جس بات کے خدشے سے اللہ کے رسول ﷺ نے چوتھے دن کی تراویح نہیں پڑھائی تھی کہ ” مجھے خدشہ تھا کہ تمہارے ذوق و شوق کو دیکھ کر اللہ اسے فرض ھی نہ کر دے اور پھر تم اسے ادا کرنے سے عاجز آ جاؤ ”
حضور ﷺ کی اپنی امت سے محبت کا اظہار تھا کہ مستقبل کے مسلمانوں کے ایمان کی کمزوری کو مد نظر رکھ کر یہ سہولت فراھم کر دی اور اللہ پاک کی بھی مہربانی کہ اس نے نبی ﷺ کے قول کی لاج رکھ لی اور تراویح فرض نہیں کی ،،،،،،،،،،،،،،
مگر ھم نے عملاً وھی کام کر دکھایا جس سے اللہ اور رسول ﷺ نے امت کو بچا لیا تھا ، اگر یہی کرنا تھا تو حضور ﷺ باقی دن بھی پڑھا لیتے تو کم ازکم کوئی تعداد تو یاد رکھ لیتا – اب لوگ تراویح کو فرض ھی کی طرح کا مستقبل عمل سمجھتے ھیں اور کسی کے تراویح کے ناغے کو اس قدر نفرت سے دیکھتے ھیں کہ اتنی نفرت سے پورا سال فرض نماز نہ پڑھنے والے کو بھی نہیں دیکھتے ،، بلکہ اگر کم تراویح پڑھ کر نکل رھا ھو تو پیچھے سے طنزیہ آواز دے کر کہتے ھیں کہ ” چلے ویسو یا چھوڑ آواں نے ؟ ” بھائی اس کی طبیعت خراب ھو سکتی ھے ، وہ تھکا ھوا ھو سکتا ھے ، اس کو پیشاب کی حاجت ھو سکتی ھے ،اسے گھر کوئی ضروری کام یاد آ سکتا ھے کہ بجلی کے پینل کا ڈھکن کھلا چھوڑ آیا ھوں کہیں بچہ ھاتھ نہ مار دے وغیرہ وغیرہ ،،، بلکہ لوگ تو یہ فتوی بھی دینا شروع ھو گئے ھیں کہ جو تراویح نہیں پڑھتا اس کا روزہ نہیں ، بلکہ ھمارے گاؤں کے ایک صاحب تراویح تو مِس نہیں کرتے تھے مگر روزہ ایک بھی نہیں رکھتے تھے ،، نفلی نماز محبت کی نماز ھوتی ھے جبر کی نماز فرض ھے کہ جو بھی کیفیت ھو پڑھنی ضرور ھے ،، نفل کی نماز محبت کے ساتھ پڑھنی چاھئے جہاں اور جب دلچسپی ختم ھو جائے اللہ کے ساتھ میٹنگ ڈس مس ،،، اسکول کے بچوں کی نفسیات ھوتی ھے کہ اگر ایک بچہ کھڑکی سے بستہ پھینک کر نکل رھا ھو تو باقی شور مچا دیتے ھیں کہ ،ماشٹر جی نس گیا نیں ” یعنی تم پتر لگتے ھو کہ میں 20 پڑھ کر جنت جاؤں اور تم 8 کے بعد بستہ باھر پھینک کر چلے جاؤ ،،،،،،، مقتدی امام پر دباؤ ڈالتے ھیں کہ پہلی 8 رکعتوں میں ” ذرا منڈ ” کے رکھنا ،، یہ لوگ جلدی بھاگ جاتے ھیں ،، یہ نہیں سوچتے کہ ان کو تو اتنا ٹائم ھی کھڑا رھنا ھو گا ،،،،،،،، جب نماز سزا بن جائے تو پھر نماز کاھے کی ھے ؟ جو نماز محبت کی بجائے دل میں کدورت ،مجبوری ،ناگواری کے احساسات کو اجاگر کرے وہ اللہ سے دور کرتی ھے قریب نہیں کرتی ،،، جتنی بھی پڑھنی ھے ذوق اور شوق سے پڑھو ،