شئوون الاجتماعیہ کے ماھرین کہتے ھیں کہ اگر عزیز و اقارب یا دوستوں کے ساتھ تعلقات میں خرابی پیدا ھو رھی ھو تو ، بجائے اس کے کہ تعلقات کو حتمی طور پر ختم کر کے ھی دم لیا جائے ، جسے ھمارے یہاں مرنا جینا ختم کرنا کہتے ھیں ،، بہترین طریقہ یہ ھے کہ آپ خود سے ایک مصنوعی فاصلہ تخلیق کر لیں ، اور بغیر ناراضی کے دوری اختیار کر لیں ،، خوشی غمی میں شرکت کر لیں ، کوئی سامنے آجائے تو سلام کلام بھی کر لیں ، اس سے زیادہ قرب اور گرم جوشی سے پرھیز کریں ،، اس کو early death effect کہتے ھیں ،کیونکہ جو بندہ مر جاتا ھے اس سے فوری طور پر گلے شکوے ختم ھو جاتے ھیں اور اس کے گناہ ھلکے اور عیب کم نظر آنا شروع ھو جاتے ھیں ،،دیوار کے گرنے سے پہلے خود چھلانگ لگا دینے سے کم چوٹ لگتی ھے بنسبت دیوار کے ساتھ گرنے کے،، یہی طریقہ میاں بیوی کے درمیان بھی مناسب ھے ،اگر بات بگڑتی نظر آئے تو علاج کے طور پہ دوری اختیار کی جا سکتی ھے ،، بیوی کو راضی خوشی والدین کے گھر بھیجا جا سکتا ھے تا کہ اپنے بیڈ اسپیس کی گنجائش دیکھ لے اور طلاق کے بعد والدین اور بھائیوں کے یہاں بھابھیوں کے شب و روز کا جائزہ لے لے کہ کہ بطور آیا کتنے بچے سنبھال سکتی ھے اور بطور ھاؤس میڈ کتنا کام کر سکتی ھے ،، جتنا کام وہ اپنے گھر میں کرتی تھی اور گھر کی ملکہ کہلاتی تھی ، اس سے دگنا کام کر کے روٹی کھائے گی اور وِہلی مسٹنڈی کہلائے گی ، بوجھ گنی جائے گی اور بھتیجے بھتیجیوں کی ھر بری عادت اس سے منسوب کی جائے گی کہ پھوپھو سے سیکھا ھے ، ،، ابھی وہ پرانی دنیا کی سوچیں سوچتی ھے جب وہ شادی سے پہلے والدین کے یہاں شہزادی بن کر رھتی تھی ،، یہ بالکل اسی طرح ھے جیسے پکے ویزے سے پہلے دبئ کا وزٹ نکلوایا جاتا ھے کہ بندہ ذرا ماحول دیکھ کر او کے کر دے تو پکا ویزہ نکلوایا جائے ،، پھر ھر وقت کی دستیابی ایک الگ مرض ھے ،، جس میں انسان کی ویلیو کم ھو جاتی ھے ،، Too Availability کا علاج یہی ھے کہ مصنوعی قحط پیدا کیا جائے تا کہ پیار اور محبت کا ریٹ بڑھے اور دستیابی کی نعمت کی قدر ھو ،،
؎ کَیسر سستا ھے کشمیرے پُچھو مُل لاھوروں !
پستہ تے بادام محمد سستے ملن پشاوروں !
میاں محمد صاحب فرماتے ھیں کہ جو چیز جس علاقے میں پیدا ھوتی ھے وھاں سستی ھوتی ھے ، اس کی قدر اگر معلوم کرنی ھے تو ان علاقوں میں جا کر پوچھو جہاں وہ دستیاب نہیں ھے ،،، بیوی کی قدر ان سے پوچھو جن کی بیوی نہیں ھے ،، وہ جب کسی جوڑے کو پاس سے گزرتے دیکھتے ھیں تو جو ھُوک ان کے اندر سے اٹھتی ھے اور جس حسد و رشک کی نظروں سے وہ اس جوڑے کو دیکھتے ھیں ،، وھی ان کا گھر تباہ کرنے کے لئے کافی ھے،، ان کے نزدیک وہ شخص دنیا کا خوش قسمت ترین شخص ھوتا ھے ،،
میری طرح جو بندہ بسیار نویس ھوتا ھے اس کی تحریریں اپنی قدر کھو دیتی ھیں اسی لئے احباب کی طرف سے میری تحریروں میں بدستور دلچسپی میرے لئے تعجب کا باعث ھے ،، یہ خلافِ معمول بات ھے ،جسے تحریر سے زیادہ صاحبِ تحریر سے آپ کے تعلق کا شاخسانہ قرار دیا جا سکتا ھے ،،