اللہ کا قول اور فعل (The Word of God & The Work of God)
Quranic Signs and Universal Signs
جس طرح قرآن کی آیات ھیں اسی طرح کائنات کی بھی آیات ھیں ،، اور اللہ پاک نے ان کو آیات کہہ کر ھی مثالیں دی ھیں ،،
سنريهم آياتنا في الآفاق وفي أنفسهم حتى يتبين لهم أنه الحق أولم يكف بربك أنه على كل شيء شهيد( فصلت- 53 ) بہت جلد ھم ان کو دکھائیں گے اپنی آیات آفاق میں بھی اور ان کے اپنے اندر بھی یہانتک کہ ان پر واضح ھو جائے گا کہ وہ حق ھے ،،،،،،،
کائناتی آیتیں بھی انسان کو رب تک پہنچانے کا ذریعہ ھیں جس طرح قرآنی آیات رب کے وجود کی طرف راھنمائی کرتی ھیں ،،
– ومن آياته الليل والنهار والشمس والقمر لا تسجدوا للشمس ولا للقمر واسجدوا لله الذي خلقهن إن كنتم إياه تعبدون ( فصلت-37) اس کی نشانیوں میں سے ھیں رات بھی اور دن بھی ،اور سورج بھی اور چاند بھی، – مت سجدہ کرو سورج کو اور نہ چاند کو بلکہ سجدہ کرو اللہ کو جس نے پیدا کیا ھے ان کو ، اگر تم واقعی اسی ( اللہ )کی ھی عبادت کرنا چاھتے ھو ( یعنی کوئی خدا کا اوتار یا سورج دیوتا نہیں ھے )
– ومن ایتہ انک تری الارض خاشعۃ فاذا انرلنا علیہا الماء اھتزت وربت – ان الذی احیاھا لمحي الموتي – انہ علي کل شئ قدیر-
اس کی آیات میں سے یہ بھی ھے کہ تو دیکھتا ھے زمین کو مِٹی ھوئی پھر جب ھم اس پر پانی برساتے ھیں تو وہ انگڑائی لیتی ھے اور پالنا شروع کر دیتی ھے ( بیج کو ) یقیناً جس نے زندہ کیا ھے اس کو وھی ھے زندہ کرنے والا مُردوں کو ، بیشک وہ ھر چیز پر قادر ھے ،
– ”و فی الارض آیات للمؤقنین وفی انفسکم افلا تبصرون”
اور زمین میں آیات ھیں یقین کرنے والوں کے لئے اور تمارے اپنے اندر بھی ، کیا پھر تم ( بصیرت کی نظر سے )دیکھتے نہیں ھو ،،
-ھواؤں کے آنے جانے اور رُخ بدلنے کو آیت کہا ھے !
-پہاڑوں کی ایستادگی کو آیت کہا ھے –
-پہاڑوں کی مختلف رنگتوں کو آیت کہا ھے !
-انسانوں کے آپس میں مختلف الصورت ھونے کو آیت کہا ھے !
-شھد کی مکھی کے شھد بنانے کو آیت کہا ھے !
– انسان کے جانداروں کی بال و کھال سے خیمے اور لباس بنانے کو آیت کہا ھے !
– لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث رسولامنھم یتلواعلیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمہ ،، ( ال عمران )
-رسول ﷺ قرآنی آیات یعنی رب کے قول کو لے کر رب کو ثابت کرتے ھیں ،، اور رب کے قول سے لوگوں کا تزکیہ کرتے ھیں ،،
سائنسدان رب کے فعل کو لے کر رب کے قول کو سچ ثابت کرتے ھیں ، اور سائنسی ایجادات سے انسانی بدن کو نقصان پہنچانے والے جراثیم اور وائرسز سے تزکیہ کرتے ھیں ، مضر اور فائدہ مند چیزوں کی نشاندھی کرتے ھیں ،انسان کے اندر مختلف منرلز اور کیمیکلز کی کمی بیشی سے لاحق بیماریوں کی نشاندھی کرتے ھیں ،مختلف وٹامنز کی دریافت اور پھر ان کے فنکشنز کی دریافت اور اس کام میں سر ماری بھی ایک جہاد ھے ،، سائنسدان کا میدان مادہ ھے جو کہ رب کی تخلیق ھے ،، جبکہ نبی ﷺ کا میدان انسانی روح ھے ،، اور نبی ﷺ پر نازل بھی روح ھوتی ھے ،، جو انسانی روح کو زندگی عطا فرماتی ھے ،،،
قرآن اللہ کا قول ھے اور کائنات اللہ کا فعل ھے ، قول و فعل کا تضاد ایک انسان میں بھی عیب ھے ،، لہذا خدا کے قول اور فعل میں تضاد محال و ناممکن ھے – جو چیز واقعۃً سائنسی طور پہ ثابت ھو جائے ،، اس کی تکذیب بھی کافرانہ روش اور خدا کے فعل کی تکذیب ھے ،، علم الاسماء اللہ کے فعل یعنی کائنات کو ایڈریس کرتا ھے جبکہ علم الھدی اللہ کے قول کو ایڈریس کرتا ھے ، اس کے احکامات و قوانین کا تبیان کرتا ھے ،،
یہ سوال اٹھانا کہ کونسا علم علم کہلاتا ھے اور کونسا علم اولیت رکھتا ھے ایک عبث بحث ھے ،جب انسان کا وجود پہلے ھے ،، جو کہ اللہ کا فعل ھے تو پھر علم الاسماء اولیت رکھتا ھے ،، پھر اس انسان کے مذھب کا مسئلہ پیدا ھوتا ھے ،، پہلے اس انسان کا زندہ رھنا ضروری ھے ، اس کی خوراک کا بندوبست ضروری ھے ، اس کو بیماریوں سے لاحق خطرات سے بچانا افضل و اولی ھے ،، پھر جب بالغ ھو گا تو عقیدے کا مکلف ھو گا ،،
جب اللہ پاک نے علم الاسماء کو ” عَلۜمَ ” کے لفظ کے ساتھ موسوم کر کے علم کہا ھے تو اس کے مقدس علم ھونے کا انکار ایک ضد اور کمپلیکس کے سوا کچھ نہیں ،، میرے نزدیک مولانا سلیم اللہ خان صاحب اور ڈاکٹر عبدالقدیر خاں برابر کے محترم ھیں ،