پہلی اسلامی ریاست المدنیہ قائم ھوتے ھی اللہ پاک نے بین الریاستی تعلقات کا ایک بہترین اصول دیا اور اس پر زوردار تنبیہہ فرما دی کہ اگر اس اصول کی خلاف ورزی کرو گے تو زمین میں ایک عظیم فتنہ و فساد بپا ھو جائے گا ،، یہ واحد جگہ ھے جہاں فتنہ اور فساد دونوں کو جمع کیا گیا ھے ،،،،،،،،، وہ اصول یہ ھے کہ جو مسلمان اسلامی ریاست کے اندر ھے اس کی جان ، مال ،دین اور عصمت کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ھے ،، دوسرے قبائل یا ریاستوں میں بسنے والے مسلمان تمہارا دردِ سر نہیں ھیں ،، اور جن ممالک اور قبیلوں کے ساتھ تمہارے امن کے معاہدے ھیں ان میں بسنے والے مسلمانوں کی فریاد کے باوجود تم ان پر حملہ نہیں کر سکتے ،، الا تفعلوہ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تکن فتنۃۤ و فسادۤ کبیر ،، پھر بہت بڑا فتنہ و فساد برپا ھو جائے گا ،،
وَالَّذِینَ آمَنُواْ وَلَمْ یُهَاجِرُواْ مَا لَکُم مِّن وَلاَیَتِهِم مِّن شَیْءٍ حَتَّى یُهَاجِرُواْ وَإِنِ اسْتَنصَرُوکُمْ فِی الدِّینِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَى قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَهُم مِّیثَاقٌ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ .( الانفال-72)
وَالَّذینَ کَفَرُواْ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوهُ تَکُن فِتْنَةٌ فِی الأَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیرٌ .(الانفال-73)
ایک فوجی ڈکٹیٹر کو تو لائف سپورٹ چاھیئے تھی ، اس نے ایک بین الاقوامی لیڈر کو ظلم کے ساتھ مارا ھوا تھا ، جس کی وجہ سے اسلامی دنیا بھی اس کے خلاف تھی ، لہذا اس نے امیر المومنین رونالڈ ریگن اور جھانسی کی رانی تھیچر کا سپہ سالار بن کر امت مسلمہ کی نوجوان نسل کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا ،، یوں مسلمان خون کی قیمت پر امریکہ نے جرمنی پر فتح سے بڑی فتح حاصل کر کے دنیا کا اکیلا تھایندار بن گیا ،، اور اس کے ایک آدمی کی نکسیر بھی نہیں پھوٹی ، علماء نے ماشاء اللہ اس تعاون کے طفیل اپنے مدارس کی تعداد میں 300 گا اضافہ کر لیا ، مگر پاکستان کو ھیروئین اور کلاشنکوف کلچر تحفے میں دے دیا ،، افغانستان کا مادی نقصان روس سے جنگ میں نہیں ھوا تھا ،، کابل کا ایک ھوٹل تک تباہ نہیں ھوا تھا مگر گلبدین حکمتیار اور احمد شاہ مسعود کے باھمی جہاد نے وہ جہادی نسل بھی آپس میں لڑ کر ختم کر دی اور کابل کا بھی تورا بورا کر کے رکھ دیا ،،،،،، ان سب کے نتیجے میں پھر وہ ذھنیت پیدا ھوئی جو آج بچوں کے اسکول بچوں سمیت اڑا رھی ھے اور مساجد کو نمازیوں کے سروں پہ گرا رھی ھے ،، یہ جنگی جنون کا جزوِ لاینفک ھے ،، نبئ کریمﷺ جب صحابہ کو کسی غزوے پہ لے کر جاتے تھے تو واپس آ کر ان کے دل و دماغ کو State of war سے نکالنے کے لئے انہین سوشل ورک کی اھمیت بتاتے تھے ، انہیں نارمل انسان بنانے کے لئے وہ ساری حدیثیں ھیں جن کو پڑھ کر آج لوگ اعتراض کرتے ھیں ،،مثلاً کسی مسلمان کی مدد کے لئے ایک قدم اٹھانے کا اجر دس سال کے اعتکاف کے برابر ھے ،، قبا میں دو نفل عمرے کے برابر اجر ھے ،، جس نے یہ تسبیح پڑھی اس کے لئے اس قدر اجر ھے ،، مجمعے میں تیر کو نوک کی طرف سے پکڑ کر چلو کوئی زخمی نہ ھو جائے – پھر جنگ کے دوران کسی شخص کے بارے میں شک بھی پیدا ھو جائے تو اس کو مارنے پر اتنی سخت وعید ھے کہ آپ نے اسامہ ابن زیدؓ کی بار بار کی درخواست کے باوجود ان کے لئے مغفرت کے لئے دعا نہیں کی ، بار بار ایک ھی لفظ زبانِ رحمت سے نکلتا رھا ، اسامہ جب کلمہ حشر میں استغاثہ لے کر آئے گا تو کیا کرو گے ،، حالانکہ اس کافر نے کلمہ اس وقت پڑھا تھا جب اسامہؓ کی تلوار کے آگے بے بس ھو گیا تھا ورنہ اس سے قبل وہ درجنوں صحابہ کو شھید کر چکا تھا ،، ظاھر ھے اسامہؓ نے کوئی درس تو دیا نہیں تھا کہ جسے سن کر اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا ،صرف جنگی چال کے طور پہ کلمہ پڑھا تھا مگر اس مشکوک کلمہ گو کے قتل پر بھی حضور ﷺ نے اتنا سخت رد عمل دیا تھا ، ،،یہ طالبانی کیسے مجاھد ھیں جو ھر مہینے آپس میں لڑ کر درجنوں کو مار دیتے ھیں اور پھر مجاھد کے مجاھد ھو جاتے ھیں ، علماء اس خون خرابے مین اپنا حق ادا کیوں نہیں کرتے ؟ اور اس قتل عام پہ ان کو نبی کریم ﷺ والی وعید کیوں نہین سناتے ،، الٹا ان کا نام لے کر مذمت تک نہیں کرتے ،، مسلسل جنگ انسان کا مائنڈ سیٹ تبدیل کر دیتی ھے ،، پہلے ھم نے دنیا کو تاراج کیا ، دنیا کے خزانے لوٹ کر بنو امیہ اور بنو عباس نے اپنی عیاشی کا سامان کیا مگر اپنی فوجوں کا فارمیٹ تبدیل کرنے کا کام نہ کیا اور ان کو عام انسان نہ بنایا ،یوں جنگجوؤں نے ایک دوسرے کی طرف منہ کر لیا اور المیئے جنم لیتے رھے ،، آپس میں خونِ مسلم کی ارزانی نے ھلاکو کو ان کے دروازے پہ لا کھڑا کیا یوں ” باقی کج بچیا مہنگائی مار گئ ” والا معاملہ ھو گیا ،،، اس سلسلے میں کشمیر کو استثناء حاسل ھے کیونکہ کشمیر بین الاقوامی طور پہ ایک متنازعہ علاقہ ھے جہاں امن کا کوئی معاہدہ نہیں ھے ،،
ھمیں جس وعدے پر سرینگر ائیرپورٹ سے واپس بھیجا گیا تھا اس وعدے کے ایفا سے انکار کیا جارھا ھے یوں کشمیری نوجوانوں کی مدد میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ھے ،