قندِ مکرر-
ناک کی بائیوگرافی اور کیمسٹری !
ناک انسانی چہرے پہ لگا تقریباً تین بائی پانچ سینٹی کا ایک معصوم سا عضو ھے ،، جو دیکھنے میں انتہائی خوبصورت لگتا ھے ،، بلکہ چہرے کی خوبصورتی کا دارو مدار ھی ناک پر ھے ،، مگر بظاھر یہ بھولا بھالا سا عضو ،، نہایت خوفناک ماضی اور مستقبل رکھتا ھے ،، اللہ کی پناہ خود تو یہ کہیں نہیں جاتا مگر سارے کروز اور ٹام ھاک میزائیل اسی کی وجہ سے ادھر سے ادھر جاتے ھیں ،، شہر ملبہ بنا دیئے جاتے ھیں ،بچے یتیم کر دیئے جاتے ھیں اور عورتیں بیوہ ،، دونوں عظیم جنگوں کے پیچھے اس ماسی چلاکو کا ھاتھ ھے ،، یہ بھائی کو بھائی سے ملنے نہیں دیتی،، شوھر کو بیوی سے ملنے نہیں دیتی ،آدم علیہ السلام اور ابلیس سے لے کر ساس اور بہو کی لڑائی تک ، ساری کارستانی اسی ناک کی ھے ،، جنوں کی ناک بھی انسانوں کی طرح تباہ کن ھوتی ھے ، بلکہ پہلی تباہ کاری ھی جن کی ناک نے کی تھی ،، اس ناک کو بےجان نہ سمجھا جائے بلکہ اس میں نفس کی جان ھوتی ھے ،، بندہ مر جائے کوئی بات نہیں بس ناک نہیں کٹنی چاھئے ،، کچہریاں ساری کی ساری ناک والوں سے بھری پڑی ھیں ،، جو ناک والوں نے دوسرے ناک والوں کی ناک کاٹنے کے لئے جھوٹے مقدمے بنا کر بھر رکھی ھیں !
میرے پاس جب بھی کوئی مسئلہ آتا ھے تو ساری بات مان لینے کے بعد کہتے ھیں کہ بات تو آپ کی ٹھیک ھے مگر مسئلہ ناک کا ھے ! اللہ اور رسول ﷺ کا حکم سر آنکھوں پر مگر اس ناک کو کہاں لے جائیں ؟ آپ کی ساری باتیں سچ ھیں مگر اس ناک کا بھی تو کوئی حل کریں ؟،، میں نے عرض کیا کہ جناب مجھے تواس کا ایک ھی حل سمجھ لگتا ھے کہ آئندہ بچوں کی ناک کا ختنہ کیا جائے تاکہ مسئلہ ھی حل ھو جائے ، بلکہ اگر بڑے بھی تجدیدِ وضو کی طرح تجدیدِ ختنہ کر لیں تو سارے گھریلو اور سماجی مسائل حل ھو جائیں ،، بچیوں کے رشتے بھی ھو جائیں ،، جھوٹے مقدمے بھی ختم ھو جائیں اور مسئلہ کشمیر بھی حل ھو جائے ،،کیونکہ ممالک میں بھی Face Saving کی اصطلاح اصل میں Nose Saving ھی کے لئے آتی ھے ،، سیاسی جماعتوں کے رولے بھی ختم ھو جائیں ، بلکہ قادری صاحب کے انقلاب کا نقطہ آغاز ھی یہی ھونا چاھئے !!
اس ناک میں اصلاً نفس کی جان ھے ، وہ اللہ کے احکامات سے بچنے کے لئے اسی محفوظ قلعے میں پناہ لیتا ھے ،اسے معلوم ھے کہ انسان سر کٹا دیتا ھے مگر ناک نہیں کٹنے دیتا ،، ایک صاحب جو نہ صرف دیندار تھے بلکہ دین کے ایکسپورٹر بھی تھے ،جب ان کی بیٹی نے اسی نوجوان سے شادی کرنے پر اصرار کیا جس سے اس کی منگنی کر دی گئ تھی اور جو اس کے ماموں کا بیٹا تھا ،مگر اب ابا جی اس منگنی سے مکرنا چاھتے تھے تو انہوں نے اس حافظ قرآن بیٹی کو دو منزلہ مکان کی چھت سے سر کے بل گرا کر مار دیا ،، اور انکشاف کیا کہ ” ان کے دین کا بیڑہ تو غرق ھو گیا ھے مگر الحمد للہ ان کی ناک بچ گئ ھے ” اس دن مجھے اس ناک کی قیمت کا اندازہ ھوا کہ یہ کعبے سے بھی زیادہ معزز ھے !
نبئ پاک ﷺ جنت میں جانے کا چار نکاتی نسخہ بیان فرماتے ھیں 1- ” صل من قطعک،، جو تجھ سے کٹے تو اس سے جُڑ ،،مگر یہ ناک جُڑنے نہیں دیتی ،2- واعطِ من حرمک ،، جو تجھے ضرورت کے وقت محروم رکھے تُـو اسے ضرورت پڑے تو دے ،مگر یہ ناک دینے نہیں دیتی ،، 3- اُعفُ عن من ظلمک ،، جو تجھ پہ زیادتی کرے تو اسے معاف کر دے ،مگر یہ ناک معاف بھی نہیں کرنے دیتی ،4- واحسن الی من اساءک ،، جو تیرے ساتھ برا کرے تو اس کے ساتھ اچھا کر ،،مگر یہ ناک کہتی ھے ” ھم آدمی ھیں تمہارے جیسے جو تم کرو گے وہ ھم کریں گے ،، گویا جنت کے آگے سب سے بڑا بیریئر یہی ناک ھے ، اگر جنت میں جانا ھے تو جنت کی باؤنڈری صرف تیری ناک جتنی بلند ھے ، اپنی ناک کو پھلانگ جا اور جنت میں داخل ھو جا ،، بالکل اسی طرح جس طرح کسی سے پوچھا گیا کہ جنت کا فاصلہ کتنا ھے ؟ جواب ملا ،، صرف دو قدم مگر شرط یہ ھے کہ پہلا قدم اپنے نفس پہ رکھو اگلا قدم جنت میں ھو گا ! یہاں نفس سے مراد ناک ھی ھے !
ھم تو یہ چاھتے ھیں کہ ھر گھر کے باھر ناک کی تصویر کا بڑا سا بورڈ لگا ھو ،جس کو دو ھڈیوں سے کراس کیا گیا ھو ،، اور لکھا ھو ،،” خطرہ "اس گھر میں ناک رھتی ھے ،اندر داخل ھونے والا اپنے نقصان کا خود ذمہ دار ھو گا ! اللہ پاک نے قرآن میں دو جگہ یہی بات سمجھائی ھے کہ کچھ لوگوں نے اصل میں تو ناک کو خدا بنا رکھا ھے ، اور علم ھونے کے باوجود یہی ناک انہیں اللہ کے احکامات پہ چلنے نہیں دیتی ،، نتیجے میں یہی ناک سماعت و بصارت اور قلب پر بھی گمراھی کی مہر لگوا دیتی ھے ! اللہ کی حدوں سے نکل جانے والی ناک کو اللہ پاک نے سورہ القلم میں ” خرطوم ” یعنی سونڈھ کہا ھے ،پائپ کو بھی خرطوم کہا جاتا ھے اور یہ پائپ لائن بھی بن جاتی ھے جو کافی طویل ھو جاتی ھے ،، فرمایا ” سنسمہ علی الخرطوم ” ھم اس ولید ابن مغیرہ کی سونڈھ پہ نشانہ لگائیں گے ، صحابہؓ کو بات کی سمجھ نہ لگی جب تک کہ بدر کے میدان میں تلوار کے وار کو ٹھیک ولید ابن مغیرہ کی ناک پہ نہ دیکھ لیا ،،تلوار نے اس کی ناک کے درمیان سے اس کے چہرے کو دوٹکڑوں میں تقسیم کر دیا تھا !
بھائیو ! سچ پوچھو تو ھم نے اس ناک کو مساجد کے منبروں پہ ناچتے دیکھا ھے ،، جہاں یہ اپنے مخالف کی پیش کردہ نہ تو آیت مانتی ھے نہ تفسیر نہ حدیث مانتی ھے نہ تشریح ، اس کی نشانی یہ ھے کہ جونہی یہ مسجد میں داخل ھوتی ھے تو مومن اسی طرح پھٹ جاتے ھیں جس طرح دودھ میں کھٹی جاگ لگائی جائے تو دودھ پھٹ جاتا ھے ،، اس ناک کا سب سے خطرناک پہلو یہ ھے کہ ” یہ ناک شکل بھی تبدیل کر لیتی ھے ” کبھی یہ کھیت اور کھلیان کا روپ دھار لیتی ھے ،تو کبھی تاج اور تخت کا ،، کبھی یہ کبھی اکابر بن جاتی ھے تو کبھی مسلک و مشرب ،، یہ اکابر بھی ھماری ناک ھیں ،، ان کی پیش کردہ تشریح بھی اسی طرح فائینل ھے جس طرح میری ناک پکی پکی لگی ھوئی ھے، رات کو جہاں ھوتی ھے ،صبح بھی وھیں ھوتی ھے الٹے لیٹو یا سیدھے پہلو کے بل لیٹو یا بیٹھ کر سو جاؤ ،، ناک وھیں کی وھیں ھے ،، اس کو ناک کی استقامت کہا جاتا ھے ! اس ناک کا نام گل محمد ھے ،، آپ نے شعر نہیں سنا ؟
زمیں جنبد نہ جنبد گُل محمد ،، بس اس شعر میں ناک کی شان بیان کی گئ ھے !
اے میری ناک خدا تجھ کو سلامت رکھے ،ناپ لیتے ھیں تو پیاس بجھا لیتے ھیں !!