انسان سے معافی منگوا لینا ، یا انسان کو معافی مانگنے پہ آمادہ کر لینا یا انسان سے سجدے میں سر رکھوا لینا ،،، بہت بڑی بات ھے ،، اور اللہ پاک اس بات کو بڑی اچھی طرح جانتا ھے کیونکہ وہ ھی اس ٹیڑھی مخلوق کا خالق ھے ،،
1- جب کوئی مومن توبہ کرتا ھے ، اللہ کی طرف پلٹ آتا ھے تو اللہ پاک کو اس سے زیادہ خوشی ھوتی ھے جتنی امھات المومنین کو حضورﷺ کی اپنے گھر آمد کی خوشی ھوتی تھی ،
2- اللہ پاک کو اس مسافر سے زیادہ خوشی ھوتی ھے جس کی اونٹنی سامانِ زندگی لے کر صحراء میں کھو گئ تھی اور وہ مایوس ھو کر موت کے انتظار میں ایک ٹیلے کے سائے میں لیٹ گیا جہاں اس کی آنکھ لگ گئ ، آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ اونٹنی سارے سامان سمیت واپس آ کر اس کے سامنے کھڑی تھی ،، اس کا انگ انگ رب کے شکر کے جذبات سے اس طرح بھر گیا جس طرح شھد کا چھتہ شہد سے بھر جاتا ھے ، اس خوشی کے عالم میں اسے اپنی زبان پہ قابو نہ رھا اور اس کے منہ سے بیساختہ نکلا کہ ” اے اللہ میں تیرا رب تو میرا بندہ ” جبکہ وہ کہنا یہ چاھتا تھا کہ ” اے اللہ تو میرا رب میں تیرا بندہ ” اللہ کے رسول فرماتے ھیں کہ اللہ کو کسی گنہگار کے پلٹ آنے پر اس مسافر سے زیادہ خوشی ھوتی ھے !
3- جب کوئی بندہ گناھوں سے پلٹ آتا ھے اور اپنے گناھوں پہ شرمندہ ھوتا ھے ، تو اللہ پاک اس کے سارے گناھوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ھے ،،
یہ ساری باتیں یہ واضح کرتی ھیں کہ ایک انسان کو ترک و اختیار کا آپشن دے دینے کے بعد اللہ پاک کے نزدیک اس کی کتنی اھمیت ھے اگرچہ وہ سر سے پاؤں تک گناھوں کی دلدل میں دھنسا ھوا ھو ،،،
میں اپنی زندگی کی نصف صدی کے تجربات کی بنیاد پر حلفیہ کہنے کو تیار ھوں کہ رب سے بھاگے ھوئے کو ڈرا کر کبھی واپس نہیں لایا جا سکتا ،، اسے صرف میرے رب کا پیار اور عفو و درگزر کی صفت ھی واپس آنے پر آمادہ کر سکتی ھے ،، زیادہ ڈراوہ انسان کو بغاوت پر آمادہ کر دیتا ھے ،، دونوں رخ اس ایک حدیث میں ھی دیکھے جا سکتے ھیں جس میں ایک 99 قتل کرنے والے ایک شخص کے دل میں پلٹ آنے کی جستجو جاگ اٹھی ،،اور اس نے ایک مولوی صاحب سے مسئلہ پوچھا کہ کیا اس کی واپسی کی کوئی سبیل ھے ؟ اس پہ اس مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ایک قتل ھی مان نہیں ، اور تو 99 قتل کر کے توبہ کی قبولیت کی امید لگائے بیٹھا ھے ؟ بندے نے مایوس ھو کر اس مولوی کو بھی مار دیا تا کہ وہ آئندہ کسی پلٹ آنے والے کو مایوس نہ کرے اور سنچری مکمل کر لی ،، مگر چونکہ اپنی توبہ میں مخلص تھا ،، کسی دوسرے مولوی کے پاس جا پہنچا ،، مولوی صاحب نے اس کی بات بڑی توجہ سے سنی اور کہا کہ جب تو پلٹ آنے کو تیار ھے اور اللہ پاک تجھے قبول کرنے کو تیار بیٹھا ھے تو تیرے پلٹنے میں دیر کیا ھے ؟ تیرا پچھتاوہ بتاتا ھے کہ تو ایک سلیم الفطرت انسان ھے مگر یہ معاشرہ تیرے قابل نہیں ، یہ تجھے مشتعل کر کے گناہ کرا لیتا ھے ،تُو فلاں بستی کی طرف چلا جا جو تیری طرح تائب لوگوں کی بستی ھے تیرا گزارا وھاں ھو جائے گا ،،، بندہ ابھی اس بستی کی طرف چلا ھی تھا کہ منہ کے بل گرا اور اس کی جانکنی میں مبتلا ھو گیا ،، کچھ فرشتے قتل والی فائل لے کر آ پہنچے اور اسے جھنم کی طرف لے جانے کا قصد کیا ، جبکہ دوسری پارٹی توبہ والی فائل لئے اسے جنتی لوگوں کا سا پروٹوکول دینے کا مطالبہ کرنے لگے ،، اس جھگڑے میں اللہ پاک نے ایک فرشتے کو بھیجا جس نے ان دونوں پارٹیوں سے کہا کہ تم لوگ ناپ کر فیصلہ کیوں نہیں کرتے اگر وہ گناھوں والی بستی کے قریب ھے تو جھنم والے اسے لے جائیں اور اگر تائب بستی والوں کے قریب ھے تو جنت والے لے جائیں ،دونوں پارٹیاں اس پہ تیار ھو گئیں اور اللہ پاک نے تائب بستی کی طرف والی زمین کو کہا کہ سمٹ جا ، یوں صرف ایک قدم کا فاصلہ تائب بستی کے قریب نکل آیا اور یہ وھی قدم تھا جو اس نے توبہ کے بعد اس بستی کی طرف لیا تھا ،، یوں جنت والے فرشتے اسے لے گئے ،
اس کے بالمقابل رویہ یہ ھے کہ اچھی بھلی پردہ دار لڑکی کو ایک متشدد سہیلی حدیث سناتی ھے کہ جو عورت بھنوؤں کی تراش خراش کرتی ھے اس کو ھر بال کے بدلے ایک زنا کرنے کا گناہ ھوتا ھے ،، اس لڑکی نے پردہ کرنا بھی چھوڑ دیا کہ اتنے زنا کرنے کے بعد یہ پردہ کیا فائدہ دے گا ، جب اللہ ھی تُل گیا ھے کہ مجھے جھنم میں پھینکنا ھے تو پھر وہ مجھے کسی نہ کسی بہانے پھینک کر ھی رھے گا ، اس سے کون جیت سکتا ھے ،، اس قسم کی جھوٹی حدیثیں جو کچھ متقی لوگوں نے لوگوں کو ڈرانے کے لئے تخلیق کی ھیں وہ Counterproductive ثابت ھوتی ھیں ،، یہ بگڑا ھوا انسان سنبھالے نہیں سنبھلتا ،، اس قسم کی احادیث اور بھی بہت ھیں جن پر رد عمل بھی الٹا ھوا ھے اور میں وہ واقعات بھی کبھی لکھونگا ،، مگر اب دنیاوی مثال بھی سن لیجئے ،،،
ایک لڑکی تھی کوئی بارہ تیرا سال کی وہ قرآن پڑھنے کسی کے گھر جایا کرتی تھی – اس کا ایک بھائی بڑا سخت مزاج تھا جو کافی نیک بھی تھا لہذا ذرا ذرا سی بات کو بہانہ بنا کر چمڑی اتار دیتا تھا ،، ایک دن لڑکی لیٹ ھو گئ تو جس خاتون کے گھر وہ پڑھتی تھی اس نے اسے بتایا کہ اس کا بھائی بڑے غصے میں اسے ڈھونڈتا پھر رھا ھے ،،بچی ڈر سے تھر تھر کانپنے لگی ، اس عورت نے اسے بستروں والی چھتی میں چھپا دیا ، تھوڑی دیر بعد اس کا بھائی آ پہنچا اور غصے سے اسے آوازیں دینے لگا اور دھمکیاں دینے لگا کہ اگر آج مل گئ تو ٹوکے سے اس کے ٹکڑے کرونگا ،،، لڑکی مزید ڈر گئ ،، یوں مکمل طور پر اس عورت کے رحم و کرم پر کے حوالے ھو گئ ،، اس عورت نے اپنے دیور کے ساتھ اسے لگا کر وھاں سے نکال دیا اور اس دیور نے اسے کسی کے پاس جا کر بیچ دیا ،، اس کے بعد ایک لمبی داستان ھے جس میں پھر قتل بھی شامل ھو جاتا ھے ،، اسی طرح اس عورت کی جگہ شیطان کو سمجھ لیں جو گناہ سے پہلے تو انسان کو اللہ کی رحمت کے سمندر دکھاتا ھے ،مگر جب وہ گناہ کر لیتا ھے تو پھر اسے اللہ کے عذاب سے ڈرا کر اغوا کر لیتا ھے ،جبکہ اللہ پاک گناہ سے پہلے خبردار کرتا ھے مگر گناہ سر زد ھو جانے کے بعد دلاسے دیتا ھے ، اے نبی میرے ان بندوں سے کہہ دیجئے جو اپنی جانوں پہ ظلم کر بیٹھے ھیں کہ وہ رب کی رحمت سے مایوس نہ ھوں ، اللہ ان کے سارے گناہ معاف کر دے گا ، بے شک اللہ ھی بخشنے والا رحم کرنے والا ھے ،،
قل ياعبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله إن الله يغفر الذنوب جميعا إنه هو الغفور الرحيم (53 -الزمر)