،،،، اور ان کا جواب !
الله تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید میں متعدد مقامات پر انسان کو قرآن پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن میں تضادات نہیں ہیں. ہم الله کے حکم کے عین مطابق اپنا غور جاری رکھے ہوے ہیں. الله تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ النساء کی آیت نمبر 82 میں فرماتے ہیں:
"کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ الله کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی.”
اور پھر سورہ البروج 85:21 اور 85:22 میں قرآن کو بلند پایا اور لوح محفوظ پر محفوظ بتاتے ہیں. اور سورہ یونس 10:64 میں فرماتے ہیں کہ "الله کی باتیں بدل نہیں سکتی.”
لیکن پھر الله تعالیٰ قرآن پاک ہی کی سورہ البقرہ کی آیت نمبر 106 میں فرماتے ہیں:
"ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا بھلا (بھلوا) دیتے ہیں، اس کی جگہ اس سے بہتر لاتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی. کیا تم جانتے نہیں ہو کہ الله ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے؟”
تو سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں کہ:
١. الله کی کونسی بات مانی جاے؟
٢. اگر مندرجہ بالا قرآن پاک میں تضاد نہیں ثابت کرتے ہے تو پھر تضاد کسے کہتے ہیں؟
٣. اور جب الله تعالیٰ خود ہی ہمیں غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں تو مومنین ہماری غور و فکر سے کیوں گھبراتے ہیں؟
الحمد للہ ،اللہ کی کتاب میں بالکل کوئی تناقض یا اختلاف نہیں ھے اور نہ کوئی شک ھے ، اللہ پاک نے خود فرما دیا ھے کہ اس کتاب کے سچا ھونے کی یہی دلیل کافی ھے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ،، کتاب کے شروع میں تعارف کرایا تو فرمایا ” یہ وہ کتاب ھے جس میں کوئی شک نہیں ،،، اس قبل والی کتابوں میں تحریف کر کے شک پیدا کر دیا گیا تھا ،،
قرآن حکیم لوح محفوظ کے Archive میں ایک کتاب کی صورت موجود ھے اور اس کتاب کی مصدقہ کاپی ھمارے پاس موجود ھے ،، انہ لقرآن کریم فی کتابٍ مکنون ( الواقع) یہ مرفوعہ ھے یعنی بلند ھے اپنی شان میں ،، مطھرہ ھے ،یہ پاک کرنے والا ھے ھر قسم کی شرکیہ گندگی سے ،،
جہاں فرمایا گیا ھے کہ ” لا تبدیل لکلمات اللہ ،، یا لا مبدل لکلماتہ ،، اس کے کلمات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ،، کوئی اس کے کلمات کو تبدیل نہیں کر سکتا ،،
یہ ایک چیلنج ھے ،، یہ کلمات الکونیہ ھیں ،، کائناتی حقائق ،، جن کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا ،، مگر اس میں یہ کہان کہا گیا ھے کہ خود اللہ بھی نہیں کر سکتا ؟
یہ اسی طرح کا چیلنج ھے جیسے ایک پہلوان کہتا ھے کہ کوئی اس پتھر کو نہیں اٹھا سکتا ،، تو اس کا مطلب یہ کب نکلا کہ وہ خود بھی نہیں اٹھا سکتا؟ ورنہ اپنے بارے میں تو اللہ پاک نے صاف صاف بتا دیا ھے کہ ” یمحوا اللہ ما یشاء یثبت ،، اللہ جس بات کو چاھے مٹا دے اور جس کو چاھے باقی رھنے دے
جب کائناتی کلمات کی بات ھوتی ھے تو کوئی سورج کو پلٹا کر لے آئے ،، کوئی اسے مٖغرب سے طلوع کر کے دکھا دے ، اور مشرق میں غروب کر کے دکھا دے ،، کوئی زمین کا الٹا گھما کر دکھا دے ،، دنوں کو چھوٹا بڑا کر کے دکھا دے ،، مرے ھوئے کو زندہ کر کے دکھا دے ؟ یہ وہ کلمات یعنی اللہ کے مقرر کردہ قوانینِ فطرت ھیں جن میں ،لا تبدیل لکلمات اللہ ھے ،،
دوسرے کلمات ھیں اس کے احکامات ،، جن میں وہ خود ھی انسانی سہولت کو مدنظر رکھ کر تبدیلی کرتا ھے جیسے ایک ڈاکٹر اور حکیم مریض کی حالت کے مطابق دوا تبدیل کرتے ھیں ،، ان کے بارے میں فرمایا گیا ھے کہ ھم جب بھی کوئی حکم تبدیل کرتے ھیں تو اس جیسا کوئی دوسرا یا اس سے بہتر کوئی اور حکم دیتے ھیں ،، یہ کوئی نیا اعتراض نہیں ھے ،، اللہ پاک نے خود اس کا ذکر کر کے جواب دیا ھے
” وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ ۙ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (101) قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ (102)
اور جب ھم آیت کی جگہ آیت تبدیل کرتے ھیں اور اللہ اچھی طرح جانتا ھے کہ وہ کیا نازل کرتا ھے ، یہ کہتے ھیں کہ آپ جھوٹ بولتے ھیں ،، بلکہ ان کی اکثریت جاھل ھے ، آپ کہہ دیجئے کہ اس کو تو جبریل تیرے رب کی طرف سے لے کر آیا ھے حق کے ساتھ تا کہ اھل ایمان کو ثابت قدم رکھے اور مسلمانوں کے لئے ھدایت اور بشارت کا سبب بنے ،،( النحل 101-102)
آیات کی تبدیلی اور قرآن کے موقعے کے مطابق نازل ھونے سے اھل ایمان کو رب کے ساتھ براہ راست رابطے کا احساس ھوتا تھا جس سے ان کو خوشی بھی ھوتی تھی اور دلوں میں ایمان مزید راسخ اور مصائب میں ثابت قدم رھنے کے لئے تقویت ملتی تھی ،، رابطے کا یہ احساس اس قدر قوی تھا کہ بعض دفعہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کے باوجود اس انتظار میں ھوتے کہ ابھی اللہ پاک ھمارے جذبات کو دیکھتے ھوئے اپنے رسول کو کوئی خاص حکم دے کر اس فیصلے کو منسوخ کرا دے گا ،، جیسا کہ صلح حدیبیہ کے بعد جب رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ سارے قربانیاں ادھر ھی ذبح کر کے سر منڈھا دو تو کوئی بھی نہیں اٹھا ،، جس پر حضور ﷺ رنجیدہ ھو کر اپنے خیمے میں داخل ھو گئے، اس پر ام المومنین حضرت ام سلمیؓ نے استفسار کیا کہ آہ غمزدہ کیوں ھیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ آج تک انہوں نے میری نافرمانی نہیں کی مگر اب ذبح کے لئے کوئی نہیں اٹھا ،، ام المومنینؓ نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ انہوں نے آپ کی نافرمانی نہیں کی وہ آسمان والے سے امید لگائے بیٹھے ھیں کہ وہ صلح منسوخ کر کے جہاد کا حکم دے دے گا ،، بس آپ اپنی قربانی ذبح کیجئے گا تا کہ ان کی آس ٹوٹ جائے آسمانی مداخلت کی ،، پھر دیکھئے گا ،، نبئ کریمﷺ نے جونہی اپنی قربانی ذبح کی صحابہ تڑپ کر اٹھے اور اس قدر بھِیڑ لگ گئ کہ خدشہ پیدا ھو گیا کہ ایک دوسرے کی چھریوں سے زخمی نہ ھو جائیں ،، ایسا ھی واقعہ سورہ مجادلہ میں ذکر ھوا ھے جب ایک خاتون کو اس کے شوھر نے عرب کے رواج کے مطابق ماں کہہ کر طلاق دے دی ،جب وہ حضورﷺ کے پاس حاضر ھوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ طلاق تو ھو گئ ھے کیونکہ اس وقت تک طلاق کا یہ جملہ کہ تم میرے لئے میری ماں کی طرح حرام ھو طلاق بائن سمجھا جاتا تھا ،، آپ ﷺ کا فیصلہ سن کر وہ خاتون تڑپ اٹھی اور کہا کہ ،، مجھ سے اتنے بچے پیدا کرا کر ،میرا خون چوس کر اور میری ھڈیاں کھوکھلی کر کے یہ کہتا ھے کہ میں اس کی بھی ماں ھوں اور اس کے بچوں کی بھی ماں ھوں ؟ میں اپنے رب سے اس ظلم کے خلاف فریاد کرتی ھوں ،، اچانک نبئ کریم ﷺ پر وحی کی کیفیت طاری ھوئی اور اللہ پاک نے فرمایا :
(قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ)
یقیناً سن لی ھے فریاد اللہ نے اس عورت کی جو آپ سے جھگڑ رھی ھے اپنے شوھر کے معاملے میں اور شکوہ کناں ھے اپنے رب سے ،، یقیناً اللہ دائم سننے والا دائم دیکھنے والا ھے ،، اس کے بعد اللہ پاک نے اس شخص پہ جرمانہ عائد کر کے طلاق کو اس تبصرے کے ساتھ منسوخ فرما دیا کہ تمہاری مائیں وھی ھیں جنہوں نے تم کو جنا ھے ،،