امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

 
عن أبي سعيد الخدري قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : من رأى منكم منكرا فليغيره بيده ، فإن لم يستطع فبلسانه ، فإن لم يستطع فبقلبه ، وذلك أضعف الإيمان . رواه مسلم .
ابی سعید خدریؓ فرماتے ھیں کہ میں نے نبئ کریم ﷺ کو فرماتے سنا ھے کہ تم میں سے جو کوئی کسی منکر کو دیکھے تو ( اپنے دائرہ اختیار میں ) اسے طاقت سے روکے ، اگر وہ بات اس کے دائرہ اختیار سے باھر ھے تو قول کے ذریعے اس سے روکے ،، اگر قول سے روکنا اس کے لئے ممکن نہیں ھے تو پھر اس برائی کو دل سے ضرور بُرا جانے کیونکہ یہ ایمان کا سب سے آخری درجہ ھے ،، گویا برائی کو برائی نہ سمجھنا یہ ثابت کرتا ھے کہ اس دل سے ایمان رخصت ھو چکا ھے ،، دوسری حدیث مین فرمایا کہ اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر ایمان باقی نہیں ھے ،، تیسری حدیث مین فرمایا کہ بہت سارے لوگ برائی کو برا سمجھنے کی وجہ سے نجات پا جائیں گے ،،،

ایک صاحب دوسرے کو فرما رھے تھے کہ وہ شخص ھلاک ھو گیا جس نے بھلائی کی تقلین نہ کی اور برائی سے نہ روکا ،جس پر عبداللہ ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ” وہ شخص بھی ھلاک ھو گیا کہ جس کے دل نے منکر کو منکر اور معروف کو معروف جاننے سے انکار کر دیا – آپ کے فرمان کا مطلب یہ تھا کہ پہلے دو مراحل یعنی ھاتھ سے روکنے اور زبان سے روکنے کے ساتھ تو استطاعت کی شرط ھے جب کہ دل سے برا جاننا وہ فرض ھے جو کسی صورت ساقط نہیں ھوتا ،،،،،
دل سے برا جاننے کو معمولی مت سمجھئے اصل میں یہ وہ بیج ھے جس مین سے ایمان کا وہ تناور درخت اگتا ھے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جس کے پھل ھیں ،،
بہت ساری برائیوں سے معاشرے کا ڈر انسان کو روک لیتا ھے کہ لوگ مجھے برا سمجھیں گے ،، کیونکہ انسان کو اپنے امیج اور دوسروں کی نظر میں اپنے وقار کا بڑا خیال ھوتا ھے ، وہ حتی الامکان کوشش کرتا ھے کہ اسے نقصان نہ پہنچنے دے ،، چنانچہ معاشرتی قدریں انسان کو بہت ساری برائیوں سے روک لیتی ھیں ،، کچھ سے خدا کا ڈر روکتا ھے اور کچھ سے قانون کا ڈر ،،،
قبیح العادات و خبیث الحرکات لوگوں کو اگر یہ خدشہ ھو کہ ان کی برائی معاشرے کے سامنے کھُل جائے گی اور رسوائی کا سامان ھو گی تو وہ ایسی حرکات سے مجرد رسوائی کے ڈر سے رک جاتے ھیں ،بے شک قانون کا ڈر اسے لاحق نہ ھو ،، ھر بندہ سقراط و بقراط بن کر دوسروں کو تلقین کرتا پھرتا ھے ، غزالی و حسن بصری بن کر جنت کے راستے دکھاتا پھرتا ھے ، اور اپنے نفرت انگیز چہرے کو اس نقاب سے ڈھک لیتا ھے ،جب اسے خدشہ ھو کہ اس کا یہ مصنوعی تقدس کا لبادہ اتر جائے گا تو وہ خفیہ برائی سے بھی باز آ جاتا ھے ،، لوگوں کو معلوم ھونا ضروری ھے کہ یہ جو ٹوپی سر پہ رکھے مسجد دوڑا رھتا ھے اس کا گھر والوں کے ساتھ معاملہ کیا ھے ،یہ جو لوگوں کو بتاتا ھے کہ اللہ کے احکامات اور نبی ﷺ کے طریقے ھمارے اندر کیسے آ جائین ؟ یہ خود کن طریقوں پہ عمل کرتا ھے ،، یہ جو جرگوں میں بیٹھ کر لوگوں کی بہو بیٹیوں کے فیصلے کرتا ھے خود اپنے گھر میں کس قسم کا عفریت واقع ھوا ھے ،،،
برائ کو برا نہ سمجھنا نہی عن النکر سے روک دیتا ھے ،، اور نہی عن المنکر سے رک جانے والا جلد یا بدیر خود اس برائی میں مبتلا ھو جاتا ھے ،اللہ پاک نے بنی اسرائیل کے بارے میں یہی فرمایا ھے کہ ان کے علماء برائی سے روکتے نہیں تھے نتیجے میں خود بھی وھی کرنے لگ گئے ،، ” کانوا لا یتناھون عن المنکرِ ” فعلوہ ” ان کی اس بری پالسی نے انہیں اللہ کی نظروں میں مغضوب علیہھم بنا دیا اور وہ دائمی عذاب میں مبتلا رھیں گے ،،