ھمارا اصل المیہ یہ ھے کہ ھمیں اسلام ایک ریاست اور نظام کی بجائے ،سپیئر پارٹس کی شکل میں ملا ھے ! جسے ھر مکتبہ فکر اپنی ھر مسجد میں اپنی اپنی مرضی سے جوڑ رھا ھے ، یہ الگ بات ھے کہ ایک مسجد کا اسلام دوسری مسجد کے اسلام سے نہیں ملتا ! قرآن کی ھر آیت اور ھر حدیث کو اس کی پراپر جگہ سے نکال دیا گیا ھے یا ھمیں نکلی ھوئی ملی ھے ،،اور ایک پزل یا Jigsaw ھے کہ ھم اسے جوڑنے بیٹھے ھیں ! نتیجہ یہ ھے کہ ھر مسجد کا امام نبی پاک ﷺ کے فیصلوں کو ایک مولوی کے فیصلے سمجھ کر اپنے فیصلوں جیسا بنا بیٹھا ھے ! آپ ﷺ کے فرامین کو ایک مولوی کی تقریر سمجھ بیٹھا ھے، اور نبی ﷺ کے حکم پر کسی کو قتل کر دینے کو جواز بنا کر اپنی تقریر کے رد عمل میں بندے مارے جانے کو درست قرار دے رھا ھے ! اور جیسا کہ میں نے عرض کیا اس کا واحد سبب یہ ھے کہ اسلام ھمیں مسجد میں ھی روتا دھوتا ،منہ بسورتا ،، ملا ھے ،مسجد میں ھی ھم نے اسے جوان ھوتے دیکھا ھے اور مسجد میں ھی ھم اسے دفنانے کا ارادہ رکھتے ھیں،، باھر کی دنیا سے اسلام کا تال میل بٹھانا اور لوگوں میں وہ ویژن پیدا کرنا کہ جس میں اسلام کو عالمگیر تناظر میں رکھ کر دیکھا جائے اس کے گلے میں کسی خاص ملک کی ثقافت کی بلی باندھ کر دوسروں کو مجبور کرنا کہ اس ثقافت کی بلی کو اونٹ سے بھی مہنگا خریدے ورنہ اسلام کے بھی قریب نہ آئے ! میں یہ بات متعدد بار لکھ چکا ھوں اور اپنے دروس مین بھی واضح کر چکا ھوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ریاست قائم کر کے اس دنیا سے تشریف لے گئے تھے ،اور ایک ریاست مین جتنے بھی ادارے ھوتے ھیں ، وہ ساری حیثیتیں نبی کریمﷺ کی اکیلی ذات میں مرتکز تھیں ! 1-آپ ﷺ نبی تھے ! 2- آپ ریاست کے سربراہ تھے ! 3- آپ اتنظامی سربراہ تھے ! 4- آپ چیف جسٹس تھے ! 5- آپ چیف آف آرمی اسٹاف تھے ! 6- آپ اس ریاست کے عام شہری اور ایک شوھر، باپ اور پڑوسی تھے ! ان میں سے ھر حیثیت میں آپ کا کیا گیا کام اور دیا گیا حکم اسی حیثیت کی سنت ھے ! ان میں سوائے نبوت کے ھر حیثیت آنے والے خلیفہ کو منتقل ھوئی ھے ! اور وہ سوائے نبی کی حیثیت کے باقی ھر حیثیت میں آزادی کے ساتھ فیصلے کرنے کا مجاز ھے ! اگر وہ دیکھتا ھے کہ ثبوت کی عدم دستایبی کی وجہ سے حضورﷺ نے بطور چیف جسٹس جو فیصلہ دیا ھے،، اسے اس فیصلے کے خلاف ثبوت دستیاب ھو گئے ھیں تو وہ بطور چیف جسٹس اس فیصلے پر نظرثانی کر سکتا ھے ! اس کی اجازت نبی کریمﷺ نے خود اپنی حدیث میں دی ھے کہ ؛ اگر کوئی چاپلوس شخص اپنی چرب زبانی سے مجھے قائل کر کے فیصلہ اپنے حق میں کرا لیتا ھے تو بھی میرے اس کے حق میں فیصلہ کر دینے کے باوجود وہ چیز اس کے لئے آگ کا ٹکڑا ھے ! اسے کھا لے یا چھوڑ دے ! گویا اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کسی فیصلے کے بارے میں یہ آگاھی ھو جاتی ھے کہ نبی پاکﷺ سے لیا گیا فیصلہ غلط ثبوت اور دلائل کی بنیاد پر لیا گیا تھا تو اس فیصلے پر نظر ثانی اور اس آدمی کو اس آگ سے بچانا ان کا فرضِ منصبی تھا ! یہی اصول آپ کی تمام حیثیتوں پر لاگو ھو گا ! اور اس کی بنیاد پر خلفاء راشدین نے فیصلے کیئے ! اور نبی پاک کا یہ فرمانا کہ علیکم بسنتی و سنۃ خلفاء الراشدین المھدیین من بعدی ،، اصلاً نبوت کے علاوہ باقی حیثیتوں میں خلفاء کو فری ھینڈ دینا تھا کہ وہ باقی حیثیتوں میں آزادی کے ساتھ فیصلے لے سکتے ھیں،، اس میں نہ تو وہ نبیﷺ کے فیصلوں کے تابع ھیں اور نہ ان میں نبی پاک ﷺ کے فیصلے کے خلاف ان کا فیصلہ توھین رسالت اور بدعت ھے ! جس طرح پاکستان کا پہلا چیف جسٹس فیصلے لینے میں آزاد تھا ،اس کرسی پر بیٹھنے والا ھر چیف جسٹس ویسی ھی حیثیت کا حامل ھو گا اور ویسے اختیارات استعمال کرے گا ،، وہ اپنی ذات مین الگ ھو گا ،قوم میں الگ ھو گا،،مگر ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے وھی مقام رکھے گا ! سوائے نبی ﷺ کی حیثیت کے باقی حیثیتوں میں خلفاء راشدین نبیﷺ کے تابع نہیں بلکہ حالات اور وقائع ( circumstances & Evidence ) کے تابع ھیں ،انہیں نبی ﷺ کے کسی قول کا پابند کرنا درست نہیں جبکہ وہ قول انتطامی سربراہ کی حیثیت سے دیا گیا ھو ! وہ صرف بحیثیت نبیﷺ حضور کے دیئے گئے حکم کے پابند ھیں ! باقی حیثیتوں میں وہ احوال و دلائل کی بنیاد پر فیصلہ لینے کے لئے ویسا ھی برابر کا اختیار رکھتے ھیں جیسا کہ حضور ﷺ اپنی اس حیثیت میں رکھتے تھے !
عرض ھے کہ نبی کریم ﷺ کو انسانوں نے نہیں چنا تھا بلکہ آپ ﷺ اللہ کا انتخاب تھے ! اور باقی ساری حیثیتیں اسی رسالت کا لازمہ تھیں ،، یعنی ایسا نہیں تھا کہ آپ ﷺ نبی تو اللہ کے منتخب کردہ تھے مگر منتظم اعلی لوگوں کے ووٹوں سے بنے تھے ! مکے میں آپ ﷺ داعی کی شان کے ساتھ تھے ،جیسا کہ تمام نبیوں کا معاملہ تھا ۔ آپ ﷺ کی مکے سے ھجرت کے بعد انجام کار مکے والوں کو ھلاک کر دیا جانا چاھئے تھا ! بالکل ایسا ھی ھونا چاھئے تھا اور ایسا ھی ھوتا اگر آپ ﷺ سابقہ نبیوں کی طرح صرف اپنی قوم الی الامیین رسول ھوتے ! مگر نبیوں کی تاریخ کے برعکس آپ ” فی الامیین ” تو تھے مگر ” الی الامیین ” نہیں تھے بلکہ ” الی کافۃ الناسِ بشیراً و نذیراً ” تمام نوع انسانیت کی طرف بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے تھے ،یوں نبوت کا قومی لوکل phase فیل ھونے کے بعد بین الاقوامی Phase مدینے سے شروع ھوا ،، دینیات کے طالب علم غیر مسلم محققین یہاں آ کر کنفیوز ھو جاتے ھیں کیونکہ آپ ﷺ سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ھے ! وہ کہتے ھیں محمد ﷺ داعی کی حیثیت سے تو ناکام ھو گئے مگر مدبر اور سیاستدان کی حیثیت سے کامیاب رھے کہ آپ نے اپنی نبوت کی ناکامی کو سیاسی تدبیروں سے کامیابی میں تبدیل کر لیا ! دوسری بات جس کی کوئی نظیر ان محققین کو نہیں ملتی وہ عام لوگوں کا نبی کے خلیفہ successor کو چننا ھے ! ھمیشہ نبی سے نبی Takeover کرتا رھا ھے ! اور نبی ھی اقتدار کے لیئے یا بادشاھی کے لئے بندہ وحی کے ذریعے منتخب کرتا رھا ھے ! جبکہ نبی کریم ﷺ بغیر کوئی بندہ منتخب کیئے اس کام کو اللہ کے بندوں کے باھمی مشورے پر چھوڑ کر چلے گئے ،،ظاھر ھے یہ ھی اللہ کی مرضی تھی،کہ انسانوں پر انسانوں کے اقتدار کی بنا خود انسانوں کے مشورے سے کی جائے اور پہلی خلافت ھی اس کی سنت بنے ! بنے یوں انسانوں کے ھاتھوں انسان خلیفہ چننا خلفائے راشدین کی پہلی سنت ھے ! یہ نبی ﷺ کی سنت نہیں ھے ! یہی خلافت ھی ان ساری حیثیتوں کی قائم مقام بنی ھے جو نبوت کے علاوہ نبی ﷺ کو حاصل تھیں ،،یوں انتخاب انسانوں کا تھا ،مگر اختیارات اللہ کے ودیعت کردہ تھے ! اور اللہ کی مرضی اور انسانوں کی مرضی کے مکسچر یا combination کا نام خلافت تھا ! اگر خلافت کے انتخاب کا طریقہ توقیفی ھوتا یعنی نبی سے شروع ھو کر نبی پہ ختم ھو جاتا ،اور اس طریقہ انتخاب میں تبدیلی دین کی خلاف ورزی قرار دی جاتی تو اگلا ھی خلیفہ نئے طریقے سے منتخب نہ ھوتا ،،گویا یہ امر توقیفی یا دین کے طے کردہ اصولوں میں سے نہیں تھا،،جس کو لوگ آج کل ثابت کرنے کی کوشش کر رھے ھیں کہ جو اس طریقے سے آئے گا اسی کا نام خلیفہ ھو گا ، تو یہ ایسا ھی ھے کہ نارمل ڈیلیوری سے پیدا ھونے والا ھی انسان کہلا سکتا ھے، بڑے آپریشن سے پیدا ھونے والے کو انسان نہیں کہا جا سکتا ! جو ووٹ سقیفہ بنو ساعدہ میں ھوا ، اور جس کے بعد مسجد نبوی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کیا گیا وہ وھی طریقہ ھے جو آج کل رائج ھے،، متخب نامزد کرنا ابوبکر صدیقؓ کی سنت ھے ،، اور مختلف لوگوں پر مشتمل پینل نامزد کرنا عمر فاروقؓ کی سنت تھی،، عشرہ مبشرہ کو خلافت کے لئے نامزد کیا گیا تھا ،اب اصولی طور پر یا تو اگلا خلیفہ طریقے میں تبدیلی لاتا جو کہ نہیں لائی گئ اور خلیفہ شہید ھو گئے ! گویا اب عمر فاروقؓ والی بنائی گئ عشرہ مبشرہ کی کمیٹی خلافت کی امیدوار تھی،، چاھے جس طرح بھی یہ سیٹ خالی ھوئی تھی،، اس کا انتخاب کے طریقے سے کوئی تعلق نہیں تھا ،، حضرت علیؓ نے انتہائی دیانتداری کے ساتھ عشرہ مبشرہ میں سے بچنے والےباقی دیگر دو ساتھیوں طلحہؓ اور زبیرؓ کو بیعت کی پیشکش کی ،، اب ان دونوں کے انکار کے بعد سوائے حضرت علیؓ کے اور کوئی امیدوار بچتا ھی نہیں تھا،پھر ان دونوں کو دیانتداری کے ساتھ حضرت علیؓ کی بیعت کر لینی چاھئے تھی،جو کہ ھوا نہیں اور یہ غلطی غزوہ احد کی غلطی سے بڑی غلطی تھی،نتیجہ بھی اس سے زیادہ ھولناک نکلا ! الغرض فرد پر محنت کے نتیجے میں ایک صالح معاشرہ قائم ھوا ،، ان لوگوں نے یعنی افراد نے نبی کو دعوت دے کر بلایا ،، جب نبیﷺ کو اقتدار حاصل ھو گیا ،تو جہاد اور جنگ کے قوانین نازل ھوئے ،،جب ریاست بن گئ تو ریاستی احکامات نازل ھوئے ،، نہ کہ آپ ھاتھ پاؤں کاٹنے اور سنگسار کرنے کے احکامات لے کر گلی گلی پھرتے تھے کہ لوگو ! آؤ میرا ساتھ دو میں نے لوگوں کو سنگسار کرنا اور ان کے ھاتھ کاٹنے ھیں،،جیسا کہ آج کل لوگو اپنا موٹو بنائے پھرتے ھیں، اور جو بستی بھی دس دن کے لئے قبضہ کرتے ھیں،، وھاں ھاتھ کٹے لوگوں کی کھیپ چھوڑ کر پسپا ھو جاتے ھیں،، بجائے لوگوں کو کھانے کو کچھ دینے کی فکر کرنے کے، کھانے کی چوری کرنے والوں کے ھاتھ کاٹ کر آسمان کی طرف منہ کر کے دیکھتے ھیں کہ اب اللہ خوش ھو کر من و سلوی نازل کرے گا ! جبکہ عمر فاروقؓ نے قحط سالی میں ھاتھ کاٹنے کی سزا معطل کر دی تھی کہ لوگ چوری پر مجبور ھو گئے ھیں اور مجبوری میں ان پر کوئی گرفت نہیں،، رفع عن امتی ثلاث،، الخطا والنسیان وما استکرھوا علیہ ! اسی طرح سرحدی علاقوں میں لوگوں کے غیر مسلموں کے ساتھ کثرت سے میل جول رکھنے کی وجہ سے ان میں دینی تعصب کی کمی کی بدولت وھاں حدود کا نفاذ روک دیا گیا،، فوج میں دوران جنگ حدود کا نفاذ روک دیا گیا،،کہ سزا مومن کی بہتری کے لئے ھے اسے کافر بنانے کے لئے نہیں،، سزاؤں سے مطلوب و مقصود مومن کا فائدہ ھے،نقصان نہیں،مومن مطلوب ھے سزائیں مطلوب نہیں ھیں ۔۔لوگ فسق کے ساتھ جی لیں مگر مسلمان رھیں یہ بہتر ھے اس سے کہ اسے سزا دے کر کافر کر دیا جائے ! اور آج یہ دینی تعصب بہت کمزور پڑ گیا ھے،، نیز غیر مسلموں کے ساتھ انٹرایکشن اور لین دین فاروقؓ کے زمانے سے کروڑ گنا زیادہ ھے،مسلمان کمزور تر ھوگئے ھیں غیر مسلموں کی شان بڑھ کر پرکشش ھو گئ ھے ،، اور غیر مسلم دنیا صرف ایک کلک کے فاصلے پر ھے سفر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ھے ،بندہ حرم میں سنت پڑھ کر جماعت کے انتظار میں بیٹھا ھوتا ھے تو اپنا بلیک بیری کھول کر دنیا کے کسی ملک میں بھی جا سکتا اور وھاں کی خبریں پڑھ سکتا ھے ! آج مسلمان جتنا پیار اور محبت کا مستحق ھے اتنا کبھی بھی نہیں تھا ،،، کٹے ھاتھ اور اڑے ھوئے سر دکھا کر مسلمان میں اسلام کی محبت نہیں ڈالی جا سکتی !