ھمارے یہاں جس طرح سلاطین کےمحض چند واقعات کو بنیاد بنا کر ماضی کو سنہرا کر کے دکھایا جاتا رھا ، اسی کا نتیجہ ھے کہ آج وہ سوچ ابھری ھے جو ماضی کی طرح لوگوں کو تہہ تیغ کر کے نیکی اور تقوے کا بول بالا کرنے کے لئے مختلف گروہ بنا کر اسلام کی بدنامی کا باعث بن رھی ھے ، بوکوحرام سے آزاد کرائی گئ خواتین کے واقعات سنیں تو چنگیز خان یاد آ جاتا ھے ،، الشباب والوں نے شاپنگ سنٹر میں پہلے خواتین سے قرآن کی سورتیں سن کر ان کو غیر مسلموں سے الگ کیا اور پھر ٹھیک ماتھے پہ پسٹل رکھ کر گولی مار دی کہ ثابت ھو گیا ھے کہ تم مسلمان ھو مگر پردہ نہیں کیا ھوا تھا ،، داعش نے جو کچھ شام عراق اور کردستان میں کیا ھے ،، اسرائیل بھی اس کے سامنے کچھ نہیں ،، یہ درندے کسی مسلک سے تعلق نہیں رکھتے ،، سنی اسی پر خوش تھے کہ یہ ھم کو شیعہ ختم کر دیں گے ،مگر کردستان کی سنی آبادی کے مردوں اور عورتوں کے ساتھ انہوں نے جو کچھ کیا ھے وہ انسانیت سوز ھی کہا جا سکتا ھے ،،
جن واقعات کی بنیاد پر ماضی کو سنہرا دکھایا جاتا ھے وہ یورپ میں آج کا معمول ھے ، اور عوام اپنے نمائندوں سے اس کی توقع رکھتے ھیں ،،
بش جونیئر کے بھائی اور بش سینئر کے بیٹے کی بیٹی شراب نوشی کے بعد گاڑی چلانے کے جرم میں پکڑی گئ ، اس کا باپ ٹیکساس کا گورنر تھا ،، تایا سٹنگ صدرِ امریکہ تھا اور دادا سابقہ صدرِ امریکہ تھا ،، مگر نہ تو اسے جیل میں کوئی بہتر کلاس دی گئ ، نیز اس کا باپ گورنر ھونے کے باوجود لائن میں لگ کر اپنی باری پر اپنی بیٹی سے ملاقات کرتا تھا ،، ٹونی بلیئر پر جرمانہ اور اس کا اپنے گارڈ سے پیسے ادھار لے کر جرمانہ بھرنا ، اس کی بیوی کا چالان ،، برطانوی وزیر اعظم کا اپنے بچے پرائیویٹ اسکول سے اٹھا کر دوبارہ سرکاری اسکول میں داخل کرانا جہاں عوام کے بچے پڑھتے ھیں ،، الغرض ھم جو خبر چودہ سو سال پرانی سناتے ھیں وہ ان پر 24 گھنٹے گزرتی ھے ،، ان داستانوں کا دھواں اٹھا کر ایک اسموک اسکرین بنائی جاتی ھے جو نوجوانوں کو اندھا بہرا کر دیتی ھے اور پھر ان سے انسانیت کا قتل کرایا جاتا ھے ،، اور ھم اس لئے ان کا دفاع کرتے ھیں کہ ان کا تعلق ھمارے مسلک سے ھے ، جو لوگ مسلکی بنیادوں پر ان دھشت گردوں کی کھُلی یا خاموش حمایت کرتے ھیں وہ اپنے نبی ﷺ اور اس نبی کی امت سے خیانت کرتے ھیں ،، نبئ کریم ق کے فرمان کے مطابق جس نے ایک کلمے سے بھی کسی کے قتل میں مدد کی اللہ اسے ضرور جھنم کا غوطہ لگوائے گا چاھے وہ کوئی بھی ھو ،، تعجب کی بات یہ ھے کہ ان دھشت گردوں کے اکا دکا مظالم کی مذمت تو کر دی جاتی ھے اور وہ بھی قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے ،مگر اس سوچ کو مزید پروان چڑھایا جا رھا ھے ، اور اس سوچ کو جہاد کہا جا رھا ھے ، جبکہ اصل جہاد اس سوچ کے سامنے خم ٹھوک کر کھڑا ھونا ھے اور اس کی یک زبان ھو کر مذمت کرنی ھے ،، خاموشی بھی تائید ھی ھوتی ھے اور یہ خاموش تائید جرم ھے ،،، جس حرم میں گھاس کا تنکا توڑنا منع ھے جب حجاج نے اس حرم کو لہو سے ڈبو دیا تھا تو کیا یہ داعشیت نہیں تھی ؟ جس خلیفہ کے زیرِ فرمان یہ سب کچھ کیا گیا تھا ،،، وہ ابوبکر بغدادی سے بڑا دھشت گرد نہیں تھا ،مگر تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے اس کو بھی بہت اچھا اور رحم دل خلیفہ کہا گیا ھے کیونکہ اس نے حجاج کو لکھا تھا کہ عبداللہ بن زبیرؓ کی پاؤں سے باندھ کر بے سر کی الٹی لاش اتار کر اس کی ماں اسماءؓ کو واپس دے دو ،یہ وھی عبداللہ ابن زبیر ھے جو مکی مہاجروں میں پیدا ھونے والا پہلا بچہ تھا جس کے پیدا ھونے پہ مسلمانوں نے خوشیاں منائی تھیں کیونکہ یہود نے مشہور کر رکھا تھا کہ ھم نے مہاجرین کی نسل پر جادو سے بندش کر دی ھے ان کے یہاں اولاد نہیں ھو گی – ، اخر کسی نے سوچا ھے کہ یہ انسانیت کے قاتل کس چیز کا سہارا لے کر ھر دس بیس سال بعد نمودار ھو جاتے ھیں ،، ؟القاعدہ ھو یا داعش ،بوکو حرام ھو یا الشباب ، ایک ھی کینسر کی گلٹیاں ھیں جو کہیں بغل کے نیچے نکلتی ھے تو کبھی ران کے نیچے اور کبھی گردن میں ،، جب تک اس سراب کی حقیقت دنیا کے سامنے عیاں نہیں ھو گی جس کا خواب دکھا کر جوانوں کو بھڑکایا اور مروایا جاتا ھے ، تب تک اس فاسد سوچ کا رستہ نہیں روکا ، جا سکتا ، تعجب ھے ان لوگوں پر جو ان قاتل گروھوں کی وارداتوں سے تو اعلانِ برأت کرتے ھیں مگر جس سوچ اور فکر پر یہ قاتل گروہ پیدا ھوتے اور پلتے اور بڑھتے ھیں اس کی تصویب اور حمایت کرتے ھیں
.
جہاد جہاد کی رٹ لگانے والوں سے گزارش ھے کہ جہاد وھی ھے وھی ھے جس کا اعلان حکومت کرے ، فسادی گروہ ضرور پیدا ھوتے رھے ھیں ،، گلبدین اور احمد شاہ میں کونسا جہاد ھو رھا تھا ؟ اورنگ زیب اور شاہجہاں میں کونسا جہاد ھو رھا تھا ؟ ابدالی اور مغلوں میں کونسا جہاد ھو رھا تھا ؟ بنو عباس اور بنو امیہ میں کونسا جہاد ھو رھا تھا ؟
ھم جہاد کے منکر نہیں بلکہ فساد کے منکر ھیں اور آپ ھمیں جہاد کے منکر کہہ کر خود فساد کی تائید کرتے ھو ،، نکاح اور زنا میں عملی کو فرق نہیں ھوتا ،،نظری فرق ھوتا ھے ،جو شرائط کے ساتھ پڑھا جائے تو ھی نکاح کہلاتا ھے ،، فسادِ شرط کے ساتھ وہ زنا ھی قرار پاتا ھے ،،