قصہِ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو ؟
Public
Friends
Friends except Acquaintances
Only Me
Custom
Family
Acquaintances
Go Back
ابلیس کا فسانہ !
میں نے گزراش کی تھی کہ انسانیت سے ابلیس کے آخری خطاب سے متعلق کچھ عرض کرونگا – جمعے کے خطبے میں بات ھوئی بھی مگر آڈیو ریکارڈنگ نہیں ھو سکی ،کیمرے کے ساتھ لگا مائیک آف ھی چلتا رھا ،، سوچا بات کو تحریر کا روپ ھی دے دیا جائے شاید اسی میں اللہ پاک کی کوئی حکمت ھو – جس طرح ھم اپنی تاریخ سے ٹھیک طرح سے آگاہ نہیں ھیں ،کچھ یہی حال ابلیس کی تاریخ اور جغرافیئے کا بھی ھے ،،،
ابلیس ھم سے پہلے با اختیار مخلوق یعنی جنات سے تعلق رکھتا تھا – اور اللہ پاک سے شدید محبت کرتا تھا زمین آسمان کے چپے چپے کو اس نے اپنے سجدوں سے سجا کر رکھ دیا تھا ، جب رب کی شان بیان کرتا تو فرشتے غش کھا کر گر پڑتے تھے ، اس کی محبت میں ایک نقص تھا بس ایک آنچ کی مار تھی کہ وہ محبت میں اپنی ذات کو مٹا نہ سکا ،، یہ مرحلہ عشق کہلاتا ھے جب محبوب کی پسند اپنی پسند بن جاتی ھے ،اور یہ عشق ابلیس کے مقدر میں نہیں تھا اور شاید رب کی اپنی مشیئت بھی یہی تھی ،،
محبت جتنی شدید ھوتی ھے ، زخمی ھونے پر اسی تناسب سے شدید رد عمل دیتی ھے – یوسف علیہ السلام کے بھائی اپنے والد سے شدید محبت کرتے تھے ،مگر جب اپنے محبوب ابا جی کا رخ یوسف اور بنیامین کی طرف دیکھا تو وہ محبت بھڑک اٹھی اور اس نے اعلانِ بغاوت کر دیا ،، اُقتلوا یوسف او اطرحوہ ارضاً یخل لکم وجہ ابیکم ،،، قتل کر دو باپ کے محبوب یوسف کو یا اسے کہیں کسی دور بستی میں پھینک آؤ تا کہ وہ تمہارے باپ کا چہرہ تمہارے لئے خالی کر دے ، یعنی باپ کو تم بھی نظر آ جاؤ کہ اسی گھر میں رھتے ھو اور وہ تمہاری طرف بھی توجہ دے ،،،،،، والدین اگر ایک بچے کو توجہ دیں تو دشمن گھر میں ھی پیدا ھو جاتے ھیں ،، اور پھر جب ساتھ یہ ڈراوے بھی ھوں کہ جلدی سے کھا لو ورنہ بھائی کھا جائے گا ، بھائی کے آنے سے پہلے پی لو ورنہ بھائی پی لے گا – یا بھائی تم سے اچھا پڑھتا ھے ، بھائی تم سے زیادہ نیک ھے ، الغرض اس قسم کا تقابل عموماً منفی نفسیات کو پیدا کرتا ھے اور بچہ یہ سمجھنا شروع ھو جاتا ھے کہ بھائی میرا دشمن ھے ، اس کی وجہ سے مجھے ھمیشہ پھٹکار پڑتی ھے ،، ھر ایک کی اپنی صلاحیتین ھوتی ھیں اور اپنی فطرت ھوتی ھے پیدا کرنے والے نے جب ایک جیسے پیدا نہیں کیئے تو آپ کیوں ان کو رگڑ رگڑ کر اور پلیٹیں اور ریت بھرے تکیئے اس کے سر کے نیچے رکھ کر ایک جیسا بنانے کی سعی کر رھی ھیں ، پلیٹ سالن کے لئے بنائی گئ تھی ،، سر بنانے کے مقصد سے نہیں بنائی گئ تھی ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یعقوب علیہ السلام کی محبت نے ساری زندگی ان کو بھی خون رلایا ، یوسف علیہ السلام کو بھی در بدر رلایا اور اسباط کے کردار کو بھی دھبہ لگا دیا ، اس ایک غلطی کے سوا ان سے اور کوئی غلطی نہیں ھوئی تھی اور وہ آگے چل کر نبی بنے ،، حضرت یعقوب علیہ السلام بڑی اچھی طرح جانتے تھے کہ بیٹوں نے یہ کارنامہ ان کی محبت کی خاطر حسد میں مبتلا ھو کر کیا ھے ،لہذا انہوں نے پوری سورہ یوسف میں اپنے بیٹوں کے ساتھ نرمی کے ساتھ بات کی ، اور سب معلوم ھونے کے باوجود انہیں جتلایا نہیں ، البتہ مختلف انداز میں انہیں جتاتے رھے کہ یوسف زندہ ھیں اور تم لوگ جا کر ان کو ڈھونڈ کر اپنی غلطی کا مداوہ کرو ،،،،،،،،،
جب آدم علیہ السلام کو اللہ پاک نے نیابت اور خلافت کا منصب سونپا اور فرشتوں سے ان کو سجدہ کرنے کا کہا تو ابلیس بھڑک اٹھا ،، اس کی ذات ابھی مری نہیں تھی ، اس نے اپنی خوشی کو اللہ کی خوشی ،اپنی پسند کو اللہ کی پسند نہیں بنایا تھا ،، اگر وہ عشق کا یہ مرحلہ بھی طے کر لیتا تو آدم کے پاؤں بھی چومتا کیونکہ وہ اس کے محبوب کا محبوب تھا ،، عشق ری ایکشن کی نفسیات سے نکل جانے کا نام ھے جب کہ محبت ابھی ری ایکشن کے چکر کے ساتھ جُڑی ھوتی ھے ،، کان من الجن ،، ففسق عن امر ربہ ،، چونکہ وہ جنات میں سے تھا یعنی صاحب اختیار تھا لہذا انکار کا اختیار استعمال کر بیٹھا ،جب کہ فرشتے انکار کے مجاز نہ تھے کیونکہ یفعلون ما یومرون ،، وہ بس وھی کر سکتے ھیں جس کا حکم دیا جاتا ھے ،،، ابلیس نے محبوب کے محبوب کو اپنا محبوب بنانے کی بجائے اس کے حسد میں مبتلا ھو گیا ، یہی وہ مقام ھے جہاں سورہ الفلق میں ” من شرِ حاسدٍ اذا حسد ” کہا گیا ھے ،، یہاں حاسد شیطان ھی ھے جو جب بھی حسد کو نکالنے کی راہ سوچے تو اللہ اس کی اس چال سے پناہ دے ،، اللہ یہ چاھتا ھے کہ انسان کو رب کی رضا حاصل رھے ، جبکہ ابلیس ھمیشہ یہ کوشش کرتا ھے کہ نیکی کی صورت ھو یا برائی کی ھر حال میں انسان سے وہ حرکت کرا دے جس سے رب اس پر غصے ھو ۔نماز پڑھے تو ریاکاری کر دے ، صدقہ دے تو دکھاوے کا دے ، قربانی دے تو پورے محلے کے تأثرات نوٹ کرے ،، بس یہی گیم ھے جو ساری زندگی ھمارے ساتھ کھیلی جاتی ھے ،، ھم دیکھتے تھے کہ جو بھائی بہن ماں کی نظروں کا تارا ھے اس سے کوئی ایسا کام کرا دیں اور ھمدرد بن کر کرا دیں ، پھر خود دوڑ کر ماں کو بتا دیں کہ تیرے تارے نے چن چڑھا دیا ھے ، پھر ماں کا غصے ھونا ، اس کو ڈانٹنا ھمارے سینے میں وقتی طور پر ٹھنڈ ڈال دیتا تھا ،، اسی طرح ساس کوشش کرتی ھے کہ بیٹے کی نظروں میں اس کی محبوب بیوی کو معتوب بنا دے اور بیوی کوشش کرتی ھے کہ وہ بیٹے کی نظروں میں ماں کو دشمن ثابت کر دے ، بس یہ محبتوں کی جنگ ھے کہ جس میں انسان نے آنکھ کھولتے ھی اپنے آپ کو معرکہ زن پایا ،،
حشر کے دن اللہ پاک کی عدالت میں فیصلے ھو جانے کے بعد شیطان انسانوں سے اپنا آخری خطاب کرے گا ، اور اس خطاب میں اللہ پاک کی حمایت کرے گا ، انسانوں کے برے اعمال سے مدلل اعلانِ برأت کرے گا ، اور دعوی کرے گا کہ وہ باغی تو ھے مگر مشرک نہیں ھے ،، واضح رھے کہ حشر میں ابلیس پر کوئی مقدمہ نہیں چلے گا ،، وہ اقراری مجرم ھے ، اور اسے اسی ڈیل کے بدلے دنیا میں اس کی ھر طلب کردہ صلاحیت دے دی گئ ھے ،، حشر کے میدان میں اس کی موجودگی لوگوں کے اس اعتراض کی بنیاد پر ھو گی کہ ھم سے سب کچھ ابلیس نے کروایا ھے ورنہ ھم تو بس اللہ کی گائے تھے ، اپنی صفائی میں یہ ابلیس کا آخری خطاب ھو گا اور اس مین انسانوں کو لگ پتہ جائے گا کہ وہ دلیل کہتے کس بلا کو ھیں ،، اللہ پاک نے انسانوں کو بار بار خبردار کیا ھے کہ ” ان الشیطان لکم عدوۤ ” بے شک شیطان تمہارا دشمن ھے ،، ان الشیطان للانسانِ عدوۤ مبین ، بے شک شیطان انسان کا دشمن ھے ،، کہیں بھی اللہ پاک نے یہ نہیں فرمایا کہ شیطان میرا دشمن ھے ،، وہ اچھی طرح جانتا ھے کہ شیطان نے اس کی محبت میں انسان سے حسد کیا ھے ،، لہذا اللہ پاک نے اپنا موقف بالکل واضح رکھا ھے ، اور انسان کو شیطان کی دشمنی سے بچانے کے لئے شریعت کے ذریعے وہ رستے بند کیئے ھیں جہاں سے شیطان انسان پر اللہ کے غضب کو بھڑکا سکتا تھا ،، یہی بات حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی یوسف علیہ السلام سے کہی تھی اور اسی محبت کا تقابل کیا تھا یوسف کے بھائیوں کے حسد کے ساتھ کہ جس طرح شیطان نے اللہ کی محبت میں انسان سے حسد کر کے اس کو اس کی منزل سے بے راہ کرنے کے لئے چالیں چلیں ، اسی طرح تیرے بھائی بھی چالیں چل کر تجھے اس منزل سے دور کرنے کی کوشش کریں گے ، قال یا بنی لا تقصص رؤیاک علی اخوتک فیکیدوا لک کیداً – ان الشیطان للانسانِ عدوۤ مبین –
عموماً دیکھا گیا ھے کہ جب گھر میں کوئی نیا بچہ پیدا ھوتا ھے اور سارا گھر اس کی طرف متوجہ ھوتا ھے ، مبارکبادوں کے تبادلے ھو رھے ھوتے ھیں اور ننھے کے نام پر مشورے چل رھے ھوتے ھیں ،ھر کوئی اس کی شکل پہ تبصرے کر رھا ھوتا ھے تو گھر میں پہلے سے موجود بچہ احساس کمتری کا شکار ھو جاتا ھے اور نیکی یا بدی ،جنت یا جھنم کے تصور سے ناشناس ھوتے ھوئے بھی حسد کا شکار ھو جاتا ھے ،، وہ کوشش کرتا ھے کہ کسی طرح والدین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے ،کبھی زبردستی ان کی گود میں جا بیٹھتا ھے اور ان کا منہ ھاتھ سے اپنی طرف موڑتا ھے ، اور پھر تنگ آمد بجنگ آمد ” أُقتلوا یوسف ” کے مقام پہ جا کھڑا ھوتا ھے ، وہ کبھی تو چھوٹے کی آنکھ میں چپکے سے انگلی گھسیڑ دیتا ھے ، کبھی اس کے کان کھینچ لیتا ھے ، کبھی اس کا فیڈر چھپا دیتا ھے ،،
بس یہی کچھ ابلیس کے ساتھ گزر رھی تھی ،، آدم کی تخلیق سے پہلے ابلیس اللہ پاک کو فرشتوں سے زیادہ عزیز تھا ، وہ خطیب الملائکۃ تھا ، وہ اللہ کی نافرمانی برداشت نہیں کر سکتا تھا ، اس نے شریر جنات کے خلاف کئ معرکے لڑے اور فرشتوں کے لشکر کی قیادت کی ،کئ کو قتل کیا اور بہت سوں کو بھاگ کر دور کہیں پانیوں میں اور کہیں دور دراز سیاروں پہ پناہ لینے پر مجبور کر دیا ،، محبت شرک برداشت نہیں کرتی ،یہی وجہ ھے کہ اللہ پاک جو انسان سے محبت کرتا ھے ،، برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ اس کی محبت میں کسی کو شریک کرے ، اور انسان اللہ کو چھوڑ کر جس سے محبت کرتا ھے ، وہ اسے اسی کے ھاتھوں مزہ چکھا کر دکھاتا ھے ،، ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر من دونِ ذالک لمن یشاء ،، اللہ پاک یہ تو کسی کو کبھی نہیں بخشے گا کہ وہ شرک کرے اللہ کے ساتھ ، البتہ اس کے علاوہ کی خطائیں جس کی چاھے گا معاف فرما دے گا ،،،
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رب سے روایت کرتے ھیں کہ آدم جب تخلیق کے مراحل سے گزر رھے تھے تو ابلیس روز چکر لگایا کرتا تھا ،جنات فرشتوں کو دیکھ سکتے ھیں کیونکہ یہ ان کے قریب تر تخلیق ھے ، لہذا تجلی کے ارتکاز کو بھی جانچ لیتے ھیں ، جس طرح آج آلات سے کھوج لگایا جا سکتا ھے کہ کس نمبر پر کس جگہ سگنل جا رھا ھے ،، اللہ پاک کی تجلیوں کا محور آدم تھے اور ابلیس کے دل میں کھٹک تھی کہ کچھ نیا ھونے جا رھا ھے ،کہتے ھیں محبت بے بھروسہ ھوتی ھے جو بیوی شوھر سے جتنی زیادہ محبت کرتی ھے اُتنی ھی زیادہ وسوسوں کا شکار رھتی ھے ،، حضور ﷺ حدیثِ قدسی میں روایت کرتے ھیں کہ ” کان یطیف علیہ ابلیس ” ابلیس آدم علیہ السلام کے پاس چکر لگاتا رھتا تھا اور کہتا تھا ” خلقت ِلاَمرٍ عظیم ” تو کسی بڑی اسکیم کے تحت ھی پیدا کیا جا رھا ھے ،،، تجلیات کے ارتکاز نے اسے حسد میں مبتلا کرنا شروع کر دیا تھا اور آخر اس نے کہہ ھی دیا کہ اللہ کی قسم اگر اللہ نے تجھے میرا تابع بنایا تو میں تجھے بھٹکا دونگا ،، اور اگر مجھے تیرا تابع بنایا تو تجھ سے بغاوت کر دونگا ،،، اور پھر وہ مرحلہ آ گیا !
فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا گیا تو ابلیس اس حکم میں شامل تھا کیونکہ وہ جن ھوتے ھوئے بھی اپنی عبادت اور لگن کی بدولت اعزازی طور پر فرشتوں میں پروموٹ کر دیا گیا تھا فرشتوں نے بھی اعتراض کیا تھا مگر جواب پر سرِ تسلیم خم کر دیا تھا ،،، ابلیس کھڑے کا کھڑا رہ گیا اور سر جھکانے سے انکار کر دیا ! اللہ نے پوچھا ابلیس کیا ھوا ؟ میں نے اتنے پیار سے بنایا اتنے پیار سے تو میں نے زمین و آسمان نہیں بنائے ، اور تو نے سجدے سے انکار کر دیا ،،،،،،، ابلیس جس نے اس سے پہلے ایک بھی گناہ نہیں کیا تھا ، فرشتے کا فرشتہ تھا ،، اللہ کی محبت نے اسے کسی اور طرف متوجہ ھی نہیں ھونے دیا تھا ، عشقِ مجازی ھوتا تو اسے پتہ ھوتا کہ محبت کسی وجہ کی محتاج نہیں ھوتی وہ تو بس ھو جاتی ھے ،، وہ ھمیشہ ستودہ صفات خدا کو سجدہ کرنے والا تھا جس میں کوئی عیب نہیں تھا ،اس سے اس کے ذوق نے بدبودار مٹی کی تخلیق کو سجدہ نہ کرنے دیا ،،، وہ آدم کی تخلیق کے عیب گنوانا شروع ھو گیا ، کہا پروردگار تو نے مجھے تو آگ سے بنایا اور اس کو مٹی سے بنایا ، بے عیب کو سجدے کرنے کے عادی سے بھلا بدبودار مٹی کی تخلیق کو سجدہ کیسے ھو گا ،، ؟ مجھ سے تو ایسا نہ ھو سکے گا ،،
باہجھ میرے تسی سجدہ نہ کرنا ، آپے ھی تُو بولے !
حکم تیرا اُس سچ کر منیا ، سر جُتیاں تے پَولے !
ربا تیری حکمت والے بھید نئیں جاندے پھَولے !
ابلیس نے زندگی بھر شرک نہیں کیا اور اپنی بات پر حشر میں رب کو گواہ بنائے گا ،قرآن کہتا ھے کہ ابلیس نے جب بھی قسم کھائی تو اللہ کی کھائی ،، اور جب بھی پکارا تو رب کو پکارا ، آدم کو سجدے سے انکار کے علاوہ اس کے نامہ اعمال میں کوئی گناہ نہ تھا ،، مگر تُف ھے ان لوگوں پر جو ابلیس کے ” خلقتنی من نارٍ و خلقتہ من تراب ” اے پروردگار تو نے مجھے پیدا کیا آگ سے اور تُو نے پیدا کیا آدم کو مٹی سے ” کے مقابلے میں کہتے ھیں کہ میرا یہ بیٹا بابا شاہ کمال کا ھے ، دوسرا بابا شادی شھید کا ھے اور بیٹی دمڑیاں والی سرکار کی ھے ،، اور یہ مشرک لعنت کرتا ھے ابلیس پر ،، اور مسلمان بھی کہلاتا ھے ! کتنی بے بسی کا مقام ھے کہ وہ کہتا ھے محبت کے لئے میں آدم سے بہتر ھوں ،، تخلیق کے لحاظ سے بھی عمر اور تجربے کے لحاظ سے بھی اور پھر مجاھدے اور قربانی کے لحاظ سے بھی ،، مگر محبت وجہ کی پابند نہیں اور بس یہی وہ نکتہ تھا جو ابلیس کی سمجھ سے بالا تر تھا ،، وہ آدم کی تخلیق کا ایک ایک مرحلہ گنوا رھا تھا کہ شاید کسی مرحلے پہ اللہ کو آدم سے کراھت آ جائے ،،
اذا حلفت فحلف باللہ او لیصمت ” اللہ کے رسول ﷺ ارشاد فرماتے ھیں قسم کھانی ھے تو اللہ کی کھاؤ یا چپ کر جاؤ ،،
بغیر ترجمان خدا ابلیس سے ھمکلام ھے ،، اور آخر اس کو دھتکار دیتا ھے مگر عدل کرتا ھے ظلم نہیں کرتا ،،،،،،
٣٣) قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ (٣٤) وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ (٣٥) قَالَ رَبِّ فَأَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (٣٦) قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ-
کہا پس تو نکل جا اس ( حالت یعنی فرشتے کے اسٹیٹس سے ) سے پس تو راندہ گیا ھے ، اور تجھ پر لعنت ھے ” بدلے کے دن تک ” کہا رب میرے مجھے مہلت دے یوم بعثت تک ، کہا تجھے مہلت ھے ایک معلوم دن تک ،،
چونکہ ابلیس نے انکار کر کے فرشتوں کی سرشت سے جدا ایک کام کر دیا تھا ،، جبکہ اس سے پہلے وہ فرشتوں کی طرح ھی رب کا تابع فرمان اور معصوم تھا اور فرشتوں کی طرح ھمیشہ وھی کیا جس کا حکم دیا گیا ،لہذا یہاں اسی اسٹیٹس کو ضبط کیا جا رھا ھے ، پھر شیطان پر لعنت ھمیشہ کے لئے نہیں ھے ” یوم الدین ” تک ھے ،، اور تیسرا یہ کہ اللہ نے بھی اس کی توحید کا بھرم رکھا ھے اور اس پر خاص طور پر الگ کر کے ” مجرد اپنی ھی لعنت ” کی ھے اور اس لعنت میں کسی اور کو شریک نہیں کیا ، جس طرح ابلیس نے کبھی رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کیا تھا فرمایا ” وإن عليك لعنتي إلى يوم الدين قال رب فأنظرني إلى يوم يبعثون قال فإنك من المنظرين إلى يوم الوقت المعلوم ) ، وهو النفخة الأولى ،،،
اور تجھ پر ھے ” لعنتی ” میری لعنت یوم الدین یعنی نفحہ اولی تک !
جبکہ علماء سوء کے بارے میں فرمایا ” اولئک جزائھم ان علیھم لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین – خالدین فیھا ،، لا یخفف عنھم العذاب ولا ھم ینظرون ،،
یہ وہ لوگ ھیں جن پر لعنت ھے اللہ کی اور فرشتوں کی اور تمام نوع انسانیت کی ،، یہ اس لعنت میں ھمیشہ مبتلا رھیں گے ( جبکہ ابلیس پر لعنت الی یوم الدین ھے ھمیشہ کی نہیں ھے ) اس لعنت کی وجہ سے ان سے عذاب مین تخفیف نہیں کی جائے گی اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی
شیطان اللہ کی عدالت میں !
ایک بچہ ھوتا ھے شریف ، سیدھا سادا ،، جہاں بٹھا دیا وھیں کا ھو کر رہ گیا ، اور ایک ھوتا ھے ” اتھرا ” یعنی کسی ایک جگہ نہ ٹھہرنے والا ،، والدین جہاں بھی جائیں ، ان کا دل سیدھے سادے بچے کے ساتھ اور نظریں اتھرے بچے پہ رھتی ھیں ،، وہ دوسروں کو بھی کہتے ھیں کہ اس پہ نظر رکھنا اور خود بھی بےچین رھتے ھیں کہ وہ کوئی چاند نہ چڑھا دے ،، یوں وہ بچہ پیار سے محرومی کا بدلہ اس طرح لیتا ھے کہ الٹے طریقے سے توجہ اور وقت لے لیتا ھے ،، جبریل ھوں یا آدم ،، سیدھے سادے بچے کی طرح تھے جبکہ ابلیس کی سرشت مین شرارت غالب تھی ،، نتیجہ یہ ھے کہ بقول اقبال وہ جبرائیل امین کو طعنہ دیتا ھے کہ ؎
میں کھٹکتا ھوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح !
تُو فقط ،،،، اللہ ھُو ،،،،،،، اللہ ھُو ،،،، ، اللہ ھوُ !
اگر میں نہ ھوتا تو آدم کا قصہ بھی بڑا بور ھوتا اور آدم بھی فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ھوتا ، یوں نئ تخلیق کا مقصد ھی فوت ھو کر رہ جاتا ،، میں اللہ کا مزاج شناس تھا اور مجھے معلوم تھا کہ اس نئ مخلوق کے پراجیکٹ کا مقصد کائنات کے اس بور تسلسل میں اللہ تھرل چاھتا ھے ، اور اس کہانی میں رنگ بھرنے اور سسپنس پیدا کرنے کے لئے ایک ولن کی ضرورت ھے ،مگر اللہ کا عدل اسے کسی کو اس کے لئے مجبور کرنے کی اجازت نہیں دیتا ،،،،،،،،،،،، تو میں نے رضاکارانہ طور پہ آگے بڑھ کر اس رول کو سینے سے لگا لیا یوں اپنا بے گناہ ماضی رب کی اسکیم پر قربان کر دیا ،،، اگر میں نہ ھوتا تو قصہ آدم میں یہ رنگینی نہ ھوتی ، یہ ھنگامہ نہ ھوتا ،، میں نے انت مچا کر رکھ دی ھے ، بڑے بڑے نبیوں کو بے بس کر دیا ھے کتابوں پر کتابیں نازل ھو رھی ھیں کہ بچو اس شیطان سے ،، رسولوں پر رسول آ رھے ھیں جو انسانوں کو میرے فتنوں سے بچنے کی فزیکل تربیت دے رھے ھیں یوں وہ ھنگامہ کائنات جو انسان کی تخلیق سے مقصود و مطلوب تھا ، اس کا ایندھن میں بن گیا ،،،،،،،،،،
؎
گر کبھی خلوت میسر ھو تو پوچھ اللہ سے !
قصہءِ آدم کو رنگیں کر گیا ،،،،،،، کس کا لہو ؟
خضر بھی بے دست و پا ، الیاس بھی بے دست و پا !
میرے فتنے یم بہ یم ، دریا بہ دریا ، جُو بہ جُو !
حدیث میں ابوھریرۃؓ فرماتے ھیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ھے اگر تم سے گناہ سرزد نہ ھوں اور تم توبہ نہ کرو تو اللہ تمہیں لے جائے اور دوسری مخلوق لے آئے جس سے گناہ سر زد ھوں اور وہ توبہ کریں اور اللہ ان کی توبہ قبول کرے ،،
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوْا لَذَھَبَ اللہُ بِکُمْ وَلَجَآءَ بِقَوْمٍ یُّذْنِبُوْنَ فَیَسْتَغْفِرُوْنَ اللہَ َیَغْفِرُ لَھُمْ ( مسلم )
اس کا بیک گراونڈ یہ ھے کہ جبر کے تحت گناہ کے لئے ڈس ایبل مخلوق کے مقابلے میں ایک ایسی مخلوق بنانا مقصود تھا ،جس کو گناہ کرنےکی استطاعت دی جائے ، ھر چیز سے محبت کا موقع دیا جائے اور وہ مخلوق ان تمام مواقع کو لات مارتے ھوئے اپنے رب کی طرف لپکے اور ساری محبتوں کو اکٹھا کرے اور اپنے خالق و مالک کے قدموں میں ڈھیر کر دے ،، اتنی باصلاحیت مخلوق کو اختیار اور مواقع فراھم کرنا نہایت ھی رسکی ایڈوینچر تھا ، جس کو ھینڈل کرنے کے لئے ضمنی انتظامات کی ضرورت تھی ، ان میں پہلی چیز توبہ ھے ،، یعنی آپ کوئی بھی پیج کھولیں تو اس میں exit کا آپشن لازمی ھوتا ھے ،، یہی ایگزٹ گناہ کے پیج کے لئے توبہ کی صورت رکھا گیا ،، دوم ، انسان کے اندر دوسری محبتوں کے لئے Receptors رکھے گئے ، ان Receptors کی عدم موجودگی میں انسان بنانے کا عمل ھی عبث ھو جاتا ،، یہی وہ چیز ھے جو اس حدیث میں بیان کی گئ ھے کہ انسان کوئی حادثاتی مخلوق نہیں ھے ، کہ اللہ بنانے تو چلا تھا جبریل نما مخلوق اور حادثاتی طور کسی مسالے کی افراط وتفریط کی وجہ سے بن گئے ھم جیسے منہ کالے ،، انسان اللہ پاک کی انتہائی سوچی سمجھی پرحکمت تخلیق ھے اتنی پرحکمت کہ اس کے بعد اللہ پاک نے تخلیق کا قلم توڑ دیا ،، اور انسان کو احسن التقویم مخلوق قرار دیا ،، وہ ھم سے گناہ کے صدور کی توقع ھی نہیں یقین رکھتا ھے لہذا توبہ کی صورت اس کا مخرج رکھا،
دوسری محبت یعنی آپشن کی موجودگی میں ھی محبت کی قدر بھی ھوتی ھے اور محبتوں میں Tug of War بھی شروع ھوتی ھے ،، ایک بیچلر پوری جان اور پورے دل کے ساتھ اپنی ماں سے محبت کرتا ھے مگر اس کی ماں کو اس کی محبت کی رائی برابر قدر نہیں ھوتی مگر دوسری محبت یعنی بیوی کے آتے ھی وہ اس بیٹے کی محبت جیتنے کے لئے سو جتن کرتی ھے ،، ابلیس اصل میں وہ چینل ھے جو ان دنیاوی محبتوں کے طاقتور سگنلز نشر کرتا رھتا ھے جو انسان کا قلب وصول کرتا ھے ، انسان اپنے قلب کو ان سگنلز سے بالکل نہیں بچا سکتا اور نہ قلب کو ڈس ایبل یا Hidden موڈ میں رکھ سکتا ھے ،، ابلیس کی اس دعوت یا ان سگنلز کی مثال اس ریڈیو یا ٹی وی چینلز کی نشریات جیسی ھے جو ھر چیز کی Advertisement کر رھے ھوتے ھیں مگر آپ کو خریدنے پر مجبور نہیں کر سکتے ،، اسی کے بالمقابل رسول کی دعوت بھی ھوتی ھے جو جنت کی نعمتوں کو دنیا کی عیاشی کے بالمقابل پیش کرتے ھیں اور دنیا کی محبتوں کے بالمقابل اللہ کی محبت کو نہ صرف پیش کرتے ھیں بلکہ اپنا بیٹا چھری کے نیچے لٹا کر عملی طور پر ثابت بھی کرتے ھیں ،، مگر جبر نبی بھی نہیں کرتے اور نہ جبر کرنے کا حکم دیئے گئے ھیں ، ورنہ نوح علیہ السلام بیٹا اگر مسلمان نہ کر سکتے تو بھی اس کی ھڈیان توڑ کر لولا لنگڑا ضرور کر سکتے تھے مگر انہیں تو دباؤ ڈالنے کے لئے اپنی بیوی کو طلاق دینے کی بھی اجازت نہیں دی گئ اور نہ ھی حضرت لوط علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ وہ مذھبی بلیک میل کے لئے اپنی بیوی کو طلاق دیں ،، مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں اب ابلیس کا بیان پڑھئے ،
وقال الشيطان لماقضي الأمر إن الله وعدكم وعد الحق ووعدتكم فأخلفتكم وماكان لي عليكم من سلطان إلا أن دعوتكم فاستجبتم لي فلا تلوموني ولوموا أنفسكم، ماأنا بمصرخكم وماأنتم بمصرخي، إني كفرت بما أشركتمون من قبل إن الظالمين لهم عذابٌ أليم”.( ابراھیم-22 )
اور شیطان کہے گا جب فیصلے ھو چکے ھونگے کہ اللہ نے تم سے جتنے وعدے کئے تھے وہ برحق اور سچ تھے ،جبکہ میں نے تم سے جو وعدے بھی کیئے وہ وفا نہ کیئے ،، میرے پاس نہ تو دلیل کی طاقت تھی اور نہ ھی مجھے جسمانی طاقت استعمال کرنے کی اجازت تھی کہ جس کے بل بوتے پر میں تم سے برائی کراتا ، سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں برائی کی دعوت دی ( جبکہ بالمقابل والرسول یدعوکم لتومنوا بربکم رسول تمہیں رب پر ایمان کی دعوت دے رھے تھے، اور اختیار تمہارے پاس تھا کہ رسول کی دعوت قبول کرو یا میری ) چنانچہ تم نے میری دعوت پر لبیک کہا ( اور رسول کی دعوت ٹھکرا دی ) پس مجھے مت ملامت کرو بلکہ ملامت کرو اپنے آپ کو ، نہ میں تمہیں چھڑا سکتاھوں اور نہ تم مجھے چھڑا سکتے ھو ، میں اللہ کی اطاعت میں اپنی شراکت کا انکار کرتا ھوں ، جو پہلے تم مجھے الزام دیتے رھے ھو ، بیشک ظالموں کے لئے دردناک عذاب ھے !
امام قرطبی فرماتے ھیں کہ ابلیس یہ خطاب جہنمیوں سے اس طرح کرے گا کہ وہ آگ کے منبر پر بیٹھا ھو گا ،،
اس طرح ابلیس جھنم میں انچارج ھو گا ان لوگوں کو سزا دینے کے لئے جنہوں نے رب سے بیوفائی کی اور اس کی اطاعت میں کسی کو شریک کیا ،،،،،،،،،،،،، آگ ھی اس کی جنت ھو گی جس سے نکلنے کا نہ کبھی اس نے سوچا اور نہ نکلے گا ،،