مولانا محمد نجیب قاسمی
لغوی معنی: میراث کی جمع مواریث آتی ہے، جس کے معنی ”ترکہ“ ہیں، یعنی وہ مال وجائیداد جو میت چھوڑ کر مرے۔ علم میراث کو علم فرائض بھی کہا جاتا ہے، فرائض فریضہ کی جمع ہے، جو فرض سے لیا گیا ہے، جس کے معنی”متعین“ کے ہیں۔ کیوں کہ وارثوں کے حصے شریعت اسلامیہ کی جانب سے متعین ہیں ،اس لیے اس علم کو علم فرائض بھی کہتے ہیں۔
اصطلاحی معنی:اس علم کے ذریعہ یہ جانا جاتا ہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کا وارث کون بنے گا اور کون نہیں؟ نیز وارثین کو کتنا کتنا حصہ ملے گا؟
قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر میراث کے احکام بیان کیے گئے ہیں، لیکن تین آیات (سورہٴ النساء 11، 12 و176) میں اختصار کے ساتھ بیشتر احکام جمع کردیے گئے ہیں۔ میراث کے مسائل میں فقہاء وعلماء کا اختلاف بہت کم ہے۔
علم میراث کی اہمیت
دین اسلام میں اس علم کی بہت زیادہ اہمیت ہے، چناں چہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس علم کو پڑھنے پڑھانے کی متعدد مرتبہ ترغیب دی ہے۔
٭…نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: علم فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاوٴ، کیوں کہ یہ نصف علم ہے، اس کے مسائل لوگ جلدی بھول جاتے ہیں، یہ پہلا علم ہے جو میری امت سے اٹھالیا جائے گا۔ (ابن ماجہ- باب الحث علی تعلیم الفرائض ،2719)
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے علم فرائض کو نصف علم قرار دیاہے۔ اس کی مختلف توجیہات ذکر کی گئی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کی دو حالتیں ہوتی ہیں : ایک زندگی کی حالت اور دوسری مرنے کی حالت۔ علم میراث میں زیادہ تر مسائل موت کی حالت کے متعلق ہوتے ہیں، جب کہ دیگر علوم میں زندگی کے مسائل سے بحث ہوتی ہے ، لہٰذا اس معنی کو سامنے رکھ کر علم میراث نصف علم ہوا۔
٭…نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے بھی ایک دن دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ علم اٹھالیا جائے گا اور فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ میراث کے معاملہ میں دو شخص اختلاف کریں گے تو کوئی شخص ان کے درمیان فیصلہ کرنے والا نہیں ملے گا۔ (ترمذی، مسند احمد)
٭…حضرت عمر فاروق نے فرمایا: میراث کے مسائل کو سیکھا کرو، کیوں کہ یہ تمہارے دین کا ایک حصہ ہے۔ (الدارمی 2851)
٭…حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا: جو شخص قرآن کریم کو سیکھے اس کو چاہیے کہ وہ علم میراث کو بھی سیکھے۔ (رواہ البیہقی فی ”الکبری“ 209/6، والحاکم فی ”المستدرک“ 8072، والطبرانی فی ”الکبیر8656، والدارمی فی ”سننہ“ 2914)
علم میراث کے تین اہم اجزا ہیں
مورِث:وہ میت جس کا ساز وسامان وجائیداد دوسروں کی طرف منتقل ہورہی ہے۔
وَارِثْ: وہ شخص جس کی طرف میت کا ساز وسامان وجائیداد منتقل ہورہی ہے۔ وارث کی جمع ورثاء آتی ہے۔
مَوْرُوْث : ترکہ، یعنی وہ جائیداد یاساز وسامان جو مرنے والا چھوڑ کر مرا ہے۔
میت کے سازوسامان اور جائیداد میں چار حقوق ہیں:
1.. میت کے مال وجائیداد میں سے سب سے پہلے اس کے کفن ودفن کا انتظام کیا جائے۔
2.. دوسرے نمبر پر جو قرض میت کے اوپر ہے اس کو ادا کیا جائے۔
٭…اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہمیت کی وجہ سے قرآن کریم میں وصیت کو قرض پر مقدم کیا ہے، لیکن باجماع امت حکم کے اعتبار سے قرض وصیت پر مقدم ہے۔ یعنی اگر میت کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے وہ ادا کیا جائے گا۔ پھر وصیت پوری کی جائے گی اور اس کے بعد میراث تقسیم ہوگی۔
3.. تیسرا حق یہ ہے کہ ایک تہائی حصہ تک اس کی جائز وصیتوں کو نافذ کیا جائے۔
شریعت اسلامیہ میں وصیت کا قانون بنایا گیا، تاکہ قانون ِ میراث کی رو سے جن عزیزوں کو میراث میں حصہ نہیں پہنچ رہا ہے اور وہ مدد کے مستحق ہیں، مثلاً کوئی یتیم پوتا یا پوتی موجود ہے یا کسی بیٹے کی بیوہ مصیبت زدہ ہے یا کوئی بھائی یا بہن یا کوئی دوسرا عزیز سہارے کا محتاج ہے تو وصیت کے ذریعہ اس شخص کی مدد کی جائے۔ وصیت کرنا اور نہ کرنا دونوں اگرچہ جائز ہیں، لیکن بعض اوقات میں وصیت کرنا افضل وبہتر ہے۔ وارثوں کے لیے ایک تہائی جائیداد میں وصیت کا نافذ کرنا واجب ہے، یعنی اگر کسی شخص کے کفن ودفن کے اخراجات اور قرض کی ادائیگی کے بعد 9 لاکھ روپے کی جائیداد بچتی ہے تو 3لاکھ تک وصیت نافذ کرنا وارثین کے لیے ضروری ہے۔ ایک تہائی سے زیادہ وصیت نافذ کرنے اور نہ کرنے میں وارثین کو اختیار ہے۔
نوٹ…کسی وارث یا تمام وارثین کو محروم کرنے کے لیے اگر کوئی شخص وصیت کرے تو یہ گناہ کبیرہ ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے وارث کو میراث سے محروم کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کو محروم رکھے گا (کچھ عرصہ کے لیے)۔ (ابن ماجہ-باب الحیف فی الوصیہ)
4.. چوتھا حق یہ ہے کہ باقی سازوسامان اور جائیداد کو شریعت کے مطابق وارثین میں تقسیم کردیا جائے۔
﴿نَصِیْباً مَّفْرُوْضاً﴾ (النساء 7)﴿ فَرِیْضَةً مِنَ اللّٰہِ﴾ (النساء 11) ﴿وَصِیَّةً مِّنَ اللّٰہِ﴾ (النساء 12)﴿ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ﴾(النساء 13) سے معلوم ہوا کہ قرآن وسنت میں ذکر کیے گئے حصوں کے اعتبار سے وارثین کو میراث تقسیم کرنا واجب ہے۔
ورثاء کی تین قسمیں
1.. صاحب الفرض: وہ ورثاء جو شرعی اعتبار سے ایسا معین حصہ حاصل کرتے ہیں جس میں کوئی کمی یا بیشی نہیں ہوسکتی ہے۔ایسے معین حصے جو قرآن کریم میں ذکر کیے گئے ہیں وہ چھ ہیں:1/8 ( آٹھواں)2/3 ( دو تہائی)1/3( ایک تہائی)1/6 ( چھٹا)1/2( آدھا)1/4 (چوتھائی)۔
قرآن وسنت میں جن حضرات کے حصے متعین کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: بیٹی (بیٹی کی عدم موجودگی میں پوتی)، ماں وباپ (ماں باپ کی عدم موجودگی میں دادا ودادی)، شوہر ،بیوی،بھائی وبہن۔
2.. عصبہ: وہ ورثاء جو میراث میں غیر معین حصے کے حق داربنتے ہیں، یعنی اصحاب الفروض کے حصوں کی ادائیگی کے بعد باقی ساری جائیداد کے مالک بن جاتے ہیں، مثلاً بیٹا۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قرآن وسنت میں جن ورثاء کے حصے متعین کیے گئے ہیں ان کو دینے کے بعد جو بچے گا وہ قریب ترین رشتہ دار کو دیا جائے گا۔ (بخاری ومسلم)
3.. ذوی الارحام: وہ رشتے دار جو نمبر ۱ (صاحب الفرض) اور نمبر2 (عصبہ) میں سے کوئی وارث نہ ہونے پر میراث میں شریک ہوتے ہیں۔
میراث کس کو ملے گی؟
تین وجہوں میں سے کوئی ایک وجہ پائے جانے پر ہی وراثت مل سکتی ہے۔
1.. خونی رشتے داری : یہ دو انسانوں کے درمیان ولادت کا رشتہ ہے، البتہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کے رشتہ داروں کو میراث نہیں ملے گی، مثلاً میت کے بھائی وبہن اسی صورت میں میراث میں شریک ہوسکتے ہیں جب کہ میت کی اولاد یا والدین میں سے کوئی ایک بھی حیات نہ ہو۔یہ خونی رشتے اصول وفروع وحواشی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اصول (جیسے والدین ،دادا ، دادی وغیرہ)
وفروع (جیسے اولاد ، پوتے،پوتی وغیرہ) وحواشی (جیسے بھائی، بہن، بھتیجے وبھانجے، چچا اور چچازاد بھائی وغیرہ)۔
وضاحت…سورہٴ النساء آیت نمبر 7 ﴿مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَان وَالاقْرَبُون﴾سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ میراث کی تقسیم ضرورت کے معیار سے نہیں، بلکہ قرابت کے معیار سے ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری نہیں کہ رشتے داروں میں جو زیادہ حاجت مند ہو اس کو میراث کا زیادہ مستحق سمجھا جائے، بلکہ جو میت کے ساتھ رشتے میں قریب تر ہوگا وہ بہ نسبت بعید کے زیادہ مستحق ہوگا۔ غرضیکہ میراث کی تقسیم الاقرب فالاقرب کے اصول پر ہوتی ہے، خواہ مرد ہوں یا عورت، بالغ ہوں یا نابالغ۔
2.. نکاح (میاں بیوی ایک دوسرے کی میراث میں شریک ہوتے ہیں)۔
3.. غلامیت سے چھٹکارا (اس کا وجود اب دنیا میں نہیں رہا، اس لیے مضمون میں اس سے متعلق کوئی بحث نہیں کی گئی ہے)۔
شریعت ِ اسلامیہ نے صنف نازک (عورتوں) اور صنف ضعیف (بچوں)کے حقوق کی مکمل حفاظت کی ہے اور زمانہٴ جاہلیت کی رسم ورواج کے برخلاف انہیں بھی میراث میں شامل کیا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم (سورہٴ النساء آیت :7) میں ذکر فرمایا ہے۔
مردوں میں سے یہ رشتے دار بیٹا، پوتا، باپ، دادا،بھائی، بھتیجا، چچا، چچازاد بھائی، شوہر وارث بن سکتے ہیں۔
عورتوں میں سے یہ رشتے دار بیٹی، پوتی، ماں، دادی، بہن، بیوی وارث بن سکتے ہیں۔
نوٹ…اصول وفروع میں تیسری پشت (مثلاً پڑدادایا پڑپوتے) یا جن رشتے داروں تک عموماً وراثت کی تقسیم کی نوبت نہیں آتی ہے، ان کے احکام یہاں بیان نہیں کیے گئے ہیں۔ تفصیلات کے لیے علماء سے رجوع فرمائیں۔
شوہر اور بیوی کی حصے: شوہر اور بیوی کی وراثت میں چار شکلیں بنتی ہیں۔ (سورہٴ النساء 12)
٭…بیوی کے انتقال پر اولاد موجود نہ ہونے کی صورت میں شوہر کو 1/2(آدھا)ملے گا۔
٭… بیوی کے انتقال پر اولاد موجود ہونے کی صورت میں شوہر کو 1/4(چوتھائی)ملے گا۔
٭…شوہر کے انتقال پر اولاد موجود نہ ہونے کی صورت میں بیوی کو 1/4(چوتھائی)ملے گا۔
٭…شوہر کے انتقال پر اولاد موجود ہونے کی صورت میں بیوی کو 1/8(آٹھواں)ملے گا۔
وضاحت…اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہیں تو یہی متعین حصہ (1/4 یا 1/8)(آٹھواں) باجماع امت ان کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔
باپ کا حصہ
٭…اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے والد حیات ہیں اور میت کا بیٹا یا پوتا بھی موجود ہے تو میت کے والد کو 1/6(چھٹا)ملے گا۔
٭…اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے والد حیات ہیں، البتہ میت کی کوئی بھی اولاد یا اولاد کی اولاد حیات نہیں ہے تو میت کے والد عصبہ میں شمار ہوں گے، یعنی معین حصوں کی ادائیگی کے بعد باقی ساری جائیداد میت کے والد کی ہوجائے گی۔
٭… اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے والد حیات ہیں اور میت کی ایک یا زیادہ بیٹی یا پوتی حیات ہے، البتہ میت کا کوئی ایک بیٹا یا پوتاحیات نہیں ہے تو میت کے والد کو 1/6(چھٹا)ملے گا۔ نیز میت کے والد عصبہ میں بھی ہوں گے، یعنی معین حصوں کی ادائیگی کے بعد باقی سب میت کے والد کا ہوگا۔
ماں کا حصہ
٭…اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کی ماں حیات ہیں البتہ میت کی کوئی اولاد نیز میت کا کوئی بھائی بہن حیات نہیں ہے تو میت کی ماں کو 1/3(ایک تہائی)ملے گا۔
٭…اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کی ماں حیات ہیں، اور میت کی اولاد، میں سے کوئی ایک یا میت کے دو یا دو سے زیادہ بھائی موجود ہیں تو میت کی ماں کو 1/6(چھٹا)ملے گا۔
٭…اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کی ماں حیات ہیں، البتہ میت کی کوئی اولاد نیز میت کا کوئی بھائی بہن حیات نہیں ہے، لیکن میت کی بیوی حیات ہے تو سب سے پہلے بیوی کو 1/4(چوتھائی)ملے گا، باقی میں سے میت کی ماں کو 1/3(ایک تہائی)ملے گا۔ حضرت عمر فاروق نے اسی طرح فیصلہ فرمایا تھا۔
اولاد کے حصے
٭…اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے ایک یا زیادہ بیٹے حیات ہیں، لیکن کوئی بیٹی حیات نہیں ہے تو ذوی الفروض میں سے جو شخص (مثلاً میت کے والد یا والدہ یا شوہریابیوی) حیات ہیں، ان کے حصے ادا کرنے کے بعد باقی ساری جائیداد بیٹوں میں برابر برابر تقسیم کی جائے گی۔
٭…اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے بیٹے اور بیٹیاں حیات ہیں تو ذوی الفروض میں سے جو شخص (مثلاً میت کے والد یا والدہ یا شوہر،یابیوی) حیات ہیں، ان کے حصے ادا کرنے کے بعد باقی ساری جائیداد بیٹوں اور بیٹیوں میں قرآن کریم کے اصول (لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر) کی بنیاد پر تقسیم کی جائے گی۔
٭…اگر کسی شخص کی موت کے وقت صرف اس کی بیٹیاں حیات ہیں، بیٹے حیات نہیں تو ایک بیٹی کی صورت میں اسے 1/2(آدھا)ملے گا اور دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں ہونے کی صورت میں انہیں 2/3(دوتہائی)ملے گا۔
وضاحت : اللہ تعالیٰ نے (سورہٴ النساء ۱۱) میں میراث کا ایک اہم اصول بیان کیا ہے:﴿ یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثیین ﴾ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق حکم کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔
شریعت اسلامیہ نے مرد پر ساری معاشی ذمہ داریاں عائد کی ہیں چناں چہ بیوی اور بچوں کے مکمل اخراجات عورت کے بجائے مرد کے ذمہ رکھے ہیں، حتی کہ عورت کے ذمہ خود اس کا خرچہ بھی نہیں رکھا، شادی سے قبل والد اور شادی کے بعد شوہر کے ذمہ عورت کا خرچہ رکھا گیا۔ اس لیے مرد کا حصہ عورت سے دو گنا رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کو میراث دلانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصہ کو اصل قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتایاکہ لڑکوں کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔
بھائی و بہن کے حصے
٭…میت کے بہن بھائی کو اسی صورت میں میراث ملتی ہے جب کہ میت کے والدین اور اولاد میں سے کوئی بھی حیات نہ ہو۔ عموماً ایساکم ہوتا ہے، اس لیے بھائی بہن کے حصے کا تذکرہ یہاں نہیں کیا ہے۔ تفصیلات کے لیے علماء سے رجوع فرمائیں۔
خصوصی ہدایت: میراث کی تقسیم کے وقت تمام رشتے داروں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اگر میت کا کوئی رشتہ دار تنگ دست ہے اور ضابطہٴ شرعی سے میراث میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے، پھر بھی اس کو کچھ نہ کچھ دے دیں، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے (سورہٴ النساء 8 و 9) میں اس کی ترغیب دی ہے۔ 10ویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔
تنبیہ: میراث وہ مال ہے جو انسان مرتے وقت چھوڑکر جاتا ہے اور اس میں سارے ورثاء اپنے اپنے حصے کے مطابق حق دار ہوتے ہیں۔ انتقال کے فوراً بعد مرنے والے کی ساری جائیداد ورثاء میں منتقل ہوجاتی ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخص نے میراث قرآن وسنت کے مطابق تقسیم نہیں کی تو وہ ظلم کرنے والا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تقسیم میراث کی کوتاہیوں سے بچنے والا بنائے اور تمام وارثوں کو قرآن وسنت کے مطابق میراث تقسیم کرنے والا بنائے۔
نوٹ… انسان اپنی زندگی میں اپنے مال وسامان وجائیداد کا خود مالک ہے۔اپنی عام صحت کی زندگی میں اپنی اولاد میں حتی الامکان برابری کرتے ہوئے، جس طرح چاہے اپنی جائیداد تقسیم کرسکتا ہے، البتہ موت کے بعد صرف اور صرف قرآن وسنت میں مذکورہ میراث کے طریقہ سے ہی ترکہ تقسیم کیا جائے گا، کیوں کہ مرتے ہی ترکہ کے مالک شریعت اسلامیہ کے حصوں کے مطابق بدل جاتے ہیں۔
————————————————————————
#اسلام #قرآن #علم #المیراث
#ISLAM #QURAN #QARIHANIFDAR #REALISLAM #EDUCATION