صلاۃ التراویح اصل میں قیام اللیل یا تہجد کی ھی نماز ھے جس کو رمضان میں عوام الناس کی سہولت کے لئے عشاء کے ساتھ لا کر جوڑ دیا گیا ھے تا کہ اس بابرکت مہینے میں زیادہ سے زیادہ لوگ اس عبادت کا فائدہ اٹھا لیں ، پھر قران کا دورہ اس میں رکھ کر اسے مزید سہ آتشہ بنا دیا گیا ،، اگر اسے آخر رات میں رکھا جاتا جیسا کہ نبئ کریم ﷺ نے تین دن آخری پہر اس طرح پڑھی تھی کہ صحابہ کو سحری فوت ھونے کا خدشہ لاحق ھو گیا تھا ، تو شاید 10 فیصد لوگ ھی اس کا فائدہ اٹھا سکتے ،،، اس سے یہ بھی معلوم ھوا کہ سونا تہجد کی شرط نہیں ھے ، عشاء کے بعد ایکسٹرا نوافل تہجد ھی کہلاتے ھیں ،، اس لئے کہ لیل اندھیرا ھوتے ھی شروع ھو جاتی ھے ،و من الیل فتہجد بہ نافلۃً لک ،، اور ثمہ اتموا الصیام الی الیل ،، اس کی دلیلِ قاطع ھے ،،،،،،،، نفلی عبادت میں تعداد کی کوئی خاص اھمیت نہیں جو جتنی پڑھ سکتا ھے پڑھ لے ،، نبئ کریم ﷺ آٹھ رکعت میں ساری رات گزار دیتے تھے ،، تقریباً 6 پارے پڑھتے تھے ،، لوگوں کو 8 کی تعداد یاد ھے ، اس پر لگنے والا وقت یاد نہیں ،، 20 والوں نے اس وقت کو پورا کرنے کی سعی فرمائی ھے ،، جتنا بھی Recover ھو گیا فبہا ،،،،، اگر کوئی یہ 20 پڑھ کر صبح وقت میسر ھونے پر مزید نوافل بھی پڑھ لے تو کوئی ممانعت نہیں ،،،،، جتنا گُڑ ڈالو کے اتنا میٹھا ھو گا ، اور جتنے زیادہ مولویوں سے پوچھو گے ،اتنا زیادہ کنفیوز ھو گے ،،