ھمیں تو اسلاف پہ بھروسہ ھے ، ھمیں ان کے علم اور تقوے کا یقین ھے اور ان کے خلوص پر مکمل بھروسہ ھے ،، مگر کیا یہ یقین اور بھروسہ خود کو بد دماغ ، بے عقل ،کج فہم ،کج نظر ، بے بصیرت سمجھے بغیر نہیں ثابت نہیں کیا جا سکتا ؟
پہلی بات یہ کہ اسلاف نے کبھی اپنی پرستش کی دعوت نہیں دی ، اور نہ اپنے آپ کو دین میں حرفِ آخر منوایا ، یہ مدعی سست گواہ چست والا معاملہ ھے ،کہ اکابر پرست چاھتے ھیں کہ اللہ پاک ان کے اکابر کے احترام میں بغیر عقل کے لوگ پیدا فرمائے تا کہ ان کے اکابر جیسا کوئی دوسرا نہ پایا جائے ،،اگر ھم یہی گلہ اسلاف پرستوں سے کریں کہ خود اسلاف کو آنے والی نسلوں پہ اعتماد کیوں نہین تھا ؟ کیا انہوں نے یہ سمجھا تھا کہ ان جیسے بعد میں اللہ پیدا نہیں کر سکتا ؟ یا انہوں نے کسی خاص ذریعے سے اپنے جیسے پیدا ھونے والے روک دیئے تھے ؟ اگر علم تجربے کا نام ھے تو بعد والوں کو زیادہ تجربات حاصل ھوئے ھیں ،، اگر علم معلومات کی جمع تفریق کا نام ھے تو بعد والے ان سے زیادہ علوم سے واقف ھیں اور صحاح ستہ ھی نہیں ان کی شرحیں بھی فلیش ڈرائیو میں ڈال بائیں جیب میں رکھے پھرتے ھیں ،، جن کے نزدیک فرشتے ستاروں کو زنجیروں سے باندھ کر شام کو لٹکا دیتے تھے اور صبح واپس کھینچ لیتے تھے ،جن کا سورج کسی بڑے اسپتال میں بنائے گئے ھیلی پیڈ جتنا تھا ، جن کا چاند گندم کے لگائے گئے پھواڑے جتنا تھا ،، جن کا ستارہ دیہات میں بیوی کے شوھر کو روٹی سالن رکھ کر لے جانے والے کھارے جتنا تھا ، جن کے نزدیک عیسی علیہ السلام قسطنطنیہ فتح ھونے کے بعد سات دن کے اندر آ جانے تھے ،،اور پھر چالیس سال بعد قیامت آ جانی تھی ،، وہ اگر یہ زعم رکھیں کہ ان جیسا آئندہ پیدا نہیں ھو گا تو سمجھ لگنے والی بات ھے ،، میں نے کئ مشاھیر کی تحریروں میں پڑھا ھے کہ ان کو کشف ھوا ھے کہ حق کو ھم نے تیرے ساتھ وابستہ کر دیا ھے ، آئندہ حق وھی ھو گا جو تیرے منہ سے نکلے گا ، جسے تیرے ھاتھ تحریر کریں گے ،،،،،،،،،،،،،،، اور پھر وہ خاک ھو کر رہ گئے اور حق کا علم کسی اور نے اٹھا لیا ،،، انہی سلف الصالح کے شاگرد کہتے ھیں کہ عورت گاڑی چلائے تو رحم ٹیڑھی ھو جاتی ھے ، وھی کہتے ھیں کہ اگر زمین گھوم رھی ھوتی تو دریاؤں کے نیچے سے نکل نہ جاتی ؟ عقل کو تالے لگاؤ تو ایسے عجوبے ھی تیار ھوتے ھیں ،،
امام شافعی رحمہ اللہ علیہ امام مالک کا احترام کرتے تھے مگر ان کو حرفِ آخر نہیں سمجھتے تھے ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی کی جوتیاں اٹھانا باعثِ فخر سمجھتے تھے مگر ان کو حرفِ آخر نہیں سمجھتے تھے ،امام یوسف و امام محمد رحمھما للہ امام ابوحنیفہ کے خوشہ چیں تھے مگر وہ ان کو حرفِ آخر سمھجتے تو ان کی فقہ کے 90٪ مسائل مین الگ فتوی نہ دیتے ،، امام مسلم اپنے شیخ امام بخاری کے جوتے اٹھا کر ساتھ چلتے تھے مگر ان کو حرفِ آخر نہیں سمجھتے تھے اگر ایسا ھوتا تو اپنی صحیح تصنیف نہ فرماتے ،یہی حال دیگر محدثین کا ھے جنہوں نے باقی صحاح مرتب کیں اور امام بخاریؒ سے کئ درجے بہتر اسلوب اور ترتیب سے تصنیف کیں یہ آج کل کے چست مدعی بتا دیں کہ یہ اس دولے پن کی بیماری کی عمر کتنی ھے اور کب سے احترام کے نام پر اختلاف کرنا کفر اور ضلالت قرار پایا ھے ؟ جب سے مستقل مدارس قائم ھوئے ھیں ؟ جب سے ھر اختلاف کو اپنے مکاتب فکر اور مسالک کے خلاف سازش سمجھا جانے لگا ،، ھے ناں
رہ گئے خیر القرونِ قرنی ثم الذین یلونھم ، ثم الذین یلونھم ،، تو یہ خیرالقرون عمل اور درجات کی وجہ سے ھیں علم کی وجہ سے نہیں ،، ورنہ ان کے اسوئے اور علم کی موجودگی کے علی الرغم اماموں کی لائن نہ لگی ھوتی ،، کیا ائمہ اربعہ اپنے علم کی وجہ سے ھی مرجع نہیں بنے ؟ کیا بخاریاں خیرالقرون والوں نے تصنیف فرمائیں ،، کیا یہ سوچ صحابہؓ کا اسوہ تھی ،، خلفاء اربع کی صحاحِ اربعہ کہاں ھیں ؟صحیح ابوبکر الصدیقؓ ، صحیح الفاروقؓ – صحیح ابن عفانؓ – صحیح المرتضیؓ کہاں ھے ؟ اگر صحاح ستہ والوں کا اقدام دین ھے نئ سوچ نہیں تھا ؟ کیا ان کی سوچ اپنے اسلاف سے اختلاف نہیں تھا ؟ آگے چلیئے تراویح ایک امام کے پیچھے ،، پھر تیسرے پہر سے کھینچ کر عشاء کی نماز کے ساتھ جوڑ دینے کی فاروقی سوچ کہیں گستاخی تو نہیں تھی کہ جو کام نبئ کریم ﷺ نے نہ کیا اور ابوبکرؓ الصدیق نے نہ کیا وہ سوچ انہوں نے سوچنے کی جرأت کیونکر کر لی ،،،،،،،،،، استنجے ، غسل ، وضو ،جنابت ،حیض ،نفاس تو نبئ کریم ﷺ کے زمانے سے لوگوں کو درپیش تھے ،، اس زمانے میں بھی انسان ان چیزوں سمیت پیدا ھوتے تھے ،یہ استنجوں والی جگہیں لگے انسان بعد میں پیدا نہیں ھوئے ،، پھر ان باتوں کو سمجھانے کے لئے بعد میں اماموں کی لائن کیوں لگی ؟ بہشتی زیور میں یہ بتانے کی ضرورت کیوں محسوس ھوئی کہ کس کس جنسی عمل سے روزہ ٹوٹ جاتا ھے ؟ یا ںابالغ لڑکی سے تعلق ھو تو لڑکی پر غسل واجب نہیں ؟؟؟؟ ھم سے پہلے جو ھوا وہ علمی جہاد تھا ، وہ سارے امام اور مجتھدین تھے ،، اعلی حضرت تھے ،، بلکہ وہ سارے ھمارے ایمان کا جزو اور دین کے رکن تھے ،،،،،، بس ایک ھم ھی پلید اور دین کے دشمن ھو گئے ؟ کیوں نہ ھم پہلے تین ادوار کو ھی اپنے سلف الصالح سمجھ لیں اور بعد والوں کو اسلاف کے باغی اور گستاخ سمجھ لیں ؟
ھمیں جان بوجھ کر احساسِ کمتری میں مبتلا کیا جاتا ھے ،، اور اس کے لئے باقاعدہ مشنری تیار کیئے جاتے ھیں جن کا کام ھی ھر سوچنے والے کی ٹانگیں کھینچنا اور اس کو بدنام کرنا ھوتا ھے کہ یہ اسلاف کا گستاخ ھے ،، اللہ پاک نے جس زمانے میں جن سے جو کام لینا ھوتا ھے ویسے ھی لوگ پیدا کرتا ھے ،، ھم پر اعتراض خود اللہ کے انتخاب پر اعتراض ھے ،،، عمران خان ، ماجد خان کا احترام کیا جا سکتا ھے ،مگر ان کو کرکٹ کا حرفِ آخر قرار نہیں دیا جا سکتا ،، آج کی کرکٹ میں عمران کو اتار کر اس کا حشر دیکھ لیجئے ،، اگر سائنسی علوم میں بھی احترام کے نام پر تحقیق کو جرم بنا دیا جاتا تو لوگ رائٹ برادرز کے بنائے گئے ھیکل کے ساتھ جھنڈے لٹکا کر دوڑ رھے ھوتے اور سواری گدھوں پہ کرتے ،، جس طرح نئے بچوں کی پیدائش کوئی جرم نہیں ، اسی طرح نئ سوچ اور سوچ کے نئے زاویئے کوئی جرم نہیں ، ھر آنے والا ایک زیرو میٹر ذھن لے کر آتا ھے جس کے جینز میں باپ کی بیماریاں ھی نہیں علم کی فائل بھی کہیں محفوظ ھوتی ھے ،، اس کی ابتدا وھاں سے ھوتی ھے جہاں اس کے باپ کے علم کی انتہا ھوئی تھی ،، کل کے ایف اے پاس بابے آج گریڈ تھری کے بچے کو ٹیویشن نہیں پڑھا سکتے ،، اسلاف نے اپنے حصے کا پرچہ دے دیا ھے ،،،ھمیں ھمارا پرچہ حل کر لینے دیجئے ،،