پارٹ -1
آپ نے خدا کے انکار کو عقل کی انتہا سمجھا – جبکہ انکار جہالت کی انتہا ھے ، انکار کرنا کوئی مشکل نہیں ھے ، نہ اس کے لئے پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت ھے ، یہ تو ایک بچہ بھی کر سکتا ھے ،، عقلمندی یہ ھے کہ اس انکار کے نتیجے میں جو سوالات پیدا ھوتے ھیں ان کا جواب دیا جائے ، جو آپ لوگوں نے کبھی دینے کی کوشش نہیں کی ،، آپ کوئی نیا کام نہیں کر رھے یہ کام تو بہت ھی پرانا ھے نوح علیہ السلام کے زمانے سے ھوتا چلا آرھا ھے ،مگر اس زمانے سے لے کر 13/5/2015 تک کسی نے بھی کائنات کے بارے میں اللہ پاک کے دیئے گئے بیانیے کے مقابلے میں اپنا ایسا کوئی تسلی بخش بیانیہ بمعہ دلائل پیش ھی نہیں کیا ، کوشش بہت سوں نے کی مگر وہ شکوک تو پیدا کر سکے مگر ایجابی طور پر انسانیت کے اطمینان کے لئے کچھ بھی چھوڑ کر نہیں گئے !
اللہ پاک نے کائنات کے بارے میں جو حقائق بیان فرمائے ھیں ان کی حیثیت ایسی ھے کہ ان پڑھ سے ان پڑھ انسان بھی ان کو سمجھ سکتا ھے کیونکہ وہ حقائق علمی سے زیادہ عملی ھیں ،، جس طرح جب سیلاب موجود ھوتا ھے تو پھر کسی کو لکھ کر بتانے کی ضرورت نہیں ھوتی کہ سیلاب کیا ھوتا ھے ،، بلکہ دیکھ کر ھی اسے سمجھ لگ جاتی ھے ، آگ لگی ھو تو وھاں کھڑے ایک ڈاکٹر اور ریڑھی والے کے علم اور یقین میں کوئی فرق نہیں ھوتا ، دونوں کو برابر کا عین الیقین ھوتا ھے کہ آگ لگی ھوئی ھے ، جب آپ کسی کاغذ کو زگ زیگ انداز میں کاٹ کر اسی طرح کے کٹے ھوئے دس کاغذوں میں مکس کر دیں ،، پھر ان کو ملاتے چلے جائیں ، جو دو ٹکڑے بھی اپنی جگہ ٹھیک ٹھیک بیٹھ جائیں گے ،، ان کو مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں رھتی ، ان کا ٹھیک ٹھیک بیٹھ جانا ھی وہ ٹھوس دلیل ھوتی ھے ، جس کا رد نہیں کیا جا سکتا ، اللہ پاک نے اپنی کتاب میں کائنات کو جو تصور پیش فرمایا ھے ، وہ ٹھیک ٹھیک اس پزل یا Jigsaw کی طرح اپنے ھر کونے میں ٹھیک فٹ بیٹھتا ھے ،، جبکہ اس کے بالمقابل صرف انکار ھی انکار ھے ، جوابی طور پر کوئی نظریہ پیش نہیں کیا گیا !
اللہ پاک نے آپ سے سوال کیا ھے کہ ” ام خُلِقُوا من غیرِ شئً ام ھم الخالقون ؟ ان سے پوچھئے کہ کیا یہ ” 1- کسی کے پیدا کیئے بغیر پیدا ھو گئے ھیں یا 2- انہوں نے اپنے آپ کو خود پیدا کر لیا ھے ،،،،،، اس کا جواب آج تک ھاں میں نہیں دیا جا سکا ،، آپ کہتے ھیں کہ خدا نہیں ھے ،، پھر آپ کو پیدا کس نے کیا ؟ جس چیز کا حوالہ دیتے ھو کیا وہ صاحب ِ ارادہ ھے ؟ پھر بغیر ارادے اور اختیار کے آپ جیسا عقلمند کسی نے کیسے پیدا کر لیا ؟ آپ کی ریڑھ کی ھڈی میں سے مطلوبہ سوراخ کر کے جگہ جگہ پؤائنٹ کس نے بنائے جہاں سے مختلف کنیکشن نکلتے چلے جاتے ھیں ؟ آپ کہیں گے جینز نے تو کیا جینز صاحبِ ارادہ ھیں ؟ اس کا کوئی ثبوت ؟ اگر جینز ھی سب کچھ کرتے ھیں تو آپ کی اور آپ کے بھائی کی شکلوں میں تبدیلی کے احکامات جینز کو کسی نے دیئے یا یہ فیصلہ خود جینز نے کر لیا یا پھر آپ کے بھائی نے خود کو ایکسٹرا فیس دے کر الگ صورت بنوا لی ؟؟ پھر اگلی آیت کہتی ھے ” ام خلقوا السمٰواتِ و الارض ،، یا انہوں نے ھی خود آسمان اور زمین بنا لئے ؟ کیا جواب ھے آپ کے پاس ؟ کیا مادہ صاحبِ ارادہ ھے ، عقل و شعور رکھتا ھے ؟ اتنی دقیق تخلیق اندھا بہرہ مادہ کر سکتا ھے ؟ یہ بات تو کوئی اندھا بہرہ بھی نہیں کہتا ،، یہ چند معمولی سوالات ھیں جن کے بارے میں آپ کے پاس کوئی تسلی بخش جوابات نہیں ،،،،،،،،،،
رہ گیا شبہات پیدا کرنا اور اعتراضات کرنا تو یہ ایک بچہ بھی کر سکتا ھے ، اس کے لیئے تھنکرز کا نام بدنام کرنے کی بھلا کیا ضرورت ھے ، یہ ھر زمانے کے جہلا کرتے چلے آئے ھیں ،،
اعتراض -1 ، وَقَالَ الَّذِینَ لاَ یَعْلَمُونَ لَوْلاَ یُکَلِّمُنَا اللّهُ أَوْ تَأْتِینَا آیَةٌ کَذَلِکَ قَالَ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ .
اور کہتے ھیں وہ لوگ ” جنہیں علم نہیں ” کیوں نہیں بات کرتا ھم سے اللہ یا کیوں نہیں نازل ھوتا ھم پر معجزہ ،،،،،،، اسی طرح وہ لوگ بھی کہتے تھے جو ان سے پہلے تھے ان ھی کی بات کی طرح ،،،،،،
دیکھا جناب صاحبانِ فھم و دانش ،، اللہ پاک آپ کو جاھل کے لقب سے پکار رھے ھیں ،کہ یہ کوئی دنشورانہ سوچ نہیں بلکہ پرانے جاھلوں کا تھکا چاٹا جا رھا ھے ،،
اعتراض – 2،، يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِنَ السَّمَاءِ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَى أَكْبَرَ مِنْ ذَلِكَ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً ( النساء -153 )
اھل کتاب آپ سے سوال کرتے ھیں کہ ان کے لئے آسمان سے کتاب ( لکھی ھوئی ) نازل ھوتی دکھا دیجئے ،، موسی سے تو یہ اس سے بڑا سوال بھی کر بیٹھے ھیں کہ ” دکھا ھم کو اللہ آمنے سامنے ”
رسول ﷺ کو درمیان میں سے نکال کر اپنے اوپر فرشتے کے نزول اور کتاب کے نزول کا مطالبہ بہت پرانا ھے ،، اس کا جواب آگے دیا جائے گا ،،،،،،،،،
اعتراض -3 ،، وَقَالَ الَّذِينَ لا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلائِكَةُ أَوْ نَرَى رَبَّنَا لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا كَبِيرً ( الفرقان 21)
اور کہتے ھیں وہ لوگ جو ھم سے ملاقات کی امید نہیں رکھتے ( ایمان بالآخرت نہیں رکھتے ) ھم پر فرشتے نازل کیوں نہیں ھوتے یا ھم اپنے رب کو کیوں نہیں دیکھ سکتے ؟ بہت ھی بڑی تکبر کی روش اختیار کی ھے ان لوگوں نے اور بہت بڑی سرکشی کا ارتکاب کیا ھے ،،،
کیا آپ بھی یہی کچھ نہیں کہتے ؟ کہ اگر فرشتہ ایک انسان کو نظر آ سکتا ھے تو باقی انسانوں کو نظر کیوں نہیں آ سکتا ؟
اعتراض -4 : ( وقالوا أساطير الأولين اكتتبها فهي تملى عليه بكرة وأصيلا (الفرقان 5 )
اور کہتے ھیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ھیں جو ان کو پڑھائی گئ ھیں اور وہ صبح شام تمہیں سناتے رھتے ھیں ،،
اب سنیئے اللہ پاک کے جوابات !
اللہ پاک نے ایک سنت بنائی ھے کہ وہ ایک انسان کو چنتا ھے جس سے کلام فرماتا ھے اور اسی کے ذریعے احکامات دیتا اور جزا و سزا کی خبریں انسانیت تک پہنچاتا ھے ، وہ رسول اللہ کا اپنا انتخاب ھوتا ھے ،، کوئی اپنی عبادت یا تپسیا یا مجاھدوں کے زور پر سلیکٹ نہیں ھوتا ،، رسول فرشتوں میں سے ھو یا انسانوں میں سے بہرحال یہ اللہ پاک کا اپنا انتخاب ھوتا ھے ” اللہ یصطفی من الملائکۃ رسلاً ومن الناس( الحج -75 )
پارٹ -2
اللہ پاک نے اگر اپنی اسکیم فرشتوں کے اعتراض پر تبدیل نہیں کی تو چند نادان لوگوں کی وجہ سے بھلا کیوں تبدیل کرے گا – اس نے انسان کو نیکی بدی کا اختیار اور ارادہ دے کر بھیجا ھے اور ھر ایک کا وقت مقرر کیا ھے ،، ھدایت کے متلاشی کا ھاتھ پکڑنے کا وعدہ کیا ھے ،، اور نبھا کر بھی دکھایا ھے ،، گمراھی کے خوگر کو اس کی ڈگر پر چھوڑ دیا ھے ،اور اس میں کسی طور مداخلت نہیں فرمائی ،، یہ بات فرعون کی بیوی کے اسلام سے واضح فرما دی کہ اگر انسان خود ھدایت و راہنمائی کا جویا ھو تو نہ کسی بدترین شخص کی صحبت اس کا رستہ روک سکتی ھے اور نہ اس سے رشتے داری ،،،،،،،،، فرعون کی بیوی کی مثال اھل ایمان کو دی ھے کہ تم اپنی نیت خالص کرو اور پھر رب کی نصرت کا نظارا کرو،، خدائی کا دعوی کرنے والے شخص کی بیوی کے دل میں ایمان کا شجرہ طیبہ آسمان سے باتیں کرنے لگا ،، اصلھا ثابتۤ و فرعھا فی السماء ،،
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آَمَنُوا اِمْرَأَةَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴾
(التحریم 11)
اور اللہ ایمان والوں کے لئے مثال بیان کرتا ھے فرعون کی بیوی کی جس نے دعا کی کہ اے رب میرے لئے اپنے یہاں جنت میں ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اس کے کرتوتوں سے نجات دے ، اور مجھے ظالم قوم سے بچا ،،،،،
دوسری جانب کافروں کے لئے مثال بیان فرمائی کہ اگر تمہارا ضمیر مردہ اور نیت کھوٹی ھے تو مطمئن رھو ، اللہ پاک کو تمہیں زبردستی مسلمان بنانے سے کوئی دلچسپی نہیں ھے ،، اسے کبھی اس بات کی لاج نہیں آئی کہ اگر میرے نبیوں کے رشتے دار کافر رہ گئے تو نبیوں کی بدنامی ھو گی اور ان کے کام پر انگلیاں اٹھیں گی کہ اپنی بیویوں اور اپنے بیٹوں اور اپنے باپ دادا یا چچاؤں کو تو مسلمان کر نہیں سکے اور لگے ھیں باقی دنیا کو مسلمانی کے خواب دکھانے ،،، دنیا بقدرِ مقدر زبردستی بھی دے دیتا ھے مگر ایمان صرف اور صرف طلب پر دیا جاتا ھے ،، جب ھم نے نوح اور لوط علیہما السلام کی بیویوں کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا تو بھلا تمہاری حیثیت ھی کیا ھے کہ ھم تمہیں اپنے پہ ایمان لانے کے لئے مجبور کریں ،، ؟
﴿ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا اِمْرَأَةَ نُوحٍ وَامْرَأَةَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ ا) التحریم- 10
اللہ مثال بیان کرتا ھے کافروں ( کے منہ بند کرنے) کے لئے نوح اور لوط کی بیویوں کی جو ھمارے صالح ترین بندوں کے نیچے تھیں مگر انہوں نے ( اپنے ارادے اور اختیار کے معاملے میں ) ان سے خیانت کی ، تو وہ دونوں ( اولی العزم رسول ھونے کے باوجود ایمان اور انجام کے معاملے میں ان کے کسی کام نہ آ سکے ) اور ان سے کہہ دیا گیا کہ آگ میں داخل ھونے والوں کے ساتھ تم بھی داخل ھو جاؤ ،،
اگر کوئی ھدایت کا سچا طالب ھو تو اسے ھدایت جہاں سے ملے فوراً قبول کرتا ھے ، ایک ڈاکٹر اگر کسی ریڑھی والے سے یا فٹ پاتھ پہ بیٹھے جوتی گانٹھنے والے سے رستہ پوچھتا ھے تو جدھر وہ موچی انگلی اٹھا دیتا ھے وہ جھٹ اس طرف لپکتا ھے ،، وہ اسٹیٹس نہیں دیکھتا کہ میں ڈاکٹر ھو کر موچی کی بات پر اعتبار کیوں کروں ،،
اور جب کسی کو ھدایت کی ضرورت ھی نہ ھو ، اسے ھدایت کی طلب اور پیاس ھی نہ ھو تو اس کا حال شاپنگ کے نام پر ٹائم پاس کرنے والی عورت کی طرح ھوتی ھے جو ھر دکان چھان مارتی ھے ، سارے تھان کھلا کھلا دیکھتی ھے ،، قیمتوں پر بحث مباحثہ کرتی پھرتی ھے ،، جبکہ اس کے بٹوے میں پھوٹی کوڑی تک نہیں ھوتی دکاندار اگر اس کی طلب کردہ قیمت سے بھی دس درھم کم فروخت کرنے پر راضی ھو جائے تب بھی وہ اس کپڑے میں کوئی نقص نکال کر چھوڑ دے گی کیونکہ گھر سے نکلتے وقت اور دکان میں پہلا قدم رکھتے وقت سے ھی وہ بے ایمان تھی ،، خریدنا اس کے ایجنڈے میں ھی نہیں تھا وہ تو بس جنرل نالج کے لئے یہ ساری تگ و دو کر رھی تھی ،،
دنیا کی منڈی میں شاپنگ کے شوقینوں آؤ تمہیں بتاؤں کہ تمہارا خالق تمہارے اندر سے کیسے واقف ھے ،،،،
ولو أننا نزلنا إليهم الملائكة وكلمهم الموتى وحشرنا عليهم كل شيء قبلا ما كانوا ليؤمنوا إلا أن يشاء الله ولكن أكثرهم يجهلون ( الانعام 111 )
اگر ھم ان کی طرف فرشتے نازل کر دیں ، اور مردے ان سے باتیں کریں اور ھر چیز ھم ان کے سامنے لا کھڑی کریں تب بھی یہ کبھی ایمان لانے والے نہیں الا یہ کہ اللہ ھی ان کو زبردستی مسلمان کرے ( اور اللہ نے ایسا کرنا نہیں کیونکہ یہ اس کی سنت کے خلاف ھے )
وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ( الانعام -7 )
اور اگر ھم نازل کریں آپ پر کتاب کاغذ میں لکھی ھوئی پھر یہ اس کتاب کو چھو کر بھی دیکھ لیں پھر بھی یقیناً کافر یہی کہیں گے کہ یہ تو کھلا جادو ھے ،،
ولو فتحنا عليهم بابا من السماء فظلوا فيه يعرجون لقالوا إنما سكرت أبصارنا بل نحن قوم مسحورون( الحجر 14-15 )
اگر ھم آسمان میں ان کی خاطر دروازہ کھول دیں پھر یہ اس میں چڑھتے چلے جائیں ، تب بھی یقیناً کہیں گے کہ ھماری نظر بندی کر دی گئ ھے ،بلکہ ھم تو ایسے لوگ ھیں جن پر جادو کر دیا گیا ھے ،،
گویا جب کوئی طے کر لے کہ اس نے اندھا ھی بننا ھے تو پھر اسے کوئی دوا شفا نہیں دیتی بلکہ ھر دوا الٹا اثر کرتی ھے ،، تقدیر سے لے کر امیری اور غریبی تک تمہارے ھر اعتراض کا شافی و کافی جواب قرآن دیتا ھے مگر جن کا اصرار ھو کہ وہ بس خدا کو دیکھ کر ھی ایمان لائیں گے تو خبردار رھو کہ اس دن نہ تم سے سجدہ طلب کیا جائے گا اور نہ تم سجدہ کر سکو گے ، نہ تم معافی منگوائے جاؤ گے اور نہ معافی قبول کی جائے گی ، نہ ایمان کا تقاضہ تم سے کیا جائے گا اور نہ تمہارا ایمان قبول کیا جائے گا ،،
ويقولون متى هذا الفتح إن كنتم صادقين( الم السجدہ 28 ) قل يوم الفتح لا ينفع الذين كفروا إيمانهم ولا هم ينظرون( 29)
اور کہتے ھیں کہ یہ فیصلے کا دن کب ھو گا ، کہہ دیجئے فیصلے کے دن نہ تو کافروں کو ان کا ایمان فائدہ دے گا اور نہ وہ ایمان کے لئے مہلت دیئے جائیں گے ،،
فأعرض عنهم وانتظر إنهم منتظرون( 30 )
پس آپ ان سے اعراض فرمایئے اور انتظار کیجئے ، یہ بھی انتظار کر رھے ھیں ،