ھم صدیوں سے ایسے ایسے تصورات پالےبیٹھے ھیں جنہوں نے آج بھی ھماری سماجی زندگی جہنم بنا رکھی ھے،، جو جتنا دیندار ھے وہ اسی نسبت سے بے سکون ھے، وہ اس بے سکونی کا علاج ٹھیک اسی بیماری سے کرتا ھے جس کی وجہ سے بے سکون ھے،نتیجہ مزید بے سکونی، جسے وہ دوا سمجھ رھا ھے وہ اصل میں داء ھے،،، میں پہلے اس موضوع پر لکھ چکا ھوں -اس کے بارے میں مرد وزن کی کوئی تخصیص نہیں اگرچہ اس سے بربادی زیادہ تر خواتین کی ھوتی ھے،،اس میں پڑھے لکھے یا جاھل ان پڑھ کی بھی کوئی تخصیص نہیں،، میرے پاس اسپیشلسٹ مرد اور لیڈی ڈاکٹرز کے کیسز بھی آتے ھیں اور کثرت سے آتے ھیں،، امیر اور غریب کی تخصیص بھی نہیں، امریکن اور یورپین ممالک سے بھی کثرت سے ایسی مثالیں سامنے آتی ھیں،مثلا صرف پچھلے سال مجھے امریکن ڈاکٹرز جوڑے جس میں میاں بیوی دونوں ھی ڈاکٹرز ھوتے ھیں ان سے واسطہ پڑا،مگر بیماری یہی دیکھی کہ اگر بیوی مذھب کی طرف راغب ھوئی ھے تو گھر گرھستی کو عیب سمجھتی ھے،،شوھر کے حقوق سے لاپرواہ ھو گئ ھے،اپنی ذات کو بھی بھول گئ ھے، نہ میک اپ نہ کپڑوں کا خیال ،نہ ھنسی مذاق ،بس ھر وقت سوچوں میں ڈوبی کہ مرنا ھے، ھائے مرنا ھے،، کدھر جاؤں گی میرا کیا بنے گا؟؟؟،،پورا گھر موت کے سناٹے میں ڈوبا ھے یا وظائف کی سرگوشیاں ھر کمرے میں ایک مصلی بچھا ھے جس پر تسبیح اور اذکار کی کتاب رکھی ھے زیادہ سے زیادہ نوافل،وظائف ،منزلیں پڑھ پڑھ کے اپنی حقیقی منزل کھو بیٹھی ھے، اور پوچھنے پھر یہی آتی ھے کہ اگر کوئی کسر رہ گئ ھے تو وہ قاری حنیف کے وظیفے سے پوری کی جائے،، میرا مشورہ ان کو یہی ھوتا ھے کہ سارے وظیفے اور منزلیں چھوڑو،، صرف نماز اور فرض روزوں کا اھتمام کرو اور اپنے شوھر کے اردگرد رھا کرو یہ مٹی کا مادھو بڑی چیز ھے،تیری جنت اس کی خوشی میں ھے،، نبی کریم ﷺ کا ارشادِ مبارک ھے،جو عورت عصمت کی حفاظت کرتی ھے ،فرائض کا اھتمام کرتی ھے اور اپنے شوھر کو خوش رکھتی ھے، وہ اگر اس حال میں مر جائے کہ اس کا شوھر اس سے خوش ھو تو اسے کہا جائے گا جنت کے جس دروازے سے چاھے جنت میں چلی جائے ! مگر میرا یہ کہنا کوئی خاص فرق اس لئے نہیں ڈالتا کہ اس کا تعلق عمل کے ساتھ ھے اور عمل کا تعلق اس سافٹ وئیر کے ساتھ ھے جو ھمارے دل و دماغ میں انسٹال ھے ! وہ خطرناک سافٹ ویئر نیک بندے یا ولی اللہ کا تصور ھے،، ھم جس مذھب سے بدل کر نئے مذھب میں آئے ھیں، افسوس یہ ھے کہ یہاں بھی ایک مذھبی اور خدا ترس شخص کے بارے میں تصور سو فیصد وھی ھے ،، کسی بھی ڈرامے یا فلم میں آپ دیکھ لیں ھندو سادھو اور ھمارے فلمی ولی اللہ میں ایک منکے کا بھی فرق نہیں ھو گا،، کٹے پھٹے کپڑے،،سر اور داڑھی کے بے ھنگم بڑھے ھوئے بال، ھاتھ مین کشکول ،گلے میں مالاؤں کی لمبی قطار ھاتھ رنگ برنگے پتھروں والی انگوٹھیوں سے مزین ،، الغرض جو ھمارے اجداد نے ھندو ازم میں نیک انسان کا روپ دیکھا تھا وھی اسلام میں بھی تخلیق کر لیا،، عورت جب نیک ھوئی یا اسے نیکی کا دورہ پڑا تو اسے اپنی ازدواجی زندگی پر پچھتاوہ آیا کہ وہ کس گــند میں پڑ گئ ھے،، ھر بار ازدواجی عمل سے گزرنا اس کے احساسِ جرم میں اضافہ کر دیتا ھے،جس کا مداوہ وہ نوافل کی زیادتی اور وظائف کی کثرت سے کرتی ھے،، جس کے نتیجے میں شوھر کے دل میں مذھب کے بارے میں ایک ری ایکشن پیدا ھونا شروع ھو جاتا ھے جو اس سے اس کی بیوی چھینے لئے جا رھا ھے وہ اسے دین نہیں بلکہ جن سمجھتا ھے جو اس کی بیوی کو چڑھ گیا ھے،، بیوی کا رویہ سرد مہری میں تبدیل ھوتا جاتا ھے،، وہ ھنستی نہیں کہ اس کی ھنسی کہیں شوھر کے جنسی جذبے کو ایکٹیویٹ نہ کر دے،، وہ شوھر کو دور رکھنے کے لئے نماز لمبی کر دیتی ھے کہ شوھر سو جائے،، وہ دن کو روزہ رکھتی ھے کہ شوھر مجبور نہ کر سکے،، اور شوھر پر یہ ستم کرنے کے بعد وہ یہ توقع بھی رکھتی ھے کہ شوھر اس کے پاؤن دھو کر بھی پیئے کیونکہ وہ رابعہ بصری بن گئی ھے،جبکہ شوھر اس سے اور اسکی دینداری سے نفرت کرتا ھے، بچے بھی گھر کے افسردہ ماحول سے متأثر ھوتے ھیں،، چند سال میں وہ گھرانہ بکھر کر رہ جاتا ھے،، طلاق ھو جاتی ھے یا شوھر دوسری شادی کر لیتا ھے،،کیونکہ اسے ھنسنے کھیلنے والی بیوی چاھئے مائی طوطی نہیں چاھئے،، ایسی ضرورت سے زیادہ نیک عورت کا شوھر کسی بھی عورت کی صرف ایک مسکراھٹ کی مار ھوتا ھے،،اسے خوبصورتی سے بھی کوئی خاص تعلق نہیں ھوتا،،عموماخوبصورتی پہلی شادی میں اھم فیکٹر ھوتی ھے،،دوسری شادی میں دیگر عوامل کو اھمیت اور اولیت حاصل ھوتی ھے،،عام طور پر دوسری عورت پہلی عورت سے کم خوبصورت ھوتی ھے ،،اور ساری عورتیں تبصرے کرتی پھرتی ھیں،ھائے یہ کیا؟، اتنی خوبصورت بیوی کے ھوتے ھوئے یہ دوسری چڑیل کیوں لے آیا ھے،، جوتا جس کو چبھتا ھے اسی کو پتہ ھوتا ھے کہ خوبصورتی کہاں کاٹ رھی ھے،، پہلی بیوی بھی اب کہتی پھرتی ھے مجھ میں کیا کمی تھی،، نیک پاک خوبصورت اللہ سے ڈرنے والی چھوڑ کر دوسری کیوں لے آیا ھے،؟؟ انسان ایک وقت صرف ماں کے خون پر جیتا ھے،اس کا اپنا منہ بند ھوتا ھے،،پھر ماں کے دودھ پر،، پھر نرم غذا پر،، پھر ٹھوس غذا پر،،، اسی طرح جوں جوں انسان سماج میں بڑا ھوتا ھے،، ذمہ داریاں بھی نرم سے ٹھوس ھوتی جاتی ھیں،، عورت کا گھر گرھستی کرنا دین کا تقاضہ اور اللہ کی طرف سے ڈالی گئ ذمہ داری ھے،، کوئی بے دینی نہیں کہ جس پر پچھتایا جائے،، اور ڈیپریشن کا شکار ھوا جائے،، ازدواجی تعلق کوئی گناہ نہیں دینی فرائض میں سے اھم فریضہ ھے،، اس کا اجر نوافل سے بڑھ کر ھے،عورت نفل نماز اور نفلی روزہ شوھر کا موڈ پوچھ کر رکھ سکتی ھے،، اگر اس کا پروگرام کوئی اور ھے تو باقی سارے پروگرام منسوخ،، اس عورت پر اللہ اور اس کے رسول اور فرشتوں کی لعنت ھوتی ھے جو ضرورت کے وقت شوھر کو بلا شرعی عذر ” انکار "کر دے،،، جمعے کے دن اس بات کا خصوصی حکم دیا گیا ھے کہ جنسی طور پر دونوں میاں بیوی مطمئن ھوں،، من غسل واغتسل ،، کا اشارہ اسی طرف کیا گیا ھے،، بچوں اور شوھر کی ذمہ داریوں کی وجہ سے عورت کو جمعہ اور جماعت سے چھٹی دی گئ ھے،، اس کا تنور پر روٹیاں پکانا ،، اس کا جمعہ ھے، اپنی ظہر پڑھ لے،، بہت ساری صحابیات نے نبی کریم ﷺ کے خطبے کو تندور پر روٹیاں پکاتے سنا اور سورتیں یاد کیں،، اس لیئے میری اس بیٹی سے گزارش ھے جس نے سوال بھیجا ھے کہ وہ اپنے ڈیپریشن سے نکلے، گھریلو ذمہ داریوں کو خدا سے دوری نہ سمجھے اور اس کا حل وظیفوں میں نہ ڈھونڈے،، اس کا علاج اس کے اپنے بچوں میں ھے،، ان سے ترشی سے پیش نہ آئے ،، وہ اس کی ذمہ داری ھیں جن کے بارے میں اس سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا،، دل میں زنگ نہین لگا بلکہ شک کا مرض لگ گیا،، اللہ کا ذکر نماز کی صورت میں ظاھر میں موجود ھے،، اور دل میں وہ کام کاج کرتے ٹی وی چینل کے ٹِکر کی صورت وہ ھر وقت چلتا رھتا ھے،، جہاں کمی ھے اسے پورا کرو،،نوافل کی کثرت اس کمی کو پورا نہیں کر سکتی،،تمہارے یہ ھنسنے کھیلنے کے دن ھیں،،اس ھنسی سے اللہ خوش ھوتا ھے،ناراض نہیں ھوتا،،! اب آیئے مرد حضرات کی طرف،، یہ عموماً جب نیک ھوتے ھیں یا دورہ پڑتا ھے تو بستر لے کر گھر سے غائب ھو جاتے ھیں،، اس تصور سے کہ وہ دنیا مین پھنس گئے ھیں لہذا وہ گھر سے فرار کو دنیا سے فرار سمجھتے ھیں،، 3 دن اللہ کے لئے زکوۃ کے طور پر نکالتے ھیں،، باقی 27 دن احساسِ جرم مین گزارتے ھیں کہ وہ دنیا کے گند میں ملوث ھیں،،جو جتنا گھر والوں سے بھاگا رھتا ھے وہ اتنا بڑا بزرگ ھوتا ھے، اور اکابر مین گنا جاتا ھے،، ان کے گھر والے انتقاماً دین سے دور ھوتے چلے جاتے ھیں ،،اولاد برباد ھو جاتی ھے اور بیوی سرکش،، جس چیز کو ان کی ذمہ داری میں دیا گیا تھا وہ اس سے فرار اختیار کر کے نکل بھاگے ھیں،، بیوی ادھر کروٹیں بدل رھی ھے اور وہ پارا چنار کے کسی بوڑھے کے پہلو میں سوئے دین کی خدمت کر رھے ھوتے ھیں،، گھر میں بیوی شوگر کی مریض ھے،، بچہ پیدا ھونے والا ھے،، شوگر 400 سے اوپر ھے،، مگر وہ اسے چھوڑ کر چار ماہ لگانے گئے ھوئے ھیں کہ پیچھے فرشتے خیال رکھیں گے،، بچہ اٹھوایا تو انہوں نے تھا ،مگر اب ڈیلوری کے لئے فرشتے آئیں گے،، بیوی رات کو شوگر کی زیادتی کی وجہ سے کومے میں چلی گئ،، صبح بچوں کو پتہ چلا،، پڑوسیوں کو بلایا گیا،،غیروں نے حاملہ عورت کو گھسیٹ گھساٹ کے گاڑی میں ڈالا،، اسپتال پہنچایا،، بچہ ضائع ھو گیا عورت پورے دو ماہ کومے میں رھی،، اور خدا خدا کر کے ھوش آیا تو بھی بعض اعضاء سے معذور ھو گئ،،یہ میرے پڑوس کا واقعہ ھے،، اب اس کے نتیجے میں ان کی ساری اولاد قابو سے نکل گئ ھے،، اسی قسم کے ڈھیر سارے معاملات گنوائے جا سکتے ھیں،،یہاں سے نام لکھوایا ھے،،والدہ بیمار ھے گھر نہیں گئے کہ یہ وقت امانت ھے میں خیانت نہیں کر سکتا،، والدہ کو ایئر پورٹ ھی لایا گیا،،والدہ سے ملاقات کی ھے،سسکتی والدہ کی حالت بھی دیکھی ھے مگر اسے اسی حالت میں چھوڑ آگے روانہ ھو گئے،، والدہ دوسرے دن فوت ھو گئ،، موبائل کا زمانہ نہیں تھا،، یہ صاحب اللہ کو راضی کرتے رھے !! حالانکہ رسول اللہ نے غزوہ تبوک جیسے نازک موقعے پر بھی جہاد کے لئے آنے والے جوان سے پوچھا تھا کہ کیا تیرے والدین میں سے کوئی زندہ ھے،اس نے کہا تھا کہ جی دونوں ھیں،،پھر پوچھا ” ان کی رضامندی لی ھے؟ جواب دیا ان کو روتا ھوا چھوڑ آیا ھوں! آپﷺ نے فرمایا جا اب جا کر انہیں ھنسا جس طرح انہیں رلایا ھےیہ ھے حقیقی اسلام جو سب سے پہلے گھریلو ذمہ داریوں سے شروع ھوتا ھے،، مروجہ تبلیغ ایک مخصوص علاقے کے ماحول اور مسائل کو لے کر اجتہادی طور پر شروع کی گئ،،مگر یہی نبیوں کا طریقہ بن گئ حالانکہ یہ خود ھمارے نبیﷺ کا طریقہ بھی نہیں ھے،، یہ ھے وہ مقام جہاں حقوق العباد کی خلاف ورزی خود گھر سے شروع ھوئی ھے،، یہ تصور ھی سرے سے غلط ھے کہ گھر داری کوئی گناہ اور دنیا داری ھے،،بلکہ یہ عین دینداری ھے ! جب تک ھم اپنے تصورات( کانسیپٹس) درست نہیں کریں گے یہ تباھی و بربادی چلتی رھے گی