متعہ اور قرآن
عقدِ متعہ ( Facilitation Contract)
عقدِ نکاح ( Social Contract )
آپ نے ویکیپیڈیا میں دونوں فریقوں کے دلائل کا مطالعہ کر لیا ھو گا
میں حسبِ عادت قرآن سے ھی اس فعل شنیع کا رد کرونگا ،ان شاء اللہ ،،
اس سلسلے کی روایات پر بھی ایک نظر ڈالوں گا مگر بطور طعن نہ کہ بغرضِ استدلال ،، متعہ کے نام پر زنا عربوں میں اسی طرح جاری و ساری تھا جس طرح ھر معاشرے میں یہ فعل جاری ھے ،، یہ فعل عربوں میں بھی اسی طرح چھپ کر کیا جاتا تھا جس طرح ھمارے معاشرے میں کیا جاتا ھے ،، یہ کوئی قابل فخر کام نہیں تھا ، کہ جس کا چرچا کیا جاتا ،، ھر بستی میں ایک آدھ گھر ایسا ھوتا تھا جو سہولت فراھم کرتا تھا ، مسافر بھی اس گھر سے واقف ھوا کرتے تھے اور بستی والے بھی انجان مسافر کو اس گھر کی راہ دکھا دیا کرتے تھے کیونکہ اس گھر کو سرائے کے طور پر چلایا جاتا تھا ،جس میں مسافر کے کھانے پینے کی حاجت کے ساتھ ساتھ اس کی شب بسری اور جنسی ضرورت کا سامان بھی کیا جاتا تھا ، یہ آج بھی فائیو اسٹار ھوٹلز اور مساج سینٹرز میں کیا جاتا ھے ،، بہرحال یہ کام غیر اعلانیہ کیا جاتا تھا ، اس کا اعلان کبھی بھی قابلِ فخر نہیں سمجھا جاتا تھا ،، طائف کی بستی میں سمیہ نام کی ایرانی کنیز حارث بن کلدہ طبیب کی لونڈی تھی جو مالک کے مرنے کے بعد تاجر مسافروں کے لئے یہی خدمت سر انجام دیتی تھی ، ابوسفیانؓ نے زمانہ جاھلیت میں یہاں قیام کیا اور سمیہ سے جنسی تسکین حاصل کی ،، جس کا نتیجہ زیاد ابن سمیہ کی صورت برآمد ھوا ،، اگلی دفعہ جب ابوسفیانؓ سمیہ کے پاس گئے تو اس نے زیاد کو ان کے سامنے کھڑا کر دیا ،، ابوسفیان نے اس بچے کو قبول کر لیا کیونکہ وہ ان کی جھلک رکھتا تھا ،ویسے بھی اس کو قبول کرنا ان کی مجبوری تھی ،، وہ گاھے گاھے گزرتے اور سمیہ سے استمتاع کے ساتھ ساتھ زیاد کی دیکھ بھال بھی کرتے رھے ،، زیاد میں اپنے ناجائز باپ کی تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود تھیں وہ بہترین خطیب اور ماھر جرنیل تھا ،،
امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو دس آدمیوں کی گواھی پر اپنے والد کا بیٹا تسلیم کر لیا ،، جس پر بعض لوگوں نے ان پر طعن کیا کہ انہوں نے ایک جرنیل کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے اپنے باپ کے زنا کا اعلانیہ اعتراف کیا ،، اگر یہ واقعی ایک مروجہ نکاح ھوتا تو ابوسفیانؓ اس کو اپنے بعض قریبی دوستوں کے سامنے انفرادی طور پر ذکر نہ کرتے بلکہ سب کے سامنے اعلان کر کے اپناتے ،،
تعجب یہ ھے کہ زیاد ابن سمیہ کو ولد الزنا قرار دینے والے خود متعہ کو جائز قرار دیتے ھیں اور اس سے پیدا ھونے والی اولاد کو جائز اولاد قرار دیتے ھیں ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟ کہ قبل اسلام کا متعہ تو زنا تھا ،مگر اسلام کے نکاح کے واضح قانون کے بعد متعہ شرعی نکاح قرار دیا جائے ؟
خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی متعے کی حرمت کو وھی نہیں مانتے جو ان کو امام معصوم مانتے ھیں ،، یہ بھی کھلا تضاد ھے ،،
کہیں نہیں لکھا کہ قبل اسلام یا بعد اسلام لوگ کسی کے گھر متعے کا پیغام بھیجا کرتے تھے ، اگر متعہ واقعتاً عرب زمانہ جاھلیت کا ایک تسلیم شدہ نکاح ھی تھا تو پھر اس کا پیغام بھیجنے اور متعہ کرنے کے واقعات اسی کثرت سے ملنے چاھئیں تھے جس کثرت سے نکاح کے واقعات ھیں ، نیز جس طرح عربوں کا پورا نسب محفوظ ھے کہ کون کس کی بیٹی اور کس کی بیوی تھی اورکون کون اس سے پیدا ھوا ، اسی طرح یہ فہرست بھی محفوظ اور دستیاب ھونی چاھیئے تھی کہ کون کون عورت ،کس کی بیٹی اور کس کی بہن فلاں فلاں کی ممتوعہ تھی اور اس متعے سے کونسا بیٹا اور کونسی بیٹی پیدا ھوئی اور وہ آگے کس کس کے ساتھ بیاہے گئے ،، ایسی کوئی فہرست دستیاب نہیں ، گویا یہ ایک گناہ ھی تھا جس کو چھپ کر بطور گناہ ھی کیا جاتا تھا ، اور اس کے آفٹر ایفیکٹس کو بھی چھپا کر ھی رکھا جاتا تھا ، اپنے نسب میں شمار نہیں کیا جاتا تھا ،،
متعہ اور قرآن ،،، پارٹ – 2
قرآنِ حکیم میں متعہ اور اس سے مشتقات 71 بار استعمال ھوئے ھیں مگر ان میں سے کسی میں بھی مروجہ یا بدنامِ زمانہ متعہ کے لئے استعمال نہیں ھوا ، بلکہ فائدہ اٹھانا، سامانِ زیست یا اسبابِ متعہ یعنی بطور متاع وغیرہ استعمال ھوا ھے ،، اگر اس متعے سے منع کیا بھی ھے تو بھی اس کی اصل کی مذمت کی ھے مگر نام لینا گوارا نہیں فرمایا ، جیسے فرمایا کہ نکاح کرو محصن بنانے کے لئے ” نہ کہ مستی نکالنے اور پانی بہانے ” کے لئے ، یہی قصد ھوتا ھے متعے کے پسِ پشت ، وہ محصن ھونا چاھتی ھو نہ کہ چھپ کر یاریاں گانٹھنے والیاں اور مستی نکالنے والیاں ،، دونوں کے فعل اور نیت کی مذمت اصل مقصد کی وضاحت کر کے فرما دی ،، شادی کا مقصد سکن ، اولاد اور پوتے ،محبت اور مودت ھوتا ھے ، اور متعہ میں یہ ساری چیزیں نہیں ھوتیں ،،نہ اولاد مقصود ھوتی ھے کیونکہ اس کو چھپانا پڑتا ھے یا مارنا پڑتا ھے ،، سکن اور سکون کی بجائے ،سرائے عالمگیر بنی ھوتی ھے کہ،، ؎ اک آتا ھے اک جاتا ھے محفل کا رنگ وھی ھے ،، ساقی کی عنایت جاری ھے مہمان بدلتے رھتے ھیں ،
رہ گئ مودت اور رحمت تو وہ اس عورت سے کیسے ھو سکتی ھے جو آپ کو پتہ ھو کہ اگلی بار آپ آئیں گے تو کسی اور کی ممتوعہ ھو گی ،،
متعہ کا مطلب ھے نفع حاصل کرنا ، اور جس سے نفع حاصل کیا جائے وہ چیز متاع ھے ،وہ زندہ ھو جیسے بیوی بچے ،، ، کھانے والے مویشی یا سواری والے جانور،، یا سوبا چاندی اور زمین ،کھیتی باڑی ،،یہ سب متاع ھیں یعنی اسبابِ انتفاع ،نفع اٹھانے کا سامان ،،
رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ [ الأنعام:128]
أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا [ الأحقاف:20]
فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلاَقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ بِخَلاَقِهِمْ [ التوبة:69]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ھے کہ دنیا متاع ھے اورنیک صالحہ بیوی ( جو رب کے ساتھ شوھر کو بھی راضی رکھے ) اس کی بہترین متاع ھے ،،
(( الدنيا متاع وخير متاعها المرأة الصالحة)) رواہ مسلم
ابن ماجہ کی روایت میں فرمایا کہ دنیا متاع ھے اور صالحہ بیوی سے بڑھ کر کوئی بہترین متاع نہیں ھے ،،
( إِنَّمَا الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَلَيْسَ مِنْ مَتَاعِ الدُّنْيَا شَيْءٌ أَفْضَلَ مِنْ الْمَرْأَةِ الصَّالِحَةِ ) .ابن ماجه (1855)
متعہ کا لفظ تین چیزوں کے لئے استعمال ھوا ھے ،،
1- متعة الحج – حج تمتع. 2- متعة الطلاق – فمتعوھن . 3- متعة النساء – فما استمتعتم بہ منھن ،،
ھمارا موضوع یہی متعۃ النساء ھے ،،
نکاح کا مقصد اللہ پاک نے نہایت صراحت کے ساتھ بیان کر دیا ھے ، جس کا شائبہ بھی متعے میں نہیں پایا جاتا ،، یعنی ایک گھر کی اساس رکھنے ، اس گھر میں بیوی ، بچے اور پوتے پیدا ھونا ،، یعنی ایک نسل کی بنیاد رکھنا ،، یہ بھی متعے سے حاصل نہیں ھوتا ،،
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً (( الروم:21 )) اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ھے کہ اس نے تمہاری اپنی جنس میں سے تمہاری بیویاں پیدا کیں تا کہ تم سکون حاصل کرو ان سے اور تمہارے درمیان مودت اور رحمت پیدا کر دی ، سکون سکن سے ھی حاصل ھوتا ھے گویا گھر وھی مسکن کہلاتا ھے جس میں بیوی ھو ،ورنہ اس کو مسکن نہیں ڈیرہ کہتے ھیں ،، آدم علیہ السلام کو بھی سکن اور سکون بیوی سے ھی حاصل ھوا تھا ،،
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ،،( الاعراف – 189 )
وَاللّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً ( النحل:72) اور اللہ نے تمہاری جنس سے جوڑے پیدا کئے اور ان جوڑوں سے تمہارے بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں پیدا کیں
انسان ان ھی مقاصد کے لئے شادی کرتا ھے اور معاشرہ شادیوں کی بنیاد پر بنتا اور قائم رھتا ھے ، متعے سے نہ کوئی معاشرہ بنتا ھے اور نہ ھی کوئی معاشرہ قائم رہ سکتا ھے ۔
اللہ پاک نے قرآن میں ساری قانون سازی نکاح اور طلاق کے لئے کی ھے ، نہ وہ متعے کو تسلیم کرتا ھے اور نہ اس کے لئے قانون سازی کرتا ھے ،،،
الغرض نکاح مقاصدِ شریعت میں سے ھے ،متعہ مستی نکالنے کا ذریعہ ھے جس کی واضح مذمت کی گئ ھے ،، یہانتک کہ لونڈیوں کے لئے بھی اس کو پسند نہیں کیا گیا ،،
فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ( النساء- 25)
پس نکاح کرو ان لونڈیوں سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ اور ان کے وہ حق مہر ادا کرو جو معروف و مشہور ھوں ،وہ محصنات بننا چاھتی ھوں نہ کہ مستی نکالنے والیاں اور نہ یاری گھانٹے والیاں ،،
اب آیئے اس آیت کی طرف کہ جس کو اس کے پورے سیاق و سباق سے اٹھا کر اپنے مطلب کے معانی پہنا کر مستقل قحبہ خانے کھول لئے گئے ھیں جہاں ھر وقت متعے کے لئے ایک مخلوق دستیاب رھے ،،
یہ مضمون بہت پیچھے سے چلا ھے اور اس کا موضوع نکاح و طلاق ھے نہ کہ متعہ ،، اس لئے اس میں موجود ھر آیت کو نکاح سے متعلق ھی سمجھا جائے گا ،،
سب سے پہلے فرمایا ” اے ایمان والو عورتوں کے زبردستی وارث نہ بن جایا کرو ( ان کی رضامندی ضروری ھے ) اور نہ ان کو دیا گیا مال ہڑپ کرنے کے لئے مجبور کیا کروکہ وہ مال واپس دے کر خلع طلب کرنے پر مجبور ھو جائیں- سوائے اس کے کہ وہ بے حیائی کا ارتکاب کریں ( تمہیں دیا گیا مال واپس لینے کا کوئی حق نہیں ) ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رھو ، اور اگر تم ان کو ناپسند کرتے ھو تو ھو سکتا ھے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ھو اور اللہ نے اس میں تمہارے لئے بہت ساری خیر رکھی ھو ( النساء-19)
اور اگر تم ایک بیوی کو طلاق دے کر اس کی جگہ دوسری لانا چاھتے ھو تو اور پہلی کو تم ڈھیروں سونا دے چکے ھو تب بھی تم اس میں سے کچھ مت لو ، اب تم یہ دیا گیا مال واپس لینے کے لئے اس پر بدکاری کا بہتان لگانے اور بہت بڑا گناہ کمانے پر مت تل جانا ،،( 20)
اور تم کیسے یہ مال واپس لو گے جبکہ تم ایک دوسرے کے سامنے ننگے ھو چکے ھو ؟ اور وہ تم سے گاڑھا میثاق لے چکی ھیں ؟( 21)
اور مت کرو نکاح ان عورتوں سے کہ جن سے نکاح کر چکے ھیں تمہارے باپ ، سوائے اس کے کہ جو ماضی میں ھو چکا ، یہ بے حیائی ، اور اللہ کے غضب کا باعث ھے اور برا رستہ ھے ،،( 22)
حرام کی گئ ھیں نکاح کے لئے تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں ، اور بھائی کی بیٹیاں اور بہن کی بیٹیاں ، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں ، اور تمہاری وہ بیٹیاں جو تمہاری بیویوں میں سے ھیں اگر تم نے ان بیویوں سے ھمبستری کر لی ھے ، اور دخول کے بغیر ان کو طلاق دے دی ھے تو پھر ان کی بیٹی سے نکاح میں کوئی حرج نہیں ،، اور تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی تم پر حرام ھیں اور دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا بھی حرام ھے ( 23 )
اور وہ عورتیں جو کسی دوسرے کی بیویاں ھیں وہ بھی تم پر نکاح کے لئے حرام ھیں سوائے اس کے کہ وہ قیدی بن کر آئیں ،، ( تو ان سے طلاق لئے بغیر بھی نکاح ھو سکتا ھے ) یہ ھے قانون اللہ کا جس پر چلنا تمہارے ذمے ھے ،، اس حرام کردہ فہرست کے علاوہ باقی کی عورتیں حلال ھیں تمہارے نکاح کے لئے بشرطیکہ کہ طلب کرو تم ان کو قیدِ نکاح میں لانے کے لئے نہ کہ مستی نکالنے کے لئے ،پھر جو بھی فائدہ اٹھاتے ھو تم ان سے ان کا حق ھے کہ ان کے مقرر شدہ مہر ادا کرو ( اگر انتفاع سے پہلے طلاق ھو جائے تو شوھر کے ذمے مہر نہیں ھے ، اور عورت کے ذمے عدت نہیں ھے ) مہر مقرر ھو جانے کے بعد تم آپس میں اگر رضامندی سے اس میں کمی بیشی کر لو تو تمہیں کوئی گناہ نہیں ھے ( عورت چاھے تو اپنا مہرموجل معاف بھی کر سکتی ھے ) بے شک اللہ دائمی علم و حکمت والا ھے ،،( 24 )
پھر اگر تم میں سے کوئی بوجہ فقر آزاد خاندانی عورت کے مہر کا بوجھ اٹھانے کی استطاعت نہیں رکھتا تو جو بھی تمہارے یہاں مومنات کنیزیں دستیاب ھیں ، ان سے نکاح کر لو ، اللہ تمہارے ایمان سے بخوبی واقف ھے تم ایک دوسرے میں سے ھی ھو ،، تو نکاح کرو ان کنیزوں سے ان کے مالکوں کی رضامندی کے ساتھ اور ان کو مہر دو دستور کے مطابق، وہ قید نکاح میں آنے والیاں ھو مستی نکالنے والیاں نہ ھوں اور نہ چھپ کر یارانہ لگانے والیاں ،، پھر جب وہ قیدِ نکاح میں آنے کے بعد بے حیائی کا ارتکاب کریں تو ان کو آدھی سزا ھے ایک آزاد عورت کے مقابلے میں ، یہ ان کے لئے ھے جو مشقت میں پڑنے سے ڈرتے ھیں اور اگر تم وسعت تک صبر کرو تا کہ آزاد عورت سے نکاح کر سکو تو یہ تمہارے لئے بہتر ھے ،، اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ھے ( النساء 25 )
اب آپ دیکھ لیجئے کہ یہ پوری بحث نکاح کی چل رھی ھے ،، آیت 24 سے پہلے بھی اور اگلی آیت 25 میں بھی فانکحوھن سے نکاح کی بحث ھی چل رھی ھے ،، اس میں اچانک متعہ کا ٹیکا لگا دینا کہاں کا عدل ھے ؟ نیز اگر لفظ استمتاع سے متعہ یعنی فائدہ اٹھانا ثابت ھو رھا ھے تو پوچھا جا سکتا ھے کہ جناب وہ کونسا استمتاع ھے جو ممتوعہ سے تو ھوتا ھے اور منکوحہ سے نہیں ھوتا ؟ اور فوائد تو منکوحہ سے زیادہ حاصل ھوتے ھیں کہ اللہ پاک نے جگہ جگہ بطور احسان ذکر کیئے ھیں کہ ان سے اولاد اور پوتے نواسے پیدا ھوتے ھیں ، لوگ ان کو شادی بیاہ کی محفلوں میں فخر کے ساتھ لے کر جاتا ھے ، اور اپنی اولاد کا فخر کے ساتھ ذکر کرتا ھے ،، جبکہ ممتوعہ کو تو چھپاتا پھرتا ھے اور اس میں سے اگر کوئی بچہ پیدا ھو جائے تو اس کا نام بھی اپنے نام کے ساتھ نہیں آنے دیتا ،،،
بہت ساری چیزوں کی فرضیت مدنی دور میں ھوئی ھے جبکہ اسلام ایک ریاست کا دین بن گیا تھا ، اور اوامر و نواھی پر عملدرآمد کرنا اور کرانا آسان ھو گیا تھا ،شرب ،جوئے اور سود کی حرمت انہی میں سے ھے ، مگر زنا اور اس کی مختلف اشکال ، قتل نفس وغیرہ دعوتی دور میں ھی حرام قرار دے دی گئ تھیں ،، صرف بیوی اور ملکِ یمین کے تعلق کے سوا جنسی تعلق کی ھر صورت مکی دور سے ھی حرام تھی اور اللہ پاک نے اس کو بغاوت اور اللہ کی حدود پر چڑھائی کے مترادف قرار دے دیا تھا ،،،
سورہ المومنون میں اھل ایمان کی فلاح کا جو بنیادی پیکیج دیا گیا ھے اس میں نہایت وضاحت کے ساتھ اس کو بیان کر دیا گیا ھے ،کہ عصمت کی حفاظت کے معاملے میں کوئی کمپرومائز نہیں ،،
(( (4) وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (5) إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (6) فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (7) ))
اور کامیاب ھونے والے مومن وھی ھیں جو اپنی شرمگاھوں کی حفاظت کرنے والے ھیں ، البتہ اپنی ازواج اور ملکِ یمین کے معاملے میں ان پر کوئی ملامت نہیں ( باقی ھر صورت قابلِ ملامت ھے ) پھر جس نے ان دو صورتوں کے علاوہ اپنی تسکین کا کوئی اور ذریعہ اختیار کیا وہ لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ھیں ،،
سورہ المعارج میں بھی بالکل انہی الفاظ میں تین ھی آیات میں یہی حکم سنایا ھے ،،
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (29) إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (30) فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (31) المعارج
گویا یہ بات مکے میں ھی طے ھو گئ کہ عصمت کے معاملے میں جنسی تسکین کا کوئی تیسرا رستہ نہیں ،، اور اللہ کی حد طے ھو گئ ،،
جیسا کہ یہ بات پہلے عرض کی جا چکی ھے کہ عربوں میں یہ قباحت کافی پائی جاتی تھی اور لوگ اس سے در گزر کی پالیسی اپنائے ھوئے تھے ،، نہ تو سفر کی سہیولیات تھیں اور نہ ھے ھوٹیل وغیرہ ھوتے تھے ، قافلے بستیوں کے پاس سے دن رات گزرا کرتے تھے اور قیام و طعام کے لئے بستی میں اترتے تھے ، ھر بستی میں کوئی ایک آدھ گھر ھوتا تھا جو سرائے کا کام کرتا تھا ،جہاں وہ لوگ کھانے کے ساتھ ساتھ جنسی ضرورت بھی پوری کر لیتے تھے اور سرائے والوں نے اس کا انتظام کر رکھا ھوتا تھا ،، یہ گھر بستی میں معلوم و مشہور ھوتا تھا اور ھر مسافر کو اسی کا رستہ دکھایا جاتا تھا ،، اس سلسلے میں کوئی شرعی اصول طے نہیں تھے کیونکہ شریعت نے اس کو مشروع کیا ھی نہیں تھا ،چنانچہ اگر کوئی حمل ھو جاتا تو متعلقہ عورت یا تو بچے کو پیدا کرنے سے پہلے ھی حمل گرا دیتی یا پیدا ھونے کے بعد مار دیتی یا پھر اسے یاد ھوتا تو اس شخص کو اطلاع دی جاتی اگر وہ چاھے تو اپنا بچہ لے جائے یا اس عورت کو بچے کو پالنے کا خرچہ دے ،، زیاد ابن سمیہ ایسی ھے واردات کی پیدائش تھا ،، قرآن میں ممانعت کے بعد جہاں کہیں بھی اجتماع ھوتا ، اللہ کے رسول ﷺ مختلف صحابہؓ کے ذریعے متعے کی حرمت کا اعلان کراتے تھے ، اس کے باوجود ھزاروں مربع میل پر پھیلے صحراء میں جہاں لوگ دور دراز اونٹوں کے باڑے بنائے بیٹھے تھے ، اور شہروں سے ان کا رابطہ نہ ھونے کے برابر تھا تمام لوگوں تک اس قسم کی خبر کا پہنچانا ناممکن تھا ، لہذا کوئی نہ کوئی اس فعلِ بد کا ارتکاب کر ھی دیتا تھا جس پر رسول اللہ ﷺ کو نئے سرے سے منادی کرانا پڑتی ،، اب جب منادی کرائی جاتی کہ اے اللہ کے بندوں اللہ نے متعے کو حرام قرار دیا ھے تو جن بدو حضرات نے اس کو پہلے نہ سنا ھوتا وہ سمجھتے کہ یہ اسی دن حرام ھوا ھے ،، پھر جب روایت سے روایت چلتی تو یہی بتایا جاتا کہ یہ یومِ خیبر کو حرام کیا گیا ،، جبکہ حقیقت یہ ھوتی تھی کہ اس کی منادی اور مشہوری خیبر میں کی گئ ،
حجۃ الوداع پہ جب نبئ کریم ﷺ تشریف لے گئے تو لاکھوں کے اجتماع میں ٹوٹل 10 ،12 ھزار لوگ ھی تربیت یافتہ تھے باقی کچھ تو پہلی دفعہ نبئ کریم ﷺ سے ملاقات کا شرف حاصل کر رھے تھے تو کوئی دوسری دفعہ اور وہ بھی دور دور سے ،لہذا ان لوگوں نے حج میں بھی بہت غلطیاں کیں اور نبئ کریم ﷺ ان کی عدم تربیت کا لحاظ کرتے ھوئے ان کو معاف کرتے رھے کہ اگر ان لوگوں پر پہلے ھلے میں ھی دم کا جرمانہ لگا دیا تو دین سے ھی متنفر نہ ھو جائیں ، لہذا اللہ پاک کے اس واضح حکم کے باوجود کہ ” ولا تحلقوا رؤسکم حتی یبلغ الھدی محلہ ” ( البقرہ ) جب تک قربانی ذبح نہ ھو جائے اپنے سر مت منڈھاؤ ،، کئ لوگوں نے قربانی سے پہلے سر منڈھا لئے مگر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چلو بعد میں ھی قربانی کر لو،، افعل ولا حرج ،،
عربوں میں حج تمتع مشروع نہیں تھا اور صدیوں سے لوگ اس سے واقف نہیں تھے ،،وہ صرف حج قران اور افراد سے واقف تھے ، یا تو عمرہ اور حج ایک ھی احرام میں داخل ھوتے تھے ، یا صرف حج کا ھی احرام باندھا جاتا تھا ،، یہ چھوٹ پہلی دفعہ نبئ کریم ﷺ نے دی کہ عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دو اور اس سہولت سے فائدہ اٹھاؤ چند دن ایزی ھو کر رہ لو، اور پھر تازہ دم ھو کر حج کا احرام مکے سے ھی باندھ لو ،، لہذا جب لوگوں سے کہا گیا کہ وہ عمرے کے بعد سعی کر لیں اور بال اتار کر احرام اتار لیں تو ان کو بڑا عجیب لگا کہ ھم لوگ بیویوں سے استفادہ کر لیں جبکہ ھم اللہ کے گھر کی نیت سے چلے اور ابھی وہ مقصد یعنی حج ھوا نہیں کہ دوبارہ بیویوں سے تعلق قائم کر لیں ،، ان میں سے کسی نے سوال بھی کر دیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ھم بھلا اس حال میں حج کریں گے کہ ھمارے بدن سے پانی بہہ رھا ھو گا،، ؟
لفظ تمتع یعنی فائدہ اٹھانا ، موج کرنا ،، کلو و تمتعوا قلیلاً انکم مجرمون ( المرسلات -46)
کھاؤ پیو اور تھوڑی دیر موج میلہ کر لو اے مجرمو ،،
لفظ متع انہی معنوں میں استعمال ھوتا ھے ، اس سے صرف جنسی فائدہ ھی نہیں بالکل کپڑے پہننا بھی کپڑوں سے تمتع ھے ،،
جب اللہ کے رسول ﷺ نے تمتع کا حکم دیا تو جن کی تو بیویاں ساتھ تھیں یعنی مکے مدینے والے وہ تو ان سے میل ملاپ کی طرف متوجہ ھوئے جبکہ کچھ لوگوں نے لفظِ تمتع سے متعے کی تحلیل سمجھ لی اور کسی متعے والی کی تلاش میں نکل پڑے ،، متعہ ٹھیک زنا ھے اور ایک قحبہ خانہ ھی میں کیا جاتا تھا ، متعہ کرنے والا ھی چل کر متعے والی کے پاس جاتا تھا ، متعے والی کو گھر نہیں لے کر جایا جاتا تھا ،، اور نہ ھی ممتوعہ عورتوں کا کوئی ریکارڈ دستیاب ھے ،جبکہ عربوں میں ایک ایک عورت کا ریکارڈ دستیاب ھے کہ وہ کس قبیلے کی تھی اور اس کی شادی کس سے ھوئی اور اس میں سے کون کونسی اولاد ھوئی ،، مگر کسی خاندانی ممتوعہ کا کوئی ریکارڈ نہیں ملتا ،،
حجِ تمتع کی اجازت ملتے ھی دو دوست متعے کے لئے نکل کھڑے ھوئے اور ایک بھٹیاری کے یہاں پہنچے اور دونوں نے اپنا آپ اس کے پیش کر دیا ،، اس نے پوچھا کہ دینے کو کیا ھے ؟ دونوں نے کہا کہ بس دونوں کے پاس چادریں ھیں ،، راوی کہتا ھے کہ میری چادر پرانی تھی مگر میں جوان تھا ،، دوسرے ساتھی کی چادر تو نئ اور دیدہ زیب تھی مگر عمر میں وہ مجھ سے بوڑھا تھا ،، بھٹیارن کبھی میرا چہرہ دیکتھی اور کبھی میرے ساتھی کی چادر ،، اسے چہرہ میرا پسند تھا جبکہ چادر میرے ساتھی کی ،، اخر وہ یہ کہتی ھوئی اس کشمکش سے نکل گئ کہ ” اس چہرے کے ساتھ پرانی چادر قبول ھے ” جبکہ میرا ساتھی مایوس ھو کر چلا گیا ، میں اس عورت کے پاس وہ رات رھا صبح مسجد حرم میں پہنچا تو رسول اللہ ﷺ منبر پر بیٹھے فرما رھے تھے کہ لوگو میں نے تمتع حلال کیا تھا ، متعۃ النساء قیامت تک حرام ھے ،،
نبئ کریم ﷺ کو جونہی یہ خبر ملی کہ کچھ لوگوں نے حجِ تمتع کی حلت کو عورتوں سے متعہ کی حلت سمجھ لیا ھے تو آپ نے فوری طور پر اس کی وضاحت فرما دی اور کہا کہ جس نے جو کچھ کسی عورت کو دے دیا ھے وہ اسی عورت کے پاس رھنے دے اور اس میں سے کچھ نہ لے ،
جب بھی حج کا سیزن آتا تو بھانت بھانت کے لوگوں میں دو چار دانے ایسے ضرور آ جاتے جن تک متعہ کی حرمت کی نسبت اسلام کا حکم نہ پہنچا ھوتا لہذا وہ اس کا ارتکاب کر لیتے اور اس کی خبر پانے والے جب واپس جاتے تو متعے کی حلت کی خبر ساتھ لے جاتے اور یوں یہ وبا نئے سرے سے پھوٹ پڑتی ،، حجِ تمتع نبئ کریم ﷺ کی زندگی کے بالکل اخری دور میں حلال ھوا تھا ، اس کے چند ماہ بعد آپ کا وصال ھو گیا ،، ابوبکر صدیقؓ کے ڈھائی سال مرتدین اور مانعین زکوۃ سے لڑتے گزر گئے ،، عمر فاروق خلیفہؓ بنے اور آپ تک جب یہ رپورٹیں پہنچیں کہ متعہ سے متعلق کس طرح غلط فہمیاں دوبارہ سر اٹھا لیتی ھیں تو آپ نے حج تمتع پر پابندی لگا دی تاکہ متعۃ النساء ولا باب ھی بند ھو جائے ،، آپ نے فرمایا کہ یا تو حجِ قران کرو یا افراد ،، جس نے تمتع کیا یہی سمجھا جائے گا کہ وہ متعے کے چکر میں ایسا کر رھا ھے لہذا اس کو سزا دی جائے گی ،، بعد میں جب متعہ سے متعلق معاملات کلیئر ھو گئے اور لوگ خبردار ھو گئے تو یہ پابندی ختم کر دی گئ ،،
لوگ غلاموں سے تو مزدوری کراتے تھے ،اور لونڈیوں کو متعہ کے نام پر پیشہ کراتے تھے ،مدینے میں عبداللہ ابن ابئ نے 6 لونڈیاں اس خدمت کے لئے رکھی ھوئی تھیں ،، جس کو اللہ پاک نے سورہ نور میں واضح طور پر بدکاری کہہ کر اس کو بند کرنے کا حکم دیا ،،
(( { ولا تكرهوا فتياتكم على البغاء إن أردن تحصنا لتبتغوا عرض الحياة الدنيا ومن يكرههن فإن الله من بعد إكراههن غفور رحيم } ))
اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور مت کرو اگرچہ وہ پاکیزہ رھنا چاھتی ھیں ، جو ان کو مجبور کرے گا تو اللہ پاک ان کی مجبوری کے مدنظر بخشنے والا مہربان ھے ،،
خود لونڈیوں سے پیشہ کرانے والا معزز حضرت عائشہؓ پر انگلی اٹھانے چلا تھا ،،
لونڈیوں سے یہ خدمت مختلف طرح لی جاتی تھی ،،
پہلی قسم کال گرل ٹائپ تھی کہ لونڈی کسی بڑے صاحب کے گھر رکھیل بن کر رھتی تھی ، جہاں وہ خود بھی اس سے استفادہ کرتا تھا اور مہمانوں کی خاظر تواضع بھی کرتا تھا ،، بچہ پیدا ھو جاتا تو قرع اندازی سے کسی شریف کے سر منڈھ دیا جاتا ،، ( یہ شریف نہایت شریف کے معنوں میں ھے ) دوسری قسم میں لونڈی کو ایک حجرے میں بند رکھا جاتا اور دروازے پر جھنڈا گاڑ دیا جاتا جس سے لوگوں کو معلوم ھو جاتا کہ کس گھر میں ان کیا ضرورت کا سامان دستیاب ھے ،،
تیسیر قسم یہ تھی کہ لونڈی پر ٹیکس لگا دیا جاتا کہ مجھے ماھانہ اتنا پیسہ چاھیئے ، جہاں سے مرضی ھے پیدا کرو ،، یوں لونڈیاں بدکاری پر مجبور ھو جاتیں ،، مالک کو بھی پتہ تھا کہ یہ پیسہ کیسے کمایا جا رھا ھے مگر وہ بڑی بشاشت کے ساتھ اس کو وصول کرتا ، اللہ کے رسول ﷺ نے ان قحبہ خانوں کی تمام لونڈیوں ک بحق سرکار ضبط کرنے اور آزاد کرنے کا حکم دیا ،، اس کے علاوہ لونڈی کی کمائی کو حرام قرار دے دیا جبتک کہ وہ اس انکم کا ذریعہ نہ بتائے ،یوں جنسی تسکین کا سوائے نکاح ،طلاق اور وراثت کے ھر ذریعہ بند کر دیا گیا ،،
متعہ تصویر کا دوسرا رخ ،،
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ھے کہ اللہ پاک نے مکی دور سے ھی جنسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے دو ھی رستے رکھے تھے ، ملکِ یمین جس سے اس کی مرضی کے بغیر نکاح جائز تھا ، اور آزاد عورت جس سے اس کی مرضی لے کر نکاح کیا جاتا تھا ،، اور صاف صاف بیان کر دیا کہ اس کے علاوہ ھر صورت اللہ کی حدود سے تجاوز ھو گا ،، فمن ابتغی وراء ذالک فاولئک ھم العادون ،، And those Who approached Beyond narrated Ways,they are offenders
متعہ کے جواز کے قائلین میں سے کوئی بھی اس بات کا اقرار نہیں کرے گا کہ اس کی بہن یا بیٹی آج کل کس کے ساتھ تمتع فرما رھی ھے ،مگر یہ بات بتانے میں کوئی بھی شرم محسوس نہیں کرتا کہ اس کی بیٹی کہاں ، کب اور کس کے ساتھ بیاہی ھوئی ھے – یہ ھے ضمیر کی گواھی جو سب سے قوی گواھی ھے اور جس کی بنیاد پر قیامت میں فیصلے ھونے ھیں ،،
جن لوگوں نے اس کو عمرؓ ابن الخطاب کی عداوت میں جائز قرار دیا – انہوں نے اس کو صرف اضطراری جواز تک نہیں چھوڑا بلکہ عقیدہ بنا لیا اور اس کے اتنے فضائل بیان کیئے کہ نکاح منہ دیکھتا رہ گیا ،،
ھمارے یہاں پوٹھواری دوہا ھے کہ "
ڈہڈی دیاں سنگلاں کس لاہیاں ،، ( ڈہڈی= ڈیوڑھی ) ماہی سُتا رھیا میں لنگ آئیاں ،،
اللہ کی حدیں اس جرات اور جذبے کے ساتھ توڑی گئیں کہ شریعت بس سوتی رہ گئ ،،،
((من خرج من الدنيا ولم يتمتع جاء يوم القيامة وهو أجدع)) ("تفسير منهج الصادقين” للملا فتح الله الكاشاني – فارسي 2/ 489).
جو دنیا سے اس حال میں اٹھ گیا کہ اس نے متعہ نہ کیا تو وہ قیامت کے دن ناک کٹا ھوا اٹھے گا ،،
((من تمتع مرة واحدة عتق ثلثه من النار ومن تمتع مرتين عتق ثلثاه من النار ومن تمتع ثلاث مرات عتق كله من النار))(تفسير منهج الصادقين 2/492 نقلاً من "حضرة من خصه الله باللطف الأبدي، خاتم مجتهدي الإمامية بالتوفيق السرمدي، الغريق في بحار رحمة الله الملك الشيخ علي بن عبد العالي روّح الله روحه” في رسالته التي كتبها في باب المتعة).
جس نے ایک دفعہ متعہ کیا اس نے اپنا تیسرا حصہ آگ سے چھڑا لیا ، جس نے دو دفعہ متعہ کیا اس نے اپنے دو تہائی آگ سے آزاد کرا لیا ، اور جس نے تین دفعہ متعہ کیا اس نے خود کو مکمل طور پر آگ سے آزاد کرا لیا ،،
قال النبي صلى الله عليه وسلم: ((من تمتع مرة أمن من سخط الجبار ومن تمتع مرتين حشر مع الأبرار ومن تمتع ثلاث مرات زاحمني في الجنان)) ("تفسير منهج الصادقين” 2/ 493).
نبئ کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ایک دفعہ متعہ کیا وہ جبار کے قہر سے امن میں آ گیا ، اور جس نے دو دفعہ کیا وہ ابرار کے ساتھ اٹھے گا اور جس نے تین بار کیا وہ میرے مقابلے کی جنت میں ھو گا ،،( نقلِ کفر کفر نہ باشد )
، فيفترون على نبي الله الطاهر المطهر صلوات الله وسلامه عليه أنه ﷺ قال: ((من تمتع مرة كان درجته كدرجة الحسين عليه السلام – – ومن تمتع مرتين كان درجته كدرجة الحسن عليه السلام – – ومن تمتع ثلاث مرات كان درجته كدرجة علي بن أبي طالب عليه السلام ، ختن رسول الله وابن عمه – ومن تمتع أربع مرات فدرجته كدرجتي))("تفسير منهج الصادقين” 2/ 493) نبئ کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ایک دفعہ متع کیا وہ حسینؓ کے برابر درجہ پائے گا ، جس نے دو دفعہ کیا وہ حسنؓ کے برابر درجہ پائے گا ، جس نے تین دفعہ کیا وہ علیؓ کے برابر درجہ پائے گا ، اور جس نے چار دفعہ کیا اس کا درجہ میرے برابر ھو گا ( لعنت اللہ علی الکاذبین ) بخاری شریف کے راوی ” عبد الملك بن عبد العزيز بن جريج ابوخالدالمكي ” کا درجہ کوئی ناپ سکتا ھے جس نے حرم مکی کی حدود میں 70 متعے کئے ھیں ؟.
نبئ کریم ﷺ اور ائمہ معصومین کے ان اقوال کے بعد اس قول کی کوئی حیثیت نہیں رھتی کہ اھل نجف سمیت ھر علاقے کے شیعہ متعہ کو عیب سمجھتے ھیں اگرچہ حلال کہتے ھیں،
(( "الشيعة في كل مكان ترى المتعة عيباً وإن كانت حلالاً وليس كل حلال يفعل” (أعيان الشيعة للسيد محسن أمين ص159))
ائمہ کا اصلی موقف عین کتاب و سنت اور اقوالِ صحابہؓ کے مطابق ھے ، جو کچھ ان کے نام سے لکھا جاتا ھے وہ صرف افتراء ھے جو خواھشِ نفس کے غلاموں نے اپنی ھوس پوری کرنے کے لئے ائمہ ” معصومین ” کی طرف منسوب کر رکھا ھے ،،
يذكر الطوسي في كتابيه ( التهذيب 2/ 186) و ( الاستبصار 3/142) والحر العاملي في (وسائل الشيعة 14/ 441): عن زيد بن علي عن آبائه عن علي عليه السلام قال: حرّم رسول الله صلى اللّه عليه وسلم يوم خيبر لحوم الحُمُرِ الأهلية ونكاح المتعة. والعجيب أن الحر العاملي عقب على هذه الرواية قائلاً: حمله الشيخ ( يقصد الطوسي ) وغيره على التقية، يعني في الرواية، لأن إباحة المتعة من ضروريات مذهب الإِمامية. اهـ
طوسی اپنی دونوں کتابوں میں زید بن علی بن الحسینؓ کے واسطے سے روایت کرتے ھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم خیبر کو گدھے کا گوشت اور متعہ حرام قرار دیا تھا ،،
مگر حر العاملی اس روایت کا تعاقب کرتے ھوئے کہتا ھے کہ شیخ طوسی سمیت دیگر شارحین نے اس روایت کو حضرت علیؓ کا تقیہ قرار دیا ھے ،،، اس لئے متعہ شیعہ امامیہ کے نزدیک ضروریاتِ مذھب میں سے ھے ،،
روایاتِ ائمہ کی اس قسم کی تاویل نے خود شیعہ شارحین کو شکوک و شبہات کی وادی میں حیران و پریشان کر کے رکھ دیا ھے ، اس لئے کہ کوئی ایسا پیمانہ ایجاد نہیں کیا جا سکا کہ جس کے ذریعے ائمہ کے اقوال کو تقیئے سے الگ کر کے دیکھا جا سکے ، ان کے ھر اس قول کو تقیہ کہا جا سکتا ھے جو بعد کے شیعہ مراجع کے اختراع کردہ اصولوں کے خلاف ھو،، اذا دخل الاحتمال بطل الاستدلال ،، جب کسی بات پر اس کی ضد کا گمان ممکن ھو تو اس روایت سے استدلال باطل ھو جاتا ھے ،، جب ھر قول تقیہ ھو سکتا ھے تو پھر کسی قول کی بھی مصداقیت ایک سوالیہ نشان بن جاتی ھے ،اگر صحاح ستہ ائمہ معصومین کے اقوال سے اول تا اخر بھر بھی دی جاتیں تب بھی شیعہ ان کو اپنے اماموں کا تقیہ کہہ کر مسترد کر دیتے ، یہ تقیہ وہ بزدلی ھے جو ان لوگوں نے بعد میں اپنے جی دار ائمہ پر واجب کر دی ھے ،جو بڑی بڑی حکومتوں سے تو ڈرے نہیں ،مگر بعد والوں نے ڈر اور خوف ان کے مذھب کی ضروریات میں شامل کر دیا ،، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلفاء راشدین کے ساتھ تعاون کو بھی تقیہ کہا جاتا ھے ،، گویا وہ بطور تقیہ جان بچانے کے لئے خلفاء کی بیعت کر لیتے تھے اور دل میں ان کے خلاف بغض و عداوت رکھتے تھے ،، سمجھ نہیں لگتی کہ یہ شیرِ خدا اور” مشکل کشاء ” کی تعریف ھو رھی ھے یا توھین ،،، (( ، وفي ذلك يقول يوسف البحراني في كتابه ( الحدائق1/5 – 6 ): فلم يعلم من أحكام الدين على اليقين إلا القليل لامتزاج أخباره بأخبار التقيّة، كما اعترف بذلك محمد بن يعقوب الكليني في جامعه ( (الكافي) ).
جیسا کہ یوسف البحرانی اپنی کتاب الحدائق میں اعتراف کرتے ھیں کہ حقیقت یہ ھے کہ احکام دین کی بہت کم تعداد کو ھی یقینی کہا جا سکتا ھے کیونکہ روایات کی حقیقت اور تقیہ اس قدر گڈ مڈ ھو گئے ھیں کہ ان کو جدا کرنا بہت مشکل ھے ،،
وعن علي بن يقطين قال: سألت أبا الحسن عليه السلام عن المتعة فقال: ما أنت وذاك قد أغناك اللّه عنها،،،
علی بن یقطین بیان کرتے ھیں کہ میں نے ابا الحسن علیہ السلام سے متعہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ تجھے کیا لگے متعہ سے ؟ جبکہ اللہ نے تجھے ( نکاح کا حکم دے کر ) متعے سے بے نیاز کر دیا ھے ،،
شیعہ کے نزدیک امام جعفر صادق نے متعے کے جواز کے بارے میں سوال پر جواب دیا کہ ،،جس نے متعہ کیئے بغیر یہ دنیا چھوڑ دی اس نے رسول اللہ ﷺ خلال میں سے ایک خلہ ترک کر دیا ،، . والشيعة تزعم أن جعفراً الصادق رضي الله عنه قال: إني لأكره للرجل المسلم أن يخرج من الدنيا وقد بقيت عليه خلّة من خلال رسول اللّه صلى الله عليه وسلم لم يقضها . قال ذلك عندما سئل عن المتعة
جبکہ یہی امام صادق دوسری روایت میں اس کی مذمت کرتے ھیں اور فرماتے ھیں کہ ھمارے یہاں یہ فاحش عورتیں یعنی طوائفین کرتی ھیں کوئی شریف عورت اس کا ارتکاب نہیں کرتی ، نیز فرمایا کہ تمہیں حیاء نہیں آتی کہ اپنی شرمگاہ ان کے سامنے ننگی کر دیتے ھیں ،،
عن هشام بن الحكم عن أبي عبدالله عليه السلام قال: ما تفعلها عندنا إلا الفواجر ،،
ان دونوں روایتوں توافق کیسے پیدا کیا جا سکتا ھے سوائے اس کے کہ جب امام صاحب نے دوسرا فتوی دیا تو پاس کوئی اھلسنت بیٹھا ھوا تھا لہذا بطور تقیہ اس کے عقیدے کے مطابق فتوی دے دیا،،
اب جو احباب متعہ یا نیم متعہ یا چوتھائی متعہ کو اس دلیل کے ساتھ جائز قرار دینا یا دلوانا چاہتے ھیں کہ فواحش بہت زیادہ ھو گئے ھیِں وغیرہ وغیرہ ان سے گزارش ھے کہ کسی دوسرے بدن کو اس جنسی سہولت کے لئے جائز قرار دینے سے پہلے آپ مشت زنی کے جواز کی مہم چلا کر اسے علماء سے جائز قرار دلوایئے تا کہ فوری طبی امداد تو دستیاب ھو اور جو ھزاروں نوجوان اس علت کو گناہ سمجھ کر کرتے ھیں پھر ذھنی اور نفسیاتی مریض بن کر سوسائٹی میں الگ تھلگ زندگی گزارتے اور نامرد ھوتے جا رھے ھیں ، ان کے ضمیر سے گناہ کی خلش کم ھو اور وہ اس احساسِ جرم کے بوجھ تلے سے نکلیں ،، جو احباب یہ سمجھتے ھیں کہ متعہ اور نکاح میں فرق صرف تحدیدِ وقت کا ھے وہ پھر متعے سے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے ، متعے میں سوائے جسمانی تعلق اور فاعل و مفعول کی رضامندی سے طے کردہ قیمت کے سوا کچھ نہیں ھوتا ، نہ ولی ، نہ گواہ ، نہ طلاق ، نہ وراثت اور نہ تناسل ،، یہ سراسر عار ھے جیسا کہ خود شیعہ امامیہ میں ائمہ کے یہاں کی کسی عورت سے متعہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ عار ھے جس سے اھل بیت کو بچانا ھے ، جو لوگ اس عار کو خلیفہ راشد کے گھر کی طرف منسوب کرتے ھیں اللہ نے ان کے اس زعم کا سر اس طرح کچل کر رکھ دیا ھے کہ ان کے اپنے اصول کے مطابق متعہ میں طلاق نہیں ھوتی ” چونکہ طلاق کا تعلق نکاح کے ساتھ ھے ” متعہ مقررہ مدت کے بعد خود بخود ختم ھو جاتا ھے ،جس طرح کال گرل کا وقت ختم ھوتے ھی وہ پرس اٹھا کر چل نکلتی ھے ، اگر اس کو دائمی عہد میں تبدیل کیا جائے تو بھی متمتع کے پاس طلاق کا حق نہیں ھوتا ، موت کے ساتھ ھی جان چھوٹتی ھے جبکہ حضرت زبیرؓ نے حضرت اسماءؓ کو طلاق دے دی تھی اگر انہوں نے دائمی متعہ کیا ھوتا تو طلاق کا کیا کام تھا ؟