1985 کی بات ھے ھم اسی طرح کا عمامہ باندھ کر بھٹیوں کی مسجد میں جمعے کا خطبہ دے کر فارغ ھوئے تو حاجی شیر علی مرحوم نے بڑے پیار سے پاس بلایا ، شاباش دی اور کہا کہ تم نے بہت اچھی باتیں بتائی ھیں ایسی باتیں تو ھمیں میاں جعفر حسین مرحوم اور مولوی اکرم نے بھی نہیں بتائی تھیں ، حالانکہ اس کا قد ساڑھے چھ فٹ تھا – مگر پتر توں نے پگڑی الٹی باندھی ھوئی ھے ، ھم جو ابھی تعریف کو قلفی کی طرح بڑے صرفے سے چاٹ رھے تھے اس اچانک وار سے ھکا بکا رہ گئے ،، باوا جی پگڑی کے پائنچے باھر کی طرف ھو گئے ھیں ؟ ھم نے بڑی معصومیت سے اپنی پگڑی کو ٹٹولتے ھوئے سوال داغ دیا ،، پتر طواف کس طرح کرتے ھیں ،، باوا جی پگڑی بھی طواف کرتی ھے ؟ نہ پتر مگر پگڑی طواف کی طرح ( اینٹی کلاک وائز ) چکر دے کر باندھتے ھیں جبکہ تم نے طواف کے الٹ ول( چکر ) دیئے ھوئے ھیں ،،،،،،،،،،،،
ھم لیفٹ آرم باؤلر واقع ھوئے ھیں لہذا پگڑی ھو یا ناڑے کی گرہ ، یا بوٹ کے تسمے کی گرہ ،، ھم سے الٹ ھی لگتی ھیں ،، ھم سے اینٹی کلاک وائز پگڑی باندھی ھی نہیں جاتی ،، 780 سے زیادہ لوگوں نے لائیک کیا ھے مگر بڑے پڑھے لکھے اور مفتی حضرات میں سے بھی کوئی محسوس نہیں کر سکا جو ایک دیہاتی بزرگ نے جھٹ سے محسوس کر لیا تھا ،،،