نیکی اور بدی اپنی ابتدائی شکل میں دو اصناف سے تعلق رکھتی ھیں ،،
1- لازمی !
1- متعدی !
لازمی نیکی وہ ھے جو آپ کی ذات کا حصہ ھے اور آپ کی ذات کے لئے ھی ھے ! اس کا دوسروں کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ،،،،،، لہذا دوسروں کو اس کی پرواہ بھی نہیں !
مثلاً آپ سات وقتہ نمازی ھیں تو اپنی ذات کے لئے ھیں اور اس کا اگر کوئی فائدہ ھو گا تو حشر کے دن بھی آپ کی ذات کو ھی ھو گا ،،
آپ روزہ رکھتے ھیں یہ ایک مستند نیکی اور شرعی فریضہ ھے ،یہ دنیا میں بھی آپ کی ذات تک محدود ھے اور حشر میں بھی آپ کا بھلا کرے گا – نہ تو دوسروں کا اس سے کوئی فائدہ ھونے والا ھے اور نہ دوسروں کو اس سے کوئی سروکار ھے کہ آپ نے روزہ رکھا ھے یا نہیں رکھا ،،
آپ نے حج کیئے کتنے کیئے ،،، اس سے آپ کی ذات کو فائدہ ھو گا ، یہاں ھو یا وھاں ،، دوسروں کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ھے ،،،،،،،،
مگر تعجب کی بات یہ ھے کہ ھم اپنی ذاتی اور لازمی نیکی پر دوسروں سے داد وصول کرنا چاھتے ھیں اور نیک کہلوانا چاھتے ھیں ،،،،، جس میں دوسروں کو رائی برابر دلچسپی نہیں ،،،،،،،،،
اگر شرعی تعلیمات کو مدنظر رکھا جائے تو لازمی اور ذاتی نیکی انسان کو متعدی اور آفاقی نیکی کے لئے تیار کرتی اور مستعد رکھتی ھے ! اگر یہ نہیں ھو رھا تو پھر اپنی اپلیکشنز کو چیک کیجئے کہیں نہ کہیں وہ کرپٹ ھو چکی ھیں ! اللہ پاک نے دو ٹوک انداز میں اس شخص کے ایمان بالآخرت کو رد کیا ھے جو یتیم کو دھکے دیتا ھے ،بھوکے کو کھلانے سے کتراتا ھے اور اس کی نمازوں کو دکھاوا اور ڈھکوسلا قرار دیا ھے جو عام استعمال کی چیز مانگے پر بھی نہیں دیتے کجا یہ کہ ان کو کسی کی ضرورت پر خود آگے بڑھ کر پیش کش کرنی چاھیئے تھی ،،،،،،
متعدی نیکی وہ ھے جس کا فائدہ آپ کو تو ضرور ھو گا مگر دوسروں کا بھلا بھی ھو جاتا ھے اور وہ نیکی ایک سے دوسرے کو وبا کی طرح لگتی چلی جاتی ھے لہذا لوگ اسی متعدی نیکی کی بنیاد پر آپ کو نیک قرار دیتے اور سمجھتے ھیں ، اگر کوئی آدمی اس 50 سینٹی گریڈ کی گرمی میں سڑک پر اس لئے کھڑا ھے کہ اس کے پاس گاڑی کا وھیل بدلنے کے لئے جیک نہیں ھے یا وھیل کھولنے والا اوزار نہیں ھے ،، اس حالت میں ایک شخص اپنی گاڑی روکتا ھے ، اس سے پریشانی کی وجہ پوچھتا ھے ،پھر نہ صرف اپنا جیک دیتا ھے بلکہ خود لگا کر بھی دیتا ھے اور وھیل بدلنے میں اس کی مدد کرتا ھے ، اپنی گاڑی میں سے پانی نکال کر لاتا اور اس بندے کو پینے کے لئے دیتا ھے ،، اس پریشان شخص کے لئے وہ بندہ فرشتہ ھے فرشتہ ،، نہ اس نے اس کو نماز پڑھتے دیکھا اور نہ روزہ رکھتے دیکھا ، نہ حج کا سفر اس کے ساتھ کیا اور نہ اس کو تسبیحات کرتے دیکھا ،،مگر وہ جہاں بھی اس واقعے کا ذکر کرتا ھے ھمیشہ کہتا ھے پھر اللہ کا ایک بندہ آیا ، ایک نیک آدمی آیا ، ایک ولی اللہ آیا ،، ایک بندے کا پتر آیا ، ایک شریف آدمی آیا اور اس نے یہ اور یہ کیا ،،، یہی وہ گواھی ھے جو جنت کو واجب کر دیتی ھے ،، اس بندے نے اس مصبت زدہ کو اپنے عمل سے وہ سبق دیا ھے ، ایسی تبلیغ کر دی ھے کہ وہ بھی آئندہ کسی کو پریشانی میں کھڑا دیکھے گا تو اس شخص کا عملی سبق اسے رک کر اس پریشان کی مدد پر آمادہ کرے گا ،، جیسا کہ اس پیاسے کا قصہ ھے جو اپنی پیاس بجھا کر جب کنوئیں ( صحراء میں وہ تنگ کنواں جس کی دونوں طرف دیواروں میں پاؤں رکھنے کے لئے ھلکے ھلکے کھڈے مارے ھوتے ھیں جن میں پاؤں اڑا کر کوئی نیچے اترتا اور پانی پیتا تھا بغیر کسی لوٹے یا ڈول کے اس کو باولی کہا جاتا ھے ) سے باھر نکلا تو اس نے ایک کتے کو پیاس سے گیلی مٹی چاٹتے دیکھا ،، اس کو اپنی پیاس یاد آگئ اور وہ اپنا چمڑے کا موزہ لے کر نیچے اترا اور اس وقت تک اس موزے میں بار بار پانی بھر کر لاتا رھا جب تک کہ کتے کی پیاس بجھ نہ گئ ،، اللہ پاک نے اس نیکی کے صدقے اس کی ساری خطائیں معاف فرما دیں ،، اسی قسم کا واقعہ ایک بدکار عورت کا بھی ھے ،، لازمی نیکی نماز روزہ آپ کے ساتھ ھی مر جاتے ھیں اور حشر میں آپ کے ساتھ ھیں اٹھیں گے ، جبکہ متعدی نیکی زندہ رھتی ھے بچے دیتی رھتی ھے ،جن کا بھلا آپ کرتے ھیں وہ آگے دوسروں کا بھلا کر کے آپ کے شیئر کو زندہ رکھتے ھیں ،، لازمی نیکی کی قضاء ھوتی ھے جبکہ متعدی نیکی کی قضاء ممکن نہیں ھوتی ،، آپ نے بروقت کسی کی مدد نہ کی تو وہ لمحہ گزر جائے گا اور پھر آپ کے ھاتھ نہیں آئے گا ، فیصل آباد میں طھر کی نماز کے دوران نماز کی صف میں ایک نمازی گر گیا غالباً اس کو ھارٹ اٹیک ھوا تھا ،، سارے نمازی اپنی اپنی نماز میں مگن رھے ، ایک بابے نے ساتھ والے نوجوان کو زور زور سے کہنیاں ماریں جس نے مجبور ھو کر نماز توڑ دی ،، بابے نے بھی نماز توڑ دی اور دونوں نے گھسیٹ کر اس نمازی کو صفوں میں سے نکالا اور نوجوان کی گاڑی میں ڈال کر اسپتال لے گئے ،، ڈاکٹروں کے بقول اگر دس منٹ کی بھی تاخیر ھو جاتی تو اس بندے کو بچانا ناممکن تھا ،یوں اللہ پاک نے اس بابے کے طفیل ایک جان بچا لی ،، واپسی پہ اس بابے نے کہا کہ بیٹا ھم نماز قضاء بھی پڑھ سکتے ھیں،،، مگر بندے کی قضاء نہیں ھوتی اس نے مر جانا تھا ،، آپ کی ذرا سی تاخیر اگر جان لے لیتی ھے ،، کوئی عورت اگر بھوک کے ھاتھوں مجبور ھو کر بچے بھی مار دیتی ھے اور خود بھی مر جاتی ھے تو اب آپ کے زندگی بھر کے صدقے بھی ان جانوں کو واپس نہیں لا سکتے ،،،،،،،، جبکہ نمازیں روزے دس سال بعد بھی قضاء کیئے جا سکتے ھیں
نیکی اور بدی کی اقسام – 2
ھمارے ایک دوست ھیں جن کا 24 سال کا جوان بیٹا موٹر بائیک کے حادثے میں فوت ھو گیا ، ان کی اھلیہ کی حالت انتہائی خراب ھے ،، رات گلہ کر رھے تھے کہ وہ جو ساری اس کی دیندار سہیلیاں تھیں جو تین تین پردوں میں آتی تھیں ،جن کے دروسِ قرآن میں گھر والی جایا کرتی تھی اور ان کے دروس اپنے گھر میں رکھا کرتی تھی ،،اور دعا کیا کرتی تھی کہ اللہ مجھے ان کے ساتھ جنت میں لے جائے ،، ان میں سے کسی نے پلٹ کر اس سے فون پر بھی بات نہیں کی کہ چلو تسلی کے دو بول انسان کو بول دیتا ھے ،حوصلہ دیتا ھے ،، تھوڑی دیر سہی اس کا دھیان بٹ جاتا ھے ،،، مگر مجال ھے جو پہلے دن کے بعد کسی نے پوچھ ھی لیا ھو کہ کیا بیت رھی ھے ، دو خواتین تھیں جو درس میں ھی آیا کرتی تھیں مگر پردہ نہیں کرتی تھیں اور وائف ھمیشہ ان کی غیبت ھی کرتی رھتی تھی کہ بھلا ان کو درس سننے کی ضرورت ھی کیا ھے ، اور لوگ کیا کہتے ھونگے جب وہ ھمارے گھر سے بے پردہ نکلتی ھونگی ،،، بس وھی دونوں بےپردہ مسلسل ھر دوسرے دن آتی ھیں ،کھانا بھی گھر سے بنا لاتی ھیں اور اصرار کر کے اھلیہ کو اپنے ھاتھوں سے کھلا کر جاتی ھیں ،گھر والی دو دو دن بھوکی رھتی ھے ، اللہ ان عورتوں کو جزاء دے ان کی وجہ سے چند نوالے اس کے منہ میں چلے جاتے ھیں ،،
بلو ائیرلائن کی پرواز سے گھر والی اسلام سے ابوظہبی آ رھی تھیں تو فلائیٹ میں ایک خاتون تھی جس کا چھوٹا سا بچہ تھا ،، درمیان والی سیٹ پر اس کے ساتھ ایک باریش مرد بیٹھا تھا جس کے ساتھ اس کی گھر والی دائیں جانب بیٹھی ھوئی تھی ،، اس خاتون کا بچہ دودھ کے لئے رو رھا تھا اس نے پہلے تو کیبن کریو سے کہا کہ اسے کوئی سیٹ تبدیل کر کے دی جائے جہاں وہ بچے کو فیڈ کر سکے مگر انہوں نے کہا کہ جناب آپ خود ھی آپس میں کوئی کمپرومائز کر لیں ،، اس خاتون نے اس مولوی نما مخلوق سے کہا کہ بھائی جان آپ دوسری جانب ھو جائیں اور اپنی گھر والی کو میرے والی طرف کر دیں تو میں بچے کو دودھ پلا لوں ،، مگربار بار کی استدعا کے باوجود وہ صاحب ٹس سے مس نہ ھوئے بلکہ تسبیح پر مزید مشقت فرمانے لگے ،، آخر تیسری چوتھی صف سے ایک ایسی عورت جس کا لباس تو معقول تھا مگر اس نے نقاب نہیں کیا ھوا تھا ، وہ اٹھ کر آئی اور اس مولوی صاحب کے پاس بیٹھی اور اس خاتون کو اپنے والی نشت پر دوسری عورت کے پاس بھیج دیا کہ چلو اگر ان صاحب نے رانجھا راضی کرنا ھی ھے تو میں تمہارے لئے قربانی دیتی ھوں ،،،، اب اس ظاھر کی شکل و صورت پہ کوئی کیا بھروسہ کرے ،جب انسان بورڈ فارمیسی کا لگائے تو اندر کسی کے درد کی دوا بھی ھونی چاھئے نہ کہ ھیروئین رکھ کر بیٹھا ھو ،، ایسے لوگوں کی حالت اس فیوز بلب کی سی ھوتی ھے جس کو دیہات میں خواتین ڈیکوریشن پیس کے طور پر گلاس کے اوپر سجا دیتی ھیں ،،
حقیقت یہ ھے کہ عبادات جن کو حقوق اللہ کہا جاتا ھے وہ انسان کو حقوق العباد کے لئے مستعد کرتے اور رکھتے ھیں ،، اگر فوج کی ساری ٹریننگ ایک مقصد کے تحت کی جاتی ھے کہ وہ وقت آنے پر دشمن کا سامنا کرے ،، اور فوج جب وقت آئے تو بھاگ نکلے تو اللہ کے نزدیک یہ شرک کے درجے کا گناہ ھے ، اسی وجہ سے اللہ پاک نے ایسے بے ثمر نمازیوں کے لئے قرآن کی سخت ترین اصطلاح استعمال فرمائی ھے جو کہ کافروں اور مشرکوں کے لئے استعمال فرماتا ھے،” قویلۤ للمصلین ” ویل ھے نمازیوں کے لئے ،، جو اپنی نماز کے مقصد سے غافل ھیں ،، جن کی نماز بس دیکھنے میں نماز لگتی ھے بلکہ شاید طویل بھی ھو ،مگر جس میں جوھر نہیں ھے ،، نامرد اور مرد میں بظاھر کوئی فرق نہیں ھوتا بلکہ شاید نامرد کی مونچھیں کچھ زیادہ ھی گھنی ھوتی ھیں ،، مگر وقت اس فرق کو واضح کرتا ھے ،، اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا کہ ایک عورت ھے جو بڑی پرھیز گار ھے ، فرائض کے ساتھ نوافل کا اھتمام بھی کرتی ھے ،، مگر اس کے پڑوسی اس سے بہت تنگ ھیں ،، تو آپ ﷺ نے فرمایا ، انھا فی النار ” وہ آگ میں ھے ،، دوسری خاتون کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ بس فرض عبادات کا اھتمام کرتی ھے ایکسٹرا نماز روزے نہیں کرتی مگر پڑوس اس ے بہت خوش ھے ،تو جناب رسالمآب ﷺ نے فرمایا کہ ” انھا فی الجنۃ ” وہ جنت میں ھے ،،
بدی کی اقسام !
بدی بھی نیکی کی طرح ابتدائی طور پہ دو ھی قِسموں سے تعلق رکھتی ھے –
1- ذاتی برائی ،،،،،،
یہ انسان کی اپنی ذات کا مسئلہ ھے ،،،، دوسروں کا اس کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ،جیسے ایک انسان اگر نماز نہیں پڑھتا تو اس کا تعلق اس کی اپنی عاقبت کے ساتھ ھے ، پڑوسیوں یا محلے والوں کی صحت پہ کوئی اثر نہین پڑتا ،، یہی معاملہ روزے اور حج کے ساتھ ھے ،، شریعت کے نزدیک ایسا شخص برا انسان ھے ،لیکن اگر وہ پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنے والا ھے اور معاملات و اخلاق میں مھذب ھے تو دوسروں کی آنکھ کا تارا بھی بن سکتا ھے ،،،،،،،،، مگر ھمارے یہاں کسی کے روزہ نہ رکھنے پر اسے انتہائی گنہگار سمجھا جاتا ھے ،، جبکہ یہ اس کا ذاتی نقصان ھے ،، اگر ایک شخص اچھی بھلی 40 ھزار درھم ماھانہ کی نوکری چھوڑ کر پاکستان شفٹ ھو رھا ھے تو اپنا ذاتی نقصان کر رھا ھے ، اس میں میرا اس کے ساتھ دشمنی کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ،، البتہ اگر وہ میری نوکری کے پیچھے پڑا ھے تو پھر یہ میرے لئے تشویش کی بات ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
حقوق اللہ کی ادائیگی ذاتی نیکی ھے تو حقوق اللہ کا ضائع کرنا ذاتی برائی ھے ،، حقوق العباد کا التزام کرنا متعدی اور دوسری کے لئے نفع رساں نیکی ھے تو حقوق العباد کو تلف کرنا دوسروں کے لئے نقصان دہ اور تباہ کُن برائی ھے ،، متعدی روحانی مرض ھے ،،
اگر ایک شخص ساری عمر نماز نہین پڑھتا اور ساری عمر روزے نہیں رکھتا تو یہ اس کا اور اللہ پاک کا باھمی مسئلہ ھے ،ربِ کریم اسے جب چاھے معاف فرما دے اس میں کوئی تھرڈ پارٹی انوالو نہیں ھے ،، مگر حقوق العباد میں کمی بیشی اور ظلم و زیادتی کسی صورت معاف نہیں کی جائے گی کیونکہ اس میں تھرڈ پارٹی ملوث ھے جو کلیئرینس دے گی تب ھی اس بندے کو معاف کیا جائے گا ،یوں حقوق اللہ میں بڑی سے بڑی کوتاھی اتنی تباہ کن نہیں ھو سکتی جتنا حقوق العباد میں چھوٹی سے چھوٹی کوتاھی ھلاکت خیز ھو سکتی ھے ،کیونکہ وھاں معاملہ ایک کریم ھستی کے ساتھ ھے اور یہاں معاملہ کینہ پرور انسان کے ساتھ ھے ،،،،،،، حقوق العباد کی اھمیت کا اندازہ یوں کر سکتے ھیں کہ اگر کوئی شخص بہت ساری نمازیں روزے واجب الادا چھوڑ کر مر گیا ھے تو اس کا فدیہ مسکینوں کو دے کر اس کی تلافی کرنے کا حکم ھے ،، جبکہ اگر کوئی کسی کا ایک درھم بھی کھا کر مر گیا ھے یا زمین پر ناجائز قبضہ کر کے مر گیا ھے تو اس کی طرف سے ساری زندگی نماز پڑھ کر یا حج کر کے بھی اس کی تلافی ناممکن ھے جب تک حشر میں اللہ کی عدالت میں معاملہ پیش نہ ھو ،، اس کی اگر زندہ اور عبرت انگیز مثال دیکھنی ھے تو اس آدمی کا واقعہ پڑھ لیں کہ جو نبئ کریم ﷺ کے ساتھ غزوے میں شریک تھا اور نبئ پاک ﷺ کی سواریوں کا خیال رکھنے والا تھا یعنی ذاتی خدمتگار تھا ،، وہ نبئ کریم ﷺ کے اونٹ کا کجاوہ درست کر رھا تھا کہ دشمن کا ایک تیر اس کو آ کر لگا اور وہ زمین پر بے دم ھو کر گر گیا ، صحابہؓ اسے شہادت مبارک اور جنت مبارک کی آوازیں دیتے اس کی طرف لپکے کہ پیچھے سے نبئ کریم ﷺ کی آواز نے ان کے قدم پکڑ لئے ،،بخدا میں اس کو آگ میں دیکھ رھا ھوں ، ایک چادر ھے آگ کی جس نے اس کو لپیٹا ھوا ھے ، اس کے سامان کی تلاشی لو ،، سامان میں سے ایک چادر نکلی جو اس نے میدان جنگ میں بطور مالِ غنیمت اٹھائی تھی مگر بیت المال میں جمع نہیں کرائی تھی ،، یہ واقعہ دیکھ کر باقی لوگ بھی ھلکی پھلکی چیزیں لے کر حاضر ھو گئے جن کو وہ بہت معمولی سمجھ کر جمع نہیں کر رھے تھے ،مثلاً کوئی رسی یا جوتے کا تسمہ وغیرہ ،،،
جاری ھے