میری دادی جان کشمیر سے انگور کی بیل لائیں ،، تین چار ٹہنیاں تھی جن میں سے تین سوکھ گئیں تھیں جبکہ چوتھی کو بھی میں نے سوکھا سمجھ کر اس کو کھینچنے کی کوشش کی تو دادی جان نے دور سے ھی ڈانٹ پلا دی ،، اور ایک خالص دیسی گالی بھی عنایت فرمائی ،،اس کے بعد وہ اٹھ کر آئیں اور ھلکا سا ناخن مار کر اس ٹہنی کو چیک کیا ،،، اور ریزلٹ اناؤنس کیا کہ یہ ابھی سبز ھے ، یہ درخت اسی میں سے چلے گا ،،،،،،،،
تین سال کے بعد پاکستان جانا ھوا تو اس بیل نے ھماری کوٹھی کے چھت پہ ساری فصیل کو گھیر لیا تھا ، پڑوس میں والد صاحب کی دیوار کو بھی لپیٹ لیا تھا اور برآمدے کے سامنے اپنے انگوروں کے خوشوں سمیت جھالر بنا کر لٹک رھی تھی ، انتہائی میٹھا پھل تھا ،، میں کرسی پہ چڑھ کر انگور کا خوشہ توڑ رھا تھا کہ دادی جان نے پھر ایک ھلکی سی شوگر کوٹڈ گالی سے نواز کر یاد کرایا کہ تم تو اس کو نکال کر پھینکنے والے تھے ،،،،،،،،
کوئی انسان بھی 100٪ برا نہیں ھوتا ،، اس کی کوئی نہ کوئی ٹہنی ضرور سبز ھوتی ھے ، اور کوئی بھی انسان 100٪ اچھا نہیں ھوتا اس کی دو چار ٹہنیاں ضرور سوکھی ھوتی ھیں ،،، آپ کو اولاد سے ضرور گلے شکوے ھوں گے اور ھونے چاہئیں کیونکہ آپ ان کو نبئ کریم ﷺ کے زمانے کے بچوں ،عبداللہ ابن عباسؓ ، عبداللہ بن عمرؓ ، عبدالرحمان بن ابوبکرؓ سے موازنہ کر کے دیکھتے ھیں ،، اگر آپ اپنی اولاد کو ان کے ہمجولیوں اور آج کے نوجوانوں کے ساتھ تقابل کر کے دیکھیں تو یقیناً آپ کو ان میں سبز ٹہنی ڈھونڈنے میں کوئی دقت نہیں ھو گی ،، یاد رکھیں ساری دنیا کسی بچے کی تعریف کرتی پھرے ،، وہ ساری دنیا کے نیوز چینلز پہ ٹاک شوز کا موضوع بنا ھوا ھو ،،،،مگر خدا گواہ ھے کہ اس سب سے زیادہ خوشی اسے اپنی ماں اور اپنے باپ کی طرف سے ملنے والی شاباش پہ ھوتی ھے ،، بچہ تو ترستا پھرتا ھے کہ ماں یا باپ میں سے کوئی اس کی غیر نصابی سرگرمیوں میں دلچسپی لے ، اسے پاس بٹھا کر سوال کریں ، اس کے سر پہ پیار سے ھاتھ پھیریں ، لوگوں میں اپنے بچے کی اچھی صفت کا تذکرہ کریں جس طرح اللہ پاک اپنے نیک بندوں کے تذکرے کرتا ھے اور فرشتوں کو بلا کر فخر کا اظہار کرتا ھے ،، کتے کی طرح روٹی کھلا دینے کا نام بچے پالنا نہیں ھے ،،، انگریز کو کتے کو بھی اس سے زیادہ وقت اور پیار دیتا ھے جتنا ھم اپنے بچوں کو دیتے ھیں ،، اس سے کلاس کی چھوٹی چھوٹی باتیں پوچھیں ،، اپنے بچے کا دفاع کریں ، اس کی خطاؤں کو چھپائیں نہ کہ مرچ مسالہ لگا کر دوستوں اور سہیلیوں کو سنائیں ،، وہ اپنا اچھا بچہ آپ نہین دیں گی ،، آپ کا بچہ وھی رھے گا جس کو آپ جگہ جگہ بدنام کر رھے ھیں ،، جو شکایتیں آپ کو اپنے بچے سے ھیں وہ ساری حرکتیں دوسروں کے بچوں میں بھی ھیں ،،، دوستوں میں بیٹھے رھنا ، دیر سے آنا ، بات کو ایک کان سے سننا اور نکال دینا ،، جماعت کی نماز میں کوتاھی ،، یا نماز پڑھنے میں کوتاھی ،،یہ ساری بچپن کی Silly Mistakes ھیں جو آپ بھی کر کے آئے ھیں اور میں بھی ، اور ھمارے بچوں کے بچے بھی کریں گے ،، اگر وہ یہ نہ کریں تو بچے نہ کہلائیں "ابے ” کہلائیں ،،
اور آخری بات یہ کہ بچہ بھی ھمارے اندر ابوبکر صدیقؓ ، عمر فاروقؓ ،عثمان غنیؓ علی المرتضیؓ والی جھلک دیکھنا چاھتا ھے ،، اگر ھم عمر فاروقؓ نہیں بن سکتے تو وہ عبداللہ بن عمر کیسے بنے گا ؟ خدا را معاف کرنا سیکھیں اور اللہ کا مشورہ مان لیں ورنہ اولاد کو کھو بیٹھیں گے ،،
وَإِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ))التغابن: 14
اور اگر معاف کر دیا کرو اور صفحہ پلٹ دیا کرو اور خطا چھپا لیا کرو تو ،، بے شک اللہ بڑا غفور اور رحیم ھے ( وہ بھی تو تمہیں معاف کرتا ھے ، پچھلا گناہ بار بار نہیں دھراتا اور تمہارے عیب چھپائے رکھتا ھے ،،کیا تم رب کی نقل نہیں کر سکتے ؟