہر سے گزرتا ھوں !! ایک صفحے پہ درد ھی درد ھوتا ھے،،آنکھیں چھلک چھلک جاتی ھیں،صفحہ الٹ دو تو مسکراھٹیں بکھر بکھر جاتی ھیں،، بالکل ساون کا سا سماں،، سنا نہیں دیکھا ھے کہ ساون کے مہینے میں رم جھم کی کیفیت کچھ ایسی ھوتی ھے کہ گائے کا ایک سینگ گیلا ھوتا ھے تو دوسرا سوکھا ! کچھ اسی قسم کی تقسیم اندر بھی ھے کہ چھوٹے سے سینے میں تپتے صحرا بھی ھیں اور جل تھل سمندر بھی،، حضرت باھو نے فرمایا تھا،،دل دریا سمندروں ڈھونگے،، کون دلاں دیاں جانے ھوں،،؟ چند دن پہلے کسی ریفرنس کے لئے ڈائری کھولی تو اپنے ممدوح جناب غامدی صاحب کے ایک پروگرام پر تبصرہ نظر سے گزرا تو درد کی ایک لہر سی اٹھی،،غامدی صاحب بھی بہت دکھی کرتے ھیں ،، پتہ نہیں کیوں اتنی تہہ در تہہ بات کرتے ھیں ،، شاید وہ اب ویسے نہ ھوں جیسے اس وقت تھے،، ھر انسان پر مختلف ادوار گزرتے ھیں،، بعض دفعہ انسان اپنے کہے کو خود ھی جھٹلا دیتا ھے،،اور اپنے لکھے کو خود ھی ماننے سے انکار کر دیتا ھے،، کاش کہ واقعی وہ ویسے نہ ھوں جیسے اس وقت تھے ! میں جو بھی دینی کتاب پڑھتا ھوں اس کے ھر مضمون کو اپنا ٹائٹل دیتا ھوں،میری پڑھی ھوئی کتابوں کے فٹ نوٹس سے کئی نئی کتابیں تصنیف کی جا سکتی ھیں،، میرے زیر استعمال قرآن مجید کے حاشیئے سیاہ ھوچکے ھیں،، ساتھ ایکسٹرا پیپر لگائے ھوئے ھیں،، عربی کتابوں پر عربی میں تبصرے ھیں تو اردو کتابوں پر اردومیں،،جب کہ انگریزی کی کتب میں اردو،عربی اور انگلش میں تبصرے موجود ھیں،، جہاں جس جگہ جو زبان تھک جاتی ھے، دوسری شروع ھو جاتی ھے،، غامدی صاحب کے پروگرام میں میری سرخی کچھ یوں ھے،،ھائے حمزہ تیری تو رونے والی بھی کوئی نہیں ” امۜا الحمزۃ فلا بواکی لہ ! تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ھے کہ غزوہ احد سے واپسی پر نبی کریمﷺ جس گلی سے گزرے شہدائے احد کا ماتم ھو رھا تھا اور خواتین کی چیخ وپکار سے مدینہ میں ایک قیامت کا سماں تھا، نبی کریمﷺ کی زبانِ مبارک سے بیساختہ ایک جملہ نکلا” ھائے حمزہ تیری تو رونے والی بھی کوئی نہیں ! اس پر صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اپنی عورتوں کو دھکے دے کر گھروں سے نکالا کہ جاؤ نبیﷺ کے گھر حمزہؓ کا ماتم کرو،،،،جناب رسالت مآب ﷺ نے حجرے کے باہر شور سنا تو استفسار کیا یہ کیا ھے؟ بتایا گیا کہ ائے اللہ کے رسولﷺ انصار کی خواتین حمزہ کا ماتم کر رھی ھیں،، اس پر مصطفیﷺ حجرے سے باھر تشریف لائے اور فرمایا اللہ نے اس سے منع کر دیا ھے،،( طبری ؛ /۲۱۰ /۲ ) میرے اس ٹائٹل کا مقصد یہ تھا کہ ھائے اسلام تیرا تو دفاع کرنے والا بھی کوئی نہیں،، مذاکرے(مذھبی عقیدے کی روایتی تعبیر) کےبقیہ تینوں شرکاء ( ڈاکٹر مبارک علی مارکسی مؤرخ ،، مجاھد کامران ،ماھرِ طبیعات ،، ڈاکٹر وحید عشرت ماھرِ فلسفہ مگر ریشنلسٹ مشہور ھیں )کا تعلق تو اسلام سے واجبی سا تھا،،اب صرف کے غامدی صاحب ھی سے کچھ امید وابستہ تھی،، اور وہ پہلے ھی اپنا عقیدہ ھاتھ پہ رکھے بیٹھے تھے ! یعنی ان کا یہ جملہ سن کر کہ ” میں جب بدھسٹ کے ساتھ مکالمے کے لئے بیٹھوں گا تو یہ سوچ کر نہیں بیٹھوں گا کہ حتمی صداقت میرے پاس ھے، بلکہ یہ سوچ کر شریکِ مکالمہ ھوں گا کہ اگر بدھسٹ مجھے قائل کر لے تو میں بدھسٹ بھی ھو سکتا ھوں ” میرے پاؤں کے نیچے سے زمین ھی نکل گئی ،،گویا غامدی صاحب ایک داعی کی حیثیت سے نہیں بلکہ حق کے متلاشی کی حیثیت سے شاملِ مکالمہ ھوں گے،، جس چیز کی طرف انہوں نے دعوت دینی تھی اس کو ایک لمحے میں وہ خود مشکوک قرار دے بیٹھے تھے،، یہ ھٹ وکٹ آؤٹ تھا،، یا پھر اون گول تھا! بدھسٹ مسلمان ھو یا نہ ھو غامدی صاحب مسلمانی سے ھاتھ دھو بیٹھے تھے،،کیونکہ یہ نیت کا معاملہ ھے،جہاں شک آتا ھے،یقین نکل جاتا ھے،،پھر باقی جو بچتا ھے وہ وھی ھے جو عبداللہ ابن ابئ کے پاس تھا،، جب انسان یہ نیت کر لے کہ میرا روزہ نہیں ھے اور اب آگے جہاں پانی ملے گا وھاں پی لوں گا،،تو اس آدمی کا روزہ وھاں ختم ھو گیا ھے،اب اگر سورج غروب ھونے تک اسے پانی نہ ملے اور وہ فزیکلی پانی نہ بھی پیئے تو بھی اس کا روزہ ختم ھو چکا ھے،، یہی معاملہ نماز کا ھے ! ستم بالائے ستم یہ کہ غامدی صاحب اپنے اس شک کو نبیﷺ کے حوالے سے اپناتے ھیں اور قرآن کو ریفرنس بناتے ھیں،، کہ گویا نبیﷺ بھی جب کسی سے مکالمہ کرتے تھے تو یقین کے حامل ایک داعی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ھدایت کے ایک متلاشی کی حیثیت سے مکالمہ کرتے تھے کہ اگر وہ مجھے قائل کر لے گا تو میں اس کے مذھب میں چلا جاؤں گا،، ان کا فرمانا یہ تھا کہ” قرآن نبی سے کہلواتا ھے کہ اے محمد ﷺان سے کہہ دو کہ اگر تمہارے پاس قرآن کے مقابلے میں کچھ ھے تو لے آؤ،، غامدی صاحب فرماتے ھیں،،قرآن کا حوالہ یہاں ختم نہیں ھوتا،بلکہ وہ اس سے آگے بڑھ کر رسولِ اکرمﷺ کے توسط سے یہ کہتا ھے کہ قرآن کے مقابلے پر جو کچھ تم لاؤ گے اگر وہ قرآن سے بڑھ کر ھوا تو میں نہ صرف یہ کہ اسے مان لوں گا بلکہ اس پر عمل بھی کروں گا” کاش غامدی صاحب صرف ایک آیت اور آگے پڑھ لیتے تو اپنے موقف کا بودا پن خود ان پر واضح ھو جاتا،، اور وہ بات کی اصل کو پا لیتے،،(القصص آیات 49 ) جبکہ بات آیت نمبر 48 سے شروع ھوئی ھے اور 50 پر ختم ھوئی ھے،، غ
امدی صاحب پچھلی آیت بھی کھا جاتے ھیں اور آخری جو فیصلہ کن آیت ھے جو اس چیلینج کی وجہ بیان کرتی ھے،اس کو بھی چھوڑ دیتے ھے،،لہٰذا بالکل ” ائے ایمان والو ! نماز کے قریب بھی نہ جاؤ” پر بات کو ختم کر دیتے ھیں،،! یوں وہ جو یقین بھرا چیلنج تھا،،غامدی صاحب نے اسے شک بھرے استفسار سے تبدیل کر دیا،، اور نبیﷺ کو بھی ھدایت کا متلاشی ایک شخص ثابت کر دیا،، گویا نبیﷺ گلی گلی دراوزے دروازے 13 سال حق کے داعی بن کر نہیں بلکہ حق کی تلاش میں دھکے کھا رھے تھے ؟؟؟ تم قتل کرو ھو کہ کرامات کرو ھو !! غامدی صاحب کے اس اصول کے مطابق خود اللہ بھی قرآن کے بارے میں شک میں مبتلا رھا کہ یہ میرا کلام ھے بھی یا نہیں،،کیونکہ اللہ بھی فرماتا ھے،، فأتوا بِسورۃٍ من مثلہ ! البقرہ،، فاتوا بعشرِ سورٍٍ مثلہ مفتریاتٍ،، ھود- قرآن جہاں بھی چیلنج دیتا ھے،،اس چیلینج کا نتیجہ بھی اسی جگہ بیان کر دیتا ھے تا کہ کوئی مغالطے میں مبتلا نہ ھو جائے ! مگر کیا کیجئے جو چلا ھی مغالطے کھانے ھو اسے کوئی کیسے بچائے،، بقرہ میں چیلنج دیا فأتوا بسورۃٍ من مثلہ،، تو اگلی آیت میں نتیجہ پیشگی بتا دیا،، فان لم تفعلوا و لن تفعلوا،، پھر اگر تم نہ کر سکو،، اور تم ھر گز ایسا نہیں کر سکو گے (بقرہ 24 ) دیکھا آپ نے کتنا چیلنج اور تحدی کا انداز ھے اللہ پاک کا؟ آگے سورہ ھود میں پھر چیلنج دیا ” فاتوا بعشرِ سورٍ مثلہ : ھود 13 ) تو اگلی آیت میں پھر نتیجہ پیشگی بتا دیا کہ اگر وہ اپ کے چیلنج کا جواب نہ دے پائیں تو سمجھ لیں کہ ھدایت کی تلاش ان لوگوں کو ھے ھی نہیں یہ لوگ اپنی خواھشات کی پیروی کر رھے ھیں،، اب آئیے سورہ قصص کی طرف جس کا حوالہ غامدی صاحب اپنے بدھسٹ ھونے کی تمنا میں پیش کرتے ھیں،، وھاں بات شروع ھوئی ھے آیت نمبر 48 سے کہ "جب ان کے پاس ھدایت آئی ھماری طرف سے( بواسطہ نبی اور قران،،جس ھدایت کو غامدی صاحب تلاشِ حق بنا رھے ھیں) تو ان یہود نے کہا کہ اس کو وہ کچھ کیوں نہیں دیا گیا جو موسی کو دیا گیا تھا؟ کیا یہ اس کا بھی کفر نہیں کر چکے جو موسی کو دیا گیا تھا،،انہوں نے کہا تھا کہ دو جادوگر ھیں جو اپنا غلبہ چاھتے ھیِں 48،،، آپ ان سے کہہ دیجئے( تورات کو تم نے نہ مانا اور قرآن کا انکار تم کر رھے ھو،،اس صورت میں) پھر لاؤ کوئی ایسی کتاب اللہ کی طرف سے جو ان دونوں سے سچی ھو تا کہ میں اس کا اتباع کروں( کیونکہ عبادت کے لئے آسمانی احکامات تو بہرحال لازم ھیں،، یہ اپنی خواھش سے تو نہیں گھڑے جا سکتے)49،، غامدی صاحب اس چیلنج کو کہ لاؤ کوئی کتاب،، تلاشِ حق کے متلاشی کی پیاس اور فریاد بنا کر پیش کرتے ھیں اور اگلی فیصلہ کن آیت کو نظر انداز کر جاتے ھیں،،اور وہ آیت وھی نتیجہ پیش کر رھی ھے جو ھر چیلنج کے بعد پیش کرتی ھے کہ” پھر اگر وہ آپکے چیلنج کا جواب نہ دے پائیں تو جان لیں کہ یہ لوگ حق کے متلاشی نہیں بلکہ خواھشِ نفس کے بندے ھیں( القصص 50 ) اس پروگرام کو 5 سال سے زیادہ ھو چلے ھیں اب اگر غامدی صاحب کے موقف میں کوئی تبدیلی آ چکی ھے اور انہوں نے اپنی اصلاح فرما لی ھے تو وہ ابھی زندہ سلامت موجود ھیں وہ اندر کی بات بتا سکتے ھیں،، ھم غامدی صاحب کو کھونا نہیں چاھتے،،