یادش بخیر ھم جاوید احمد غامدی کے سکہ بند مخالفین میں شامل تھے ، دامے درمے سخنے بلکہ بعض دفعہ ” دستے ” بھی ان کی مخالفت کرتے رھے ھیں ، اپنے جس عزیز کو پِیٹ سکتے تھے اسے پیٹ کر بھی روکا ھے اور جس کا خرچہ بند کر سکتے تھے خرچہ بند کر کے بھی بلیک میل کیا ھے اور جس کو سمجھا سکتے تھے سمجھایا بھی ھے ،،،
مگر سو بُری عادتوں کے ساتھ ،،،،،،،،،،،،،،،، میرے مولا کریم کا مجھ ناچیز پر بہت بڑا احسان ھے کہ اس نے مجھے ھر قسم کے تعصب سے پاک رکھا ھے اور ایک صاف ضمیر اور سلیم فطرت سے نوازا ھے ، حق ھم پر کھُل جائے تو اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ھوں کہ پھر ھر قسم کے خدشے کو بالا ئے طاق رکھ کر اس کی پیروی کرتا ھوں اور اس کا دفاع بھی اپنا دینی فریضہ سمجھ کر کرتا ھوں ،،،،، میرے فیس بک کے پرانے دوستوں کو کچھ نہ کچھ اندازہ ھو گیا ھو گا ۔۔ میں تسلیم کرتا ھوں کہ جاوید صاحب کی مخالفت صرف اکابر کی رائے پہ مبنی تھی، میں نے ان کو سرے سے پڑھا ھی نہیں تھا ، یہ انسانی فطرت ھے کہ وہ جس پہ اعتماد کرتا ھے اس کے کہنے سے زھر بھی شھد سمجھ کر کھا لیتا ھے ، کوئی بچہ یہ تصور تک نہیں کر سکتا کہ اس کی ماں جو چائے پلا رھی ھے یا کھانا کھلا رھی ھے اس میں زھر ملا ھوا ھے ، اسی طرح کوئی شوھر تصور نہیں کر سکتا کہ اس کی بیوی اس کو روزانہ کی بنیاد پر سلو پوائزن دے رھی ھے ، ھم علماء سے اپنے والدین سے زیادہ محبت کرتے ھیں نیز اللہ اور رسول ﷺ کے بعد ان ھی پر سب سے زیادہ اعتماد کرے ھیں بلکہ اللہ اور رسول ﷺ کو بھی ان ھی کی تشریح و وضاحت کی روشنی میں جانتے اور مانتے ھیں – عجیب بات ھے کہ میں جس تک بھی پہنچا ھوں اس کی تعریف سن کر نہیں بلکہ اس کی تنقید پر مبنی کتابیں پڑھ کر پہنچا ھوں ،، سید مودودی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تک بھی مجھے اسی تنقید نے پہنچایا تھا ،، پھر مولانا مفتی محمد یوسف بونیری رحمۃ اللہ علیہ کی لکھی دو جلدوں ” مولانا مودودی پر اعتراضات کا علمی جائزہ ” نے مجھے اپنے اکابر کے بارے میں چونکا کر رکھ دیا ، مفتی صاحب دیوبند کے فارغ التحصیل تھے ، مولانا حسین احمد مدنی کے مرید اور خلیفہ مجاز تھے ،، اسلامی شرعی عدالت کے قاضی تھے ،جب سوات ایک ریاست تھی ،، جس شخص نے یہ دو جلدیں پڑھ لیں اس پر علم کے دروازے بھی کھل جائیں گے ، فقھی موشگافیوں کی حقیقت بھی واضح ھو جائے گی ،، وہ تمام الزامات جو سید مودودیؒ پر لگائے گئے تھے مفتی صاحب نے ثابت کیا کہ یہی کچھ اسلاف بھی کہتے آئے ھیں بلکہ اسلاف مودودی سے زیادہ سخت زبان استعمال کرتے رھے ھیں ،،مودودی تو الفاظ کو زم زم سے دھو کر استعمال کرتے ھیں ،،بہرحال میں سفارش کرونگا کہ کہ ھر وہ شخص جو سید مودودی کے خلاف زبان کھولتا ھے ، اس کتاب کو پڑھ لے کیونکہ حشر میں تانبے کی بنی گرم زمین پہ کھڑے ھو کر اپنی دشنام طرازیوں کا جواب دینے سے بہتر ھے کہ اے سی میں بیٹھ کر اس کتاب کو پڑھ کر توبہ کر لی جائے ،،
ڈاکٹر فرحت ھاشمی تک مجھے مفتی محمد اسماعیل طورو صاحب کی کتاب ” الھدی انٹرنیشنل کیا ھے ؟ ” نے پہنچایا یہ ایک تنقیدی فتوی تھا جس نے مجھ پر الٹا اثر کیا ،، اس کتاب نے ڈاکٹر فرحت ھاشمی کی بیگناھی بھی ثابت کی اور ان کی عظمت کو بھی اجاگر کیا ، جس پر میں نے” الھدی انٹرنیشنل ایک بے مثل تحریک ) Alhuda a unique Movement ،،،،،،،،،،
جاوید احمد غامدی صاحب کا لٹریچر میں نے نہیں پڑھا مجرد اکابر علماء اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی رائے میں اپنی رائے گم کر دی تھی ، لطف کی بات یہ ھے کہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم تک مجھے ان کے خلاف نکلنے والے بیگمات کے جلوس لے گئے تھے ، ،،
خیر جاوید احمد غامدی صاحب پر لکھی گئ مختلف مفتیوں کی کتابیں اور فتوے پڑھنے کے بعد مجھے ان کے بودے پن کا احساس بڑی شدت سے ھوا ،، اور میں نے ان کو پڑھنے ، سننے اور ملنے کا من بنا لیا ،، جس گوشت کو پکانے کے مختلف طریقے ھوتے ھیں ، اس کی آٹھ دس ڈشیں مختلف ناموں سے بنائی جا سکتی ھیں ، ھوتا وھی گوشت ھے مگر ھر شخص کا اپنا مزاج اور طریقہ تقدیم ” Way of presentation ” اس کی ورائٹی کو بدل دیتا ھے ، اسی طرح مواد وھی تھا ، دلائل وھی تھی ،، اعتراضات وھی تھے مگر ھر مفتی مصالحہ اپنے مزاج کے مطابق ڈالتا رھا ھے ،، میں نے ایک دوست سے بات کی اور براہ راست لاھور سے المیزان کے دروس کی ریکارڈنگ منگوا لی ،، ایک ایک گھنٹے کے صرف پہلے دو دروس سننے کے بعد میرے تمام شکوک و شبہات دور ھو گئے اور میں سمجھ گیا کہ جس فریکوئینسی پر یہ بندہ بول رھا ھے ،، ھمارے علماء انہیں تب تک نہیں سمجھ سکتے جب تک خود ان کو سن نہ لیں ،، بات ھر کوئی کرتا ھے مگر ھر شخص کی بات قبول نہیں ھوتی جب تک اس کے پیچھے قابلِ قبول شخصیت موجود نہ ھو ،، وہ شخصیت اس کا اخلاق ، ملنے کا انداز وہ Drivers ھوتے ھیں جو انسان میں اس کی کہی گئ بات کو انسٹال کرتے اور پھر کھولتے اور چلاتے ھیں ،،،،،،،،،
میں 54 سال کی عمر میں غامدی صاحب سے ملا تھا ، اور پہلے دس بارہ سال کو چھوڑ کر میں انسانی زندگی کے ایسے ایسے مراحل سے گزر کر آیا تھا کہ یوں لگتا ھے کہ گویا ایک انسان کے اندر دس انسان ھیں ، میں کٹر بریلوی رھا ، پانچویں کلاس میں تھا جب پیر عبداللہ شاہ صاحب پیر آف بھنگالی کے ھاتھ پہ بیعت ھوا،، پھر سلسلہ نقشبندیہ میں خلیفہ مجاز بنا ، جناب پرویز صاحب کو پڑھا ، سید مودودی صاحب کو پڑھا ، ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی تنظیم کا حصہ رھا ، دیوبندی اکابر کی جوتیاں سیدھی کیں ، مولانا یوسف لدھیانوی ، جناب عزیز الرحمان جالندھری ، مولانا خان محمد کندیاں شریف سمیت تقریباً درجن بھر اکابر کی مہینہ بھر میزبانی کا شرف حاصل رھا جس زمانے میں مرزا طاھر فرار ھو کر لندن منتقل ھوا تھا اور ھم نے اس کے بالمقابل تین گرجے خرید کر اپنا مرکز بنانا تھا ،، ان کے ٹی وی اسٹیشن کے مقابلے میں اپنا ٹی وی اسٹیشن بنانے کا پروگرام بن گیا ، ایک سعودی نے امریکہ میں ایک ڈیفالٹ کر جانے والے ٹی وی اسٹیشن کی تما مشینری خرید کر لندن منتقل کرنے کا سلسلہ شروع کیا ھی تھا کہ جناب یعقوب باوا صاحب نے جو کہ لندن شاخ کے ذمہ دار تھے مذھبی بنیاد پر اس کی مخالفت کر دی کہ ٹی وی حرام ھے اور حرام سے تبلیغ نہیں کی جائے گی اور اگر ایسا ھوا تو میں استعفی دے دونگا ،، جمیعت ختم نبوت کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کے لئے اس پروگرام کو منسوخ کر دیا گیا ،، اس اسٹیشن کا انچارج مجھے بنانے کا فیصلہ ھوا تھا اور جس رات یہ فیصلہ ھوا وہ ساری رات میں نے نوافل میں روتے ھوئے گزار دی تھی کہ اللہ پاک نے مجھے ختم نبوت کے لئے کام کرنے کے لئے چنا تھا اور یہ سعادت بخشی تھی ، اور آج بھی میرا مشن ختمِ نبوت کی خاطر جان دینا ھی ھے ،،
جاری ھے