بخاری شریف اور موسی علیہ السلام کے کپڑے !
November 27, 2013 at 8:37pm
مفتی صاحب ! بخاری کی کمزوری کا رونا تو کوئی نہیں رو رھا،،بخاری کی اس قوت کا رونا ھے جس نے قرآن کو بھی دبا لیا ھے،بلکہ جان نکال کر رکھ دی ھے،، اسے مشکوک بنا کر رکھ دیا ھے،، ھم بخاری کا نہیں ھم تو قرآن کا مرثیہ لکھ رھے ھیں،،، کتاب اللہ وراء ظہورھم کأنھم لا یعلمون،، اگر اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ نہ لیا ھوتا تو یہ علماء یہود کے علماء کی طرح کب کا اسے فارغ کر چکے ھوتے،، میں ھمیشہ یہ کہتا ھوں،جس حدیث پر حدیث سنانے والا عمل نہ کر سکے اس کے پیچھے مقدس راویوں کی کتنی بھی بڑی اور طاقتور فوج کیوں نہ ھو،، وہ حدیث سنانے والا منافقت کر رھا ھے ،اپنی ذات کے ساتھ بھی اور حدیث کے ساتھ بھی،، کسی گناھگار سے بھی یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ اسے کوئی ھرنیا کا طعنہ دے اور وہ شلوار اتار کر اپنی صفائی پیش کر دے،،پھر شرم آنی چاھئے ان لوگوں کو جو اللہ پر الزام رکھتے ھیں کہ جب موسی کو الگ تھلگ نہاتے دیکھ کر ان کی قوم نے کہا کہ ان میں کوئی جنسی عیب ھے جس کی وجہ سے وہ ھمارے ساتھ کپڑے اتار کر نہیں نہاتے تو،اللہ پاک نے اپنے اولوالعزم رسول کو حیاء کی سزا میں مجمعے کے سامنے مادرزاد ننگا کر دیا تا کہ وہ ان کے جنسی اعضاء اچھی طرح دیکھ لیں،، بلکہ ایک صاحب سے میں نے جب یہ تقاضا کیا کہ میں ان پر وھی الزام لگاتا ھوں جو قوم نے موسی علیہ السلام پر لگایا تھا،تو کیا وہ اپنی شلوار ابھی اتار کر دکھائیں گے؟ تو بولے وہ تو رسول اور اسوہ تھے،،اس لیئے ان کے کپڑے اتارے گئے،میں نے کہا کیا جنسی اعضاء مین اسوہ تھے؟؟ کوھستانی صاحب یہ ھی آپ لوگوں کی ھٹ دھرمی ھے جس کی وجہ سے لوگ ساری حدیثیں چھوڑ چھاڑ کر الگ ھو گئے ھیں،،لوگ دھریئے ھوتے نہیں،،ھم زبردستی ان کو بناتے ھیں،، ھم ان سے کہتے ھیں یا تو ساری بخاری مانو، یا ساری چھوڑ دو،، صرف 5 ،،10 حدیثوں کی خاطر اپ لوگوں نے ساری بخاری کو گندہ کر دیا ھے،، اور عمل بھی ان پر نہیں کرتے صرف درس و تدریس کے لئے رکھی ھوئی ھیں کیا بخاری ھی وہ کتاب ھے کہ جس کے بارے میں فرمایا گیا ھے” ذٰلک الکتابُ لا ریب فیہ؟ کیا بخاری کی کسی روایت کا انکار اسی طرح ھے جس طرح قرآن کی کسی آیت کا انکار پورے قرآن کا انکار ھے ؟؟؟ اس میں شک کوئی نہیں کہ مارکیٹ آپ کی ھے کیونکہ مسیت پاور ( مسجد منبر پاور ) آپ کے پاس ھے،،مگر یہی مارکیٹ کل آپ لوگوں کے گلے کا پھندہ بنے گی،،آج لوگ جس دور سے گزر رھے ھیں، آپ کو اس کا احساس نہیں،، شریعت لوگوں کو ھدایت دینے اور آگ سے بچانے آئی ھے،مگر ھم اسی کے ذریعے اندھا دھند انسانوں کو جہنم مین دھکیل رھے ھیں،، ھم لوگ کس کھیت کی مولی ھیں،، آپ لوگ تو حضرت عائشہؓ کو کوئی اھمیت نہیں دیتے،، ان کی رد کردہ حدیثوں پہ آپ فتوی دیتے ھیں ،،عورت کو آپ بھی کالے کتے اور گدھے کے برابر سمجھتے ھیں کیونکہ بخاری میں آیا ھے ،، پتہ نہیں بخاری سے پہلے جو مسلمان گزر گئے ھیں ان کا حشر کیا ھو گا؟ بخاری کے بغیر تو کوئی جنت میں نہیں جا سکتا،! آپ یہ بھی کہہ سکتے ھیں بلکہ کہتے نہیں فرماتے ھیں کہ ھمیں یہ بحث فیس بک پر نہیں کرنی چاھئے،، ھمیں طے کردہ اصولوں،جرح و تعدیل کے مسلمہ قاعدوں پر اس حدیث کو رکھ کر کھرے کھوٹے کا فیصلہ کرنا چاھئے ! پہلی بات اس لیئے غلط ھے کہ الحاد کی وبا جہاں ھے اسی فورم پر اس کی بحث ھو نی چاھئے،، آج ھوم ڈیلیوری کا زمانہ ھے،،پیزا سے لے کر بلیو پرنٹ سی ڈی تک سب گھر جا کر سپلائ کیا جاتا ھے،، مدرسے کون آئے گا حضرت ؟ مدرسے والے اکیلے ھی دوڑ کر پہلے نمبر پر آ رھے ھیں،، فیس بک پہ سامنا کرنے سے ھم سب کتراتے ھیں،، اور رپورٹ کر کے پیج بلاک کر دینے کو فتح مکہ سمجھتے ھیں مگر وھی پیج دوسرے دن دوسرے نام سے کام کر رھا ھوتا ھے،، رہ گئ جرح و تعدیل کے قواعد تو باقی سب پہ تو عمل ھو ھی جاتا ھے ،مگر قرآن پر پیش کرنے والا اصول امام مہدی کی طرح غار میں چلا گیا ھے،، حضرت عائشہؓ نے جن احادیث کو قرآن پر پیش کر کے رد کیا،،ھم نے راویوں کی قوت کے بل پر انہں بھی قبول کر لیا،، میں اسے جرح و تعدیل کے مسلمہ اصولوں میں سے پہلے اصول پر کہ کتاب اللہ کے خلاف کوئی روایت قبول نہیں کی جائے گی چاھے اس کی سند سورج کی طرح روشن ھو،، کے مطابق اللہ پر بہتان اور موسی علیہ السلام کی ذات پر تبرہ سمجھتا ھوں کہ جنہیں غصے میں اتنا خیال بھی نہیں رھتا کہ وہ مادر زاد ننگے ھیں اور عصا لے کر پتھر کو مارتے جاتے ھیں،،حالانکہ وہ اللہ کے رسول تھے اور پتھر کی اس حرکت سے رب کا منشا پا سکتے تھے،، پھر جس رسول کے بیوی بچے تھے اس پر کوئی شک کیسے کر سکتا تھا؟؟ اور کیا قرآان کی جس آیت کی تفسیر میں اسے بیان کیا جاتا ھے،، یاایہالذین امنوا لا تکونوا کالذین آذوا موسی ،فبرأہ اللہ مما قالوا و کان عنداللہ وجہیاً ( الاحزاب69 ) اے ایمان والو ! ان کی طرح مت ھو جاؤ جنہوں نے موسی کو اذیت دی تو اللہ نے اسے بری کر دکھایا اور وہ اللہ کے نزدیک بڑی وجاھت والا تھا !! کیا ان کی وجاھت جنسی اعضاء کی وجہ سے تھی یا کردار کی وجہ سے تھی ؟ کیا نبیﷺ کے کردار پر انگلیاں اٹھائی جا رھی تھیں حضرت زینب کو لے کر یا نبیﷺ کے جنسی اعضاء پر ؟؟؟؟ یہاں جنسی اعضاء کا تقابل اذیت کے کن معنوں میں استعمال فرمایا جا رھا ھے،،جب مثال دی جاتی ھے تو کوئی مماثلت ھوتی ھے جس کی وجہ سے دی جارھی ھے،، قارون نے ایک عورت کو پیسے دے کر موسی علیہ السلام پر الزام لگانے کو تیار کر لیا تھا،مگر جب وہ عورت الزام لگانے کھڑی ھوئی تو اللہ نے اس کی زبان سے ھی حقیقت بیان کروا دی،،یہ تو اللہ کا کارنامہ ھوا جس کا اللہ پاک ذکر بڑے فخر سے فرما رھے ھیں،، اور چونکہ اسی قسم کے الزام نبیﷺ کی ذات پر بھی لگائے جا رھے تھے کہ
انہوں نے زینب بنت جحشؓ زوجہ زید بن حارثہ کو نہاتے ھوئے دیکھا تو وہ ان کے دل میں اتر گئیں اور دوسری جانب زید کے دل سے اتر گئیں،، ان بکواسات کے بارے میں مومنوں کا خبردار کر کے کہا جا رھا ھے کہ ھر اولی العزم رسول پر یہ وار ھوا ھے،،تم اپنی زبانیں اس سے آلودہ نہ کرو ،،بلکہ ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی،، یا ایہاالذین امنوآ صلو علیہ و سلموا تسلیماً،، اب آیئے قران کہتا ھے کہ کپڑے شیطان اترواتا ھے اللہ ایسا بے حیائی کا کام نہیں کرتا،، سورہ الاعراف کی آیت 22 میں آدم علیہ السلام اور اماں حوا کے کپڑے اترنے اور پھر ان کی حیاء کی ادا کا ذکر کیا کہ وہ درخت کے پتوں سے اپنے کو ڈھانکنے لگ گئے،، آگے اس واقعے کو بنیاد بنا کر آیت 25 سے لباس کو موضوع بنایا ھے اور فرمایا ھے کہ اے اولادِ آدم ھم نے لباس ان مقاصد کے لئے نازل کیا ھے،اور اس لباس کی یہ یہ خصوصیات ھونی چاھیں،، اگلی آیت نمبر 26 میں فرمایا ،،اے اولادِ آدم شیطان کہیں تمہیں فتنے میں مبتلا کر کے تمہارے کپڑے اسے طرح نہ اتروا دے جس طرح تمہارے ماں باپ کے کپڑے اتروا کر انہیں جنت سے نکلوا چکا ھے،، پھر اگلی آیت میں معاملے کو ختم کیا کہ یہ لوگ ایسا ظلم کر کے جواز پیش کرتے ھیں کہ اللہ نے ھمیں حکم دیا ھے ” بخاری کے اصول سے زیادہ مسلمہ اصول دیا ” قل ان اللہ لا یامر بالفحشاء” آپ کہہ دیجئے اللہ بے حیائ کا حکم نہیں دیتا ! تو جناب،،جو اللہ لباس اتروانے کو شیطان کی طرف منسوب کرتا ھے آپ اس اللہ کو حدیث پیش کر کے یہ کہنا چاھتے ھیں کہ ” معاف کیجئے گا ھمارے ثقہ راویوں کے مطابق آپ خود بھی یہ کارنامہ موسی علیہ السلام کے ساتھ انجام دے چکے ھیں !!
ذرا پوری حدیث پڑھ لیجئے تا کہ آپ کا ایمان تازہ ھو جائے
Bazm e Raza Sheikhupura shared a status. October 27دوڑنے والا پتھر
یہ ایک ہاتھ لمبا ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا، جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جھولے میں رہتا تھا۔ اس مبارک پتھر کے ذریعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو معجزات کا ظہور ہوا۔ جن کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہوا ہے۔ پہلامعجزہ:۔اس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا وہ اس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور یہی معجزہ اس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔ اس کا مفصل واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ عام دستور تھا کہ وہ بالکل ننگے بدن ہو کر مجمع عام میں غسل کیا کرتے تھے۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام گو کہ اسی قوم کے ایک فرد تھے اور اسی ماحول میں پلے بڑھے تھے، لیکن خداوند قدوس نے اُن کو نبوت و رسالت کی عظمتوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ اس لئے آپ کی عصمتِ نبوت بھلا اس حیا سوز بے غیرتی کو کب گوارا کرسکتی تھی۔ آپ بنی اسرائیل کی اس بے حیائی سے سخت نالاں اور انتہائی بیزار تھے اس لئے آپ ہمیشہ یا تو تنہائی میں یا تہبند پہن کر غسل فرمایا کرتے تھے۔ بنی اسرائیل نے جب یہ دیکھا کہ آپ کبھی بھی ننگے ہو کر غسل نہیں فرماتے تو ظالموں نے آپ پر بہتان لگا دیا کہ آپ کے بدن کے اندرونی حصہ میں یا تو برص کا سفید داغ یا کوئی ایسا عیب ضرور ہے کہ جس کو چھپانے کے لئے یہ کبھی برہنہ نہیں ہوتے اور ظالموں نے اس تہمت کا اس قدر اعلان اور چرچا کیا کہ ہر کوچہ و بازار میں اس کا پروپیگنڈہ پھیل گیا۔ اس مکروہ تہمت کی شورِش کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قلب نازک پر بڑا صدمہ و رنج گزرا اور آپ بڑی کوفت اور اذیت میں پڑ گئے۔ تو خداوند قدوس اپنے مقدس کلیم کے رنج و غم کو بھلا کب گوارا فرماتا۔ اور اپنے ایک برگزیدہ رسول پر ایک عیب کی تہمت بھلا خالق عالم کو کب اور کیونکر اور کس طرح پسند ہو سکتی تھی۔ اَرحم الرَّاحمین نے آپ کی برأت اور بے عیبی ظاہر کردینے کا ایک ایسا ذریعہ پیدا فرما دیا کہ دم زدن میں بنی اسرائیل کے پروپیگنڈوں اور اُن کے شکوک و شبہات کے بادل چھٹ گئے اور آپ کی برأت اور بے عیبی کا سورج آفتاب عالمتاب سے زیادہ روشن و آشکارا ہو گیا۔ اور وہ یوں ہوا کہ ایک دن آپ پہاڑوں کے دامنوں میں چھپے ہوئے ایک چشمہ پر غسل کے لئے تشریف لے گئے اور یہ دیکھ کر کہ یہاں دور دور تک کسی انسان کا نام و نشان نہیں ہے، آپ اپنے تمام کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ کر اور بالکل برہنہ بدن ہو کر غسل فرمانے لگے، غسل کے بعد جب آپ لباس پہننے کے لئے پتھر کے پاس پہنچے تو کیا دیکھا کہ وہ پتھر آپ کے کپڑوں کو لئے ہوئے سرپٹ بھاگا چلا جا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اس پتھر کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگے کہ ثوبی حجر، ثوبی حجر۔ یعنی اے پتھر!میرا کپڑا ۔ اے پتھر میرا کپڑا۔ مگر یہ پتھر برابر بھاگتار ہا۔ یہاں تک کہ شہر کی بڑی بڑی سڑکوں سے گزرتا ہوا گلی کوچوں میں پہنچ گیا۔ اور آپ بھی برہنہ بدن ہونے کی حالت میں برابر پتھر کو دوڑاتے چلے گئے ۔اس طرح بنی اسرائیل کے ہر چھوٹے بڑے نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ سر سے پاؤں تک آپ کے مقدس بدن میں کہیں بھی کوئی عیب نہیں ہے بلکہ آپ کے جسم اقدس کا ہر حصہ حسن و جمال میں اس قدر نقطہ کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ عام انسانوں میں اس کی مثال تقریباً محال ہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے ہر ہر فرد کی زبان پر یہی جملہ تھا کہ وَاللہِ مَابِمُوْسٰی مِنْ بَاس یعنی خدا کی قسم موسیٰ بالکل ہی بے عیب ہیں۔ جب یہ پتھر پوری طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی برأت کا اعلان کرچکا تو خود بخود ٹھہر گیا۔ آپ نے جلدی سے اپنا لباس پہن لیا اور اس پتھر کو اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا۔ (بخاری شریف، کتاب الانبیاء، باب ۳۰،ج۲، ص۴۴۲،رقم ۳۴۰۴ ،تفسیر الصاوی،ج۵،ص۱۶۵۹،پ۲۲،الاحزاب:۶۹ ) اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمایا کہ:۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اٰذَوْا مُوۡسٰی فَبَرَّاَہُ اللہُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَکَانَ عِنۡدَ اللہِ وَجِیۡہًا ﴿69﴾ ترجمہ کنزالایمان:۔ اے ایمان والو اُن جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے اسے بری فرما دیا اس بات سے جو اُنہوں نے کہی۔ اور موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69)
انہوں نے زینب بنت جحشؓ زوجہ زید بن حارثہ کو نہاتے ھوئے دیکھا تو وہ ان کے دل میں اتر گئیں اور دوسری جانب زید کے دل سے اتر گئیں،، ان بکواسات کے بارے میں مومنوں کا خبردار کر کے کہا جا رھا ھے کہ ھر اولی العزم رسول پر یہ وار ھوا ھے،،تم اپنی زبانیں اس سے آلودہ نہ کرو ،،بلکہ ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی،، یا ایہاالذین امنوآ صلو علیہ و سلموا تسلیماً،، اب آیئے قران کہتا ھے کہ کپڑے شیطان اترواتا ھے اللہ ایسا بے حیائی کا کام نہیں کرتا،، سورہ الاعراف کی آیت 22 میں آدم علیہ السلام اور اماں حوا کے کپڑے اترنے اور پھر ان کی حیاء کی ادا کا ذکر کیا کہ وہ درخت کے پتوں سے اپنے کو ڈھانکنے لگ گئے،، آگے اس واقعے کو بنیاد بنا کر آیت 25 سے لباس کو موضوع بنایا ھے اور فرمایا ھے کہ اے اولادِ آدم ھم نے لباس ان مقاصد کے لئے نازل کیا ھے،اور اس لباس کی یہ یہ خصوصیات ھونی چاھیں،، اگلی آیت نمبر 26 میں فرمایا ،،اے اولادِ آدم شیطان کہیں تمہیں فتنے میں مبتلا کر کے تمہارے کپڑے اسے طرح نہ اتروا دے جس طرح تمہارے ماں باپ کے کپڑے اتروا کر انہیں جنت سے نکلوا چکا ھے،، پھر اگلی آیت میں معاملے کو ختم کیا کہ یہ لوگ ایسا ظلم کر کے جواز پیش کرتے ھیں کہ اللہ نے ھمیں حکم دیا ھے ” بخاری کے اصول سے زیادہ مسلمہ اصول دیا ” قل ان اللہ لا یامر بالفحشاء” آپ کہہ دیجئے اللہ بے حیائ کا حکم نہیں دیتا ! تو جناب،،جو اللہ لباس اتروانے کو شیطان کی طرف منسوب کرتا ھے آپ اس اللہ کو حدیث پیش کر کے یہ کہنا چاھتے ھیں کہ ” معاف کیجئے گا ھمارے ثقہ راویوں کے مطابق آپ خود بھی یہ کارنامہ موسی علیہ السلام کے ساتھ انجام دے چکے ھیں !!
ذرا پوری حدیث پڑھ لیجئے تا کہ آپ کا ایمان تازہ ھو جائے
Bazm e Raza Sheikhupura shared a status. October 27دوڑنے والا پتھر
یہ ایک ہاتھ لمبا ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا، جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جھولے میں رہتا تھا۔ اس مبارک پتھر کے ذریعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو معجزات کا ظہور ہوا۔ جن کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہوا ہے۔ پہلامعجزہ:۔اس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا وہ اس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور یہی معجزہ اس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔ اس کا مفصل واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ عام دستور تھا کہ وہ بالکل ننگے بدن ہو کر مجمع عام میں غسل کیا کرتے تھے۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام گو کہ اسی قوم کے ایک فرد تھے اور اسی ماحول میں پلے بڑھے تھے، لیکن خداوند قدوس نے اُن کو نبوت و رسالت کی عظمتوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ اس لئے آپ کی عصمتِ نبوت بھلا اس حیا سوز بے غیرتی کو کب گوارا کرسکتی تھی۔ آپ بنی اسرائیل کی اس بے حیائی سے سخت نالاں اور انتہائی بیزار تھے اس لئے آپ ہمیشہ یا تو تنہائی میں یا تہبند پہن کر غسل فرمایا کرتے تھے۔ بنی اسرائیل نے جب یہ دیکھا کہ آپ کبھی بھی ننگے ہو کر غسل نہیں فرماتے تو ظالموں نے آپ پر بہتان لگا دیا کہ آپ کے بدن کے اندرونی حصہ میں یا تو برص کا سفید داغ یا کوئی ایسا عیب ضرور ہے کہ جس کو چھپانے کے لئے یہ کبھی برہنہ نہیں ہوتے اور ظالموں نے اس تہمت کا اس قدر اعلان اور چرچا کیا کہ ہر کوچہ و بازار میں اس کا پروپیگنڈہ پھیل گیا۔ اس مکروہ تہمت کی شورِش کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قلب نازک پر بڑا صدمہ و رنج گزرا اور آپ بڑی کوفت اور اذیت میں پڑ گئے۔ تو خداوند قدوس اپنے مقدس کلیم کے رنج و غم کو بھلا کب گوارا فرماتا۔ اور اپنے ایک برگزیدہ رسول پر ایک عیب کی تہمت بھلا خالق عالم کو کب اور کیونکر اور کس طرح پسند ہو سکتی تھی۔ اَرحم الرَّاحمین نے آپ کی برأت اور بے عیبی ظاہر کردینے کا ایک ایسا ذریعہ پیدا فرما دیا کہ دم زدن میں بنی اسرائیل کے پروپیگنڈوں اور اُن کے شکوک و شبہات کے بادل چھٹ گئے اور آپ کی برأت اور بے عیبی کا سورج آفتاب عالمتاب سے زیادہ روشن و آشکارا ہو گیا۔ اور وہ یوں ہوا کہ ایک دن آپ پہاڑوں کے دامنوں میں چھپے ہوئے ایک چشمہ پر غسل کے لئے تشریف لے گئے اور یہ دیکھ کر کہ یہاں دور دور تک کسی انسان کا نام و نشان نہیں ہے، آپ اپنے تمام کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ کر اور بالکل برہنہ بدن ہو کر غسل فرمانے لگے، غسل کے بعد جب آپ لباس پہننے کے لئے پتھر کے پاس پہنچے تو کیا دیکھا کہ وہ پتھر آپ کے کپڑوں کو لئے ہوئے سرپٹ بھاگا چلا جا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اس پتھر کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگے کہ ثوبی حجر، ثوبی حجر۔ یعنی اے پتھر!میرا کپڑا ۔ اے پتھر میرا کپڑا۔ مگر یہ پتھر برابر بھاگتار ہا۔ یہاں تک کہ شہر کی بڑی بڑی سڑکوں سے گزرتا ہوا گلی کوچوں میں پہنچ گیا۔ اور آپ بھی برہنہ بدن ہونے کی حالت میں برابر پتھر کو دوڑاتے چلے گئے ۔اس طرح بنی اسرائیل کے ہر چھوٹے بڑے نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ سر سے پاؤں تک آپ کے مقدس بدن میں کہیں بھی کوئی عیب نہیں ہے بلکہ آپ کے جسم اقدس کا ہر حصہ حسن و جمال میں اس قدر نقطہ کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ عام انسانوں میں اس کی مثال تقریباً محال ہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے ہر ہر فرد کی زبان پر یہی جملہ تھا کہ وَاللہِ مَابِمُوْسٰی مِنْ بَاس یعنی خدا کی قسم موسیٰ بالکل ہی بے عیب ہیں۔ جب یہ پتھر پوری طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی برأت کا اعلان کرچکا تو خود بخود ٹھہر گیا۔ آپ نے جلدی سے اپنا لباس پہن لیا اور اس پتھر کو اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا۔ (بخاری شریف، کتاب الانبیاء، باب ۳۰،ج۲، ص۴۴۲،رقم ۳۴۰۴ ،تفسیر الصاوی،ج۵،ص۱۶۵۹،پ۲۲،الاحزاب:۶۹ ) اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمایا کہ:۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اٰذَوْا مُوۡسٰی فَبَرَّاَہُ اللہُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَکَانَ عِنۡدَ اللہِ وَجِیۡہًا ﴿69﴾ ترجمہ کنزالایمان:۔ اے ایمان والو اُن جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے اسے بری فرما دیا اس بات سے جو اُنہوں نے کہی۔ اور موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69)