کیا عورت میں غیرت نہیں ھوتی ھے ؟
سوال یہ ھے کہ مرد تو غیرت کے نام پر قتل کر دیتے ھیں ،اگر بیوی سابقہ معاشقے کا ذکر کر دے تو آنکھ سے دیکھی مکھی نہیں نگلی جاتی کہہ کر طلاق دے دیتے ھیں ، البتہ عورت کے سامنے اپنی معشوقہ سے چیٹ کرتے رھتے ھیں اگرچہ وہ شادی شدہ اور بچوں والی ھو ، آج دو جوان بڑے جوش و خروش سے دلیل دے رھے ھیں کہ اگر عورت میں غیرت ھوتی تو اللہ مرد کو چار شادیوں کی اجازت نہ دیتا ،، قصور ان جوانوں کا نہیں بلکہ یہ دین کی مردانہ Interpretation ترجمانی کا شاخسانہ ھے ،،
اللہ پاک نے غزوہ احد کے بعد کی ھنگامی صورتحال سے نکلنے کے لئے اضطراری اقدام کے طور پر زیادہ عورتوں سے شادی کی اجازت دی تھی ، وہ بھی اس لئے کہ مرد لوگ جب بیواؤں اور یتیموں کی مدد کے نام پر آگے بڑھیں گے تو اسکینڈل بنیں گے ،نیتیں کسی کو نظر نہیں آتین منافقین طرح طرح کی باتیں بنا سکتے تھے جن کی وجہ سے ان خواتین کی حرمت پہ بھی حرف آتا اور مسلم سوسائٹی کا ماحول بھی خراب ھو جاتا ،، اب مردوں کو کہا گیا کہ وہ یتیموں کو اپنے زیرکفالت کرنے کے لئے ان کی ماؤں سے نکاح کر لیں ،، اس پر صحابہؓ کے دل میں آیا کہ ھم تو یہ نکاح فی سبیل اللہ مدد کے طور پر کر رھے ھیں کوئی اپنی شھوت کے لئے تو کر نہیں رھے لہذا ھمیں حق مہر معاف کیا جائے ، اللہ پاک نے یہ شرط ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ان کا حق مہر پورا اور خوش دلی کے ساتھ ادا کرو ، تم ان کی مدد ان کا حق مارنے سے شروع کر رھے ھو ،، اس کے ساتھ یہ بات واضح کر دی کہ اگر بیواؤں کی مدد کے نام پر پہلے سے بستا گھر اجڑنے کا خطرہ ھو تو بس ایک پر ھی گزارہ کرو ، کیونکہ عدل کی شرط کا مقصد ھی یہ تھا کہ دوسری شادی کی صورت میں پہلی والی بیوی میں تلخی پیدا ھونا لازمی ھے ، تم اس کی نفسیاتی حالت کا ادراک کرتے ھوئے اس سے ھمدردی اور شفقت کا سلوک کرنے اور عفو درگزر کا معاملہ کرنے کی بجائے پہلے سے فاصلہ رکھنا شروع کر دو گے اور دوسری کی طرف مائل ھو جاؤ گے ، دوسری شادی کے نتیجے میں پہلی بیوی میں پیدا ھو جانے والی غم و غصے کی کیفیت کو برداشت کر سکنے کی استطاعت اپنے اندر دیکھ کر ھی دوسری شادی کا فیصلہ کرو ،، اگر تم اپنے کو عاجز پاتے ھو کہ تمہارے اندر اتنی برداشت نہیں تو ” فواحدۃ ” پھر ایک ھی پر اکتفا کرو ،،
نبئ کریم ﷺ سے زیادہ انصاف کرنے والا بس اللہ ھی ھو سکتا ھے ،، اس کے باوجود آپ ﷺ کی ازواج میں آپس کی غیرت انتہائی شدید تھی ،، وہ باقاعدہ گروپ بنا کر توتکار کیا کرتی تھیں اور وہ بھی نبئ کریم ﷺ کے سامنے اور آپ مداخلت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کو خود ھی ایک دوسرے سے نمٹنے دیتے تھے ،(( ازواج النبی اور امت کی مائیں نامی کتابوں میں ان واقعات کی تفصیل دیکھی جا سکتی ھے ،اھل علم اس سے ناواقف نہیںمگر اکثر عوام کے رد عمل سے ڈر جاتے ھیں اور بیان نہیں کرتے ))
ایک گروپ حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت حفصہ وغیرہ پر مشتمل تھا جبکہ دوسرا ام سلمہؓ اور حضرت زینبؓ وغیرہ پر مشتمل تھا ،، حضرت زینب اور ام سلمہؓ والے گروپ کی طرف سے بات آئی کہ آپ ﷺ اپنے اصحاب کو کہیں کہ وہ ھماری باری والے دن بھی تحفے دیا کریں وہ لوگ صرف عائشہؓ کی باری والے دن تحفے دیتے ھیں جو حضرت عائشہؓ کے گھر ھی رہ جاتے ھیں کیونکہ نبئ کریم ﷺ کا اصول تھا کہ آپ کو جو چیز آپ کی جس زوجہ کے گھر دی جاتی آپ اس کو اسی زوجہ کے گھر چھوڑ دیتے تھے اور وھیں تشریف فرما ھوتے تو اس کو استعمال کرتے تھے یوں عدل قائم رھتا تھا ،، صحابہؓ حضورﷺ کی حضرت عائشہؓ سے محبت کو دیکھتے ھوئے کوشش کرتے تھے کہ اسی دن ھدیہ دیں جس دن حضرت عائشہؓ کے یہاں حضورﷺ تشریف فرما ھوں ،، جب یہ بحث طول پکڑ گئ تو آپ نے ازواج سے کہا کہ تم عائشہؓ کی ریس کہاں کہاں کرو گی مجھ پر وحی بھی عائشہؓ کے حجرے میں نازل ھوتی ھے تم میں سے کسی کے بستر پر مجھے وحی نازل نہیں ھوئی ، گویا آپ ﷺ نے فرمایا کہ پہلے اللہ کو تو راضی کرو اس بات پر جس پر تم میرے اصحاب کو راضی کرنا چاھتی ھو ،،
ازواج مطھرات رضوان اللہ علیہن کی آپس کی غیرت کی ڈھیر ساری مثالیں ھیں ، بطور عورت انہوں نے قیامت تک عورت کی نفسیات کا معیار قائم کر دیا ھے جسے تقدس کے نام پر ھمیشہ چھپانے کی سعی کی گئ ھے ،عورت انسان ھے اور مرد بھی انسان ھے اور ان کی نفسیات بھی ایک جیسی ھیں جو لوگ یہ سمجھتےھیں کہ عورت میں غیرت نہیں ھوتی یہ لوگ عورت کو انسان ھی نہیں سمجھتے ،،
ایک ام المومنینؓ فرماتی ھیں کہ صفیہؓ گوشت ھم سب سے زیادہ اچھا بناتی تھیں ، اور رسول اللہ ﷺ کی باری جس زوجہؓ کے یہاں بھی ھوتی وہ سالن وھاں بھیج دیتیں ، ایک دفعہ انہوں نے میرے باری والے دن سالن بھیجا اور میں نے غلام کے ہاتھ پر مار کر وہ سالن گرا دیا ،رکابی ٹوٹ گئ ، میں دیکھ رھی تھی کہ رسول اللہﷺ بوٹیاں چن کر ایک ٹوٹے ھوئے ٹکڑے میں جمع کر رھے تھے اور غلام سے کہہ رھے تھے کہ ” غارت امک ” تیری ماں نے غیرت کی ھے، تیری ماں نے غیرت کی ھے ، اس کے بعد آپ ﷺ نے مجھے کہا کہ رکابی دو ، میں نے رکابی پکڑائی تو آپ نے اس کو غلام کے ھاتھ میں دیا پھر فرمایا کہ اس حجرے کی بات اپنی ماں کو نہیں بتانی ،، ھے کوئی مائی کا لعل یہ برداشت کر سکنے والا ،، ھم میں سے کوئی ھوتا تو سیدھی سیدھی اپنی انسلٹ سمجھتا اور بیوی کو پکڑ لیتا اور اس کا کچومر نکال دیتا ،، مگر اللہ کے رسول ﷺ نے اس کو عورت کی غیرت کا فطری رد عمل سمجھا اور ڈانٹا تک نہیں اپنی زوجہ کو ،،،
ازواج مطھرات کے ایک گروپ نے حضرت فاطمہؓ کو سفیر بنا کر حضورﷺ کے پاس بھیجا کہ وہ حضرت عائشہؓ کے بارے میں حضورﷺ کو کچھ گوش گزار کریں دیگر ازواج کا شکوہ پہنچائیں ،، آپ ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کی بات بغور سنی اور فرمایا کہ اے میری لختِ جگر کیا تو اس سے محبت نہیں کرے گی جس سے تیرے بابا محبت کرتے ھوں ؟ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا کہ جی بابا جانی بالکل کرونگی ،، آپ ﷺ نے فرمایا پھر تو بھی عائشہؓ سے محبت کر ،، حضرت فاطمہؓ خاموشی سے واپس آ گئیں ، ازواج نے انہیں دوبارہ جانے کے لئے کہا تو انہوں نے معذرت کر لی کہ ابا جی کی اس بات کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئ ،،
ایک ام المومنین حضرت عائشہؓ کے گھر تشریف لائیں تو رسول اللہ ﷺ وھیں تشریف رکھتے تھے انہوں رسول اللہ ﷺ سے گلہ کیا کہ وہ حضرت عائشہؓ سے زیادہ محبت کرتے ھیں جس کی وجہ سے وہ کچھ زیادہ ھی مغرور ھو گئ ھیں اور حضرت عائشہؓ کے بارے میں بہت کچھ کہا ،، حضرت عائشہؓ فرماتی ھیں کہ میں کن اکھیوں سے رسول اللہﷺ کی طرف دیکھ رھی تھی کہ یا تو آپ ﷺ خود جواب دیں ورنہ مجھے جواب دینے کی اجازت مرحمت فرمائیں ، جب دوسری زوجہ چپ نہ کیں تو اللہ کے رسولﷺ نے حضرت عائشہؓ کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ ، اب تم جواب دو ،،حضرت عائشہؓ فرماتی ھیں کہ میں جب شروع کیا تو زینبؓ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور تھوک ان کے منہ میں سوکھ کر رہ گیا ،، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ یہ صدیق کی بیٹی ھے ،،
ایک سفر میں ایک ام المومنینؓ کا اونٹ بیمار پڑ گیا جبکہ دوسری کے پاس دو اونٹ تھے ، رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اپنا اونٹ صفیہؓ کو دے دو ،، انہوں نے کہا کہ میں یہودی کی بچی کو اپنا اونٹ نہیں دے سکتی ،، اللہ کے رسول ﷺ اس بات پر سخت نارض ھو گئے اور کئ دن تک ناراض رھے یہانتک کہ ام المومنینؓ نے حضرت صفیہؓ کو اپنی باری دے کر گزارش کی کہ رسول اللہ ﷺ سے راضی نامہ کرا دو ،، جب حضرت صفیہؓ نے سفارش کی کہ آپ ام المومنین کو معاف کر دیں تو آپ ﷺ نے مسکرا کر فرمایا کہ اس سفارش کا ھدیہ کیا طے ھوا ھے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ اس نے اپنی باری مجھے دی ھے ،،
ایک دفعہ ایک ام المومنینؓ نے دوسری زوجہ مطھرہؓ کے بارے میں فرمایا کہ اس میں اور کوئی عیب نہ ھو تب بھی یہ کیا کم ھے کہ اس کا قد اتنا سا ھے اور ساتھ میں بالشت کا اشارہ کیا ،، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے ایسی بات کہہ دی ھے کہ اگر اس کو سمندر میں ڈالا جائے تو سارا سمندر کڑوا کر دے ،،
اسی طرح مرضِ وصال میں تمام ازواج رسول اللہ ﷺ کے گرد جمع تھیں کہ حضرت صفیہؓ نے رسول اللہ ﷺ کی تکلیف دیکھ کر فرمایا کہ ” کاش آپ کی یہ تکلیف مجھے مل جائے ” اس پر تمام ازواج نے آنکھوں ھی آنکھوں میں ایک دوسری کی طرف طنزیہ دیکھا ،، وہ اس کو حضرت صفیہؓ کا ٹھیک وقت پر بولا گیا ٹھیک ڈائیلاگ سمجھی تھیں ،، رسول اللہ ﷺ نے ان کا آنکھوں سے ایک دوسری کو اشارہ کرنا دیکھ لیا اور فرمایا کہ ” اللہ کی قسم وہ اپنی بات میں سچی ھے اگرچہ تمہیں یقین نہیں ”
اس کے علاوہ بھی کئ واقعات سیرت کی کتابوں میں محفوظ ھیں ،،
عورت میں دوسری عورت کے بارے میں ویسی ھی رقابت پائی جاتی ھے جیسا کہ ایک مرد کے اندر دوسرے مرد کے بیوی سے تعلق پر پیدا ھوتی ھے ، اگر عورت سماجی مجبوریوں کی وجہ سے اس کو برداشت کرتی ھے تو مرد پر دگنی ذمہ داری عائد ھوتی ھے کہ وہ اس کی اس تلخی کو اپنے کیئے کا نتیجہ سمجھے نہ کہ عورت کا جرم ،،اور اس نتیجے کا سامنا کرتے ھوئے عورت کی ھر کڑوی کسیلی بات کو ھنس کر ٹال دے اور دوسری بیوی کو صبر کی تلقین کرے کہ تمہیں برداشت کرنا ھو گا تم اس کے حق میں آ کر شریک ھوئی ھو ،صبر تم کو کرنا ھے اس نے تو بھڑاس نکالنی ھے ،،
اللہ پاک نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ھے کہ سوکناپے کی تلخی عورت کے بس کی بات نہیں بلکہ اس کی فطرت کا تقاضا ھے لہذا رحم کے رشتوں کو اس تلخی سے بچانے کے لئے دو بہنوں کی ایک مرد سے شادی حرام قرار دی ھے ،ورنہ لاجک کے تحت تو دو بہنیں آئیڈیل جوڑی بن سکتی تھیں کیونکہ وہ ایک دوسرے کی مزاج شناس ھوتی ھیں مگر اللہ جانتا ھے کہ سوکن بنتے ھی بہنوں کی محبت عداوت میں تبدیل ھو جائے گی ، اسی حکمت کو جانتے ھوئے اللہ کے رسول ﷺ نے رحم کے دیگر رشتے بھی ایک شوھر کے تحت جمع کرنا حرام قرار دے دیا ،، یعنی پھوپھی اور بھتیجی کا ایک شخص سے بیک وقت شادی کرنا ،، خالہ اور بھانجی کا ایک ھی شخص سے شادی کرنا ، اگر سوکن کا یہ رشتہ شیر وشکر ھو سکتا تو اللہ اور رسول ﷺ یہ پابندی نہ لگاتے ، یہ رشتہ ھی دشمنی کا رشتہ ھے ،،
سوال یہ ھے کہ مرد تو غیرت کے نام پر قتل کر دیتے ھیں ،اگر بیوی سابقہ معاشقے کا ذکر کر دے تو آنکھ سے دیکھی مکھی نہیں نگلی جاتی کہہ کر طلاق دے دیتے ھیں ، البتہ عورت کے سامنے اپنی معشوقہ سے چیٹ کرتے رھتے ھیں اگرچہ وہ شادی شدہ اور بچوں والی ھو ، آج دو جوان بڑے جوش و خروش سے دلیل دے رھے ھیں کہ اگر عورت میں غیرت ھوتی تو اللہ مرد کو چار شادیوں کی اجازت نہ دیتا ،، قصور ان جوانوں کا نہیں بلکہ یہ دین کی مردانہ Interpretation ترجمانی کا شاخسانہ ھے ،،
اللہ پاک نے غزوہ احد کے بعد کی ھنگامی صورتحال سے نکلنے کے لئے اضطراری اقدام کے طور پر زیادہ عورتوں سے شادی کی اجازت دی تھی ، وہ بھی اس لئے کہ مرد لوگ جب بیواؤں اور یتیموں کی مدد کے نام پر آگے بڑھیں گے تو اسکینڈل بنیں گے ،نیتیں کسی کو نظر نہیں آتین منافقین طرح طرح کی باتیں بنا سکتے تھے جن کی وجہ سے ان خواتین کی حرمت پہ بھی حرف آتا اور مسلم سوسائٹی کا ماحول بھی خراب ھو جاتا ،، اب مردوں کو کہا گیا کہ وہ یتیموں کو اپنے زیرکفالت کرنے کے لئے ان کی ماؤں سے نکاح کر لیں ،، اس پر صحابہؓ کے دل میں آیا کہ ھم تو یہ نکاح فی سبیل اللہ مدد کے طور پر کر رھے ھیں کوئی اپنی شھوت کے لئے تو کر نہیں رھے لہذا ھمیں حق مہر معاف کیا جائے ، اللہ پاک نے یہ شرط ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ان کا حق مہر پورا اور خوش دلی کے ساتھ ادا کرو ، تم ان کی مدد ان کا حق مارنے سے شروع کر رھے ھو ،، اس کے ساتھ یہ بات واضح کر دی کہ اگر بیواؤں کی مدد کے نام پر پہلے سے بستا گھر اجڑنے کا خطرہ ھو تو بس ایک پر ھی گزارہ کرو ، کیونکہ عدل کی شرط کا مقصد ھی یہ تھا کہ دوسری شادی کی صورت میں پہلی والی بیوی میں تلخی پیدا ھونا لازمی ھے ، تم اس کی نفسیاتی حالت کا ادراک کرتے ھوئے اس سے ھمدردی اور شفقت کا سلوک کرنے اور عفو درگزر کا معاملہ کرنے کی بجائے پہلے سے فاصلہ رکھنا شروع کر دو گے اور دوسری کی طرف مائل ھو جاؤ گے ، دوسری شادی کے نتیجے میں پہلی بیوی میں پیدا ھو جانے والی غم و غصے کی کیفیت کو برداشت کر سکنے کی استطاعت اپنے اندر دیکھ کر ھی دوسری شادی کا فیصلہ کرو ،، اگر تم اپنے کو عاجز پاتے ھو کہ تمہارے اندر اتنی برداشت نہیں تو ” فواحدۃ ” پھر ایک ھی پر اکتفا کرو ،،
نبئ کریم ﷺ سے زیادہ انصاف کرنے والا بس اللہ ھی ھو سکتا ھے ،، اس کے باوجود آپ ﷺ کی ازواج میں آپس کی غیرت انتہائی شدید تھی ،، وہ باقاعدہ گروپ بنا کر توتکار کیا کرتی تھیں اور وہ بھی نبئ کریم ﷺ کے سامنے اور آپ مداخلت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کو خود ھی ایک دوسرے سے نمٹنے دیتے تھے ،(( ازواج النبی اور امت کی مائیں نامی کتابوں میں ان واقعات کی تفصیل دیکھی جا سکتی ھے ،اھل علم اس سے ناواقف نہیںمگر اکثر عوام کے رد عمل سے ڈر جاتے ھیں اور بیان نہیں کرتے ))
ایک گروپ حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت حفصہ وغیرہ پر مشتمل تھا جبکہ دوسرا ام سلمہؓ اور حضرت زینبؓ وغیرہ پر مشتمل تھا ،، حضرت زینب اور ام سلمہؓ والے گروپ کی طرف سے بات آئی کہ آپ ﷺ اپنے اصحاب کو کہیں کہ وہ ھماری باری والے دن بھی تحفے دیا کریں وہ لوگ صرف عائشہؓ کی باری والے دن تحفے دیتے ھیں جو حضرت عائشہؓ کے گھر ھی رہ جاتے ھیں کیونکہ نبئ کریم ﷺ کا اصول تھا کہ آپ کو جو چیز آپ کی جس زوجہ کے گھر دی جاتی آپ اس کو اسی زوجہ کے گھر چھوڑ دیتے تھے اور وھیں تشریف فرما ھوتے تو اس کو استعمال کرتے تھے یوں عدل قائم رھتا تھا ،، صحابہؓ حضورﷺ کی حضرت عائشہؓ سے محبت کو دیکھتے ھوئے کوشش کرتے تھے کہ اسی دن ھدیہ دیں جس دن حضرت عائشہؓ کے یہاں حضورﷺ تشریف فرما ھوں ،، جب یہ بحث طول پکڑ گئ تو آپ نے ازواج سے کہا کہ تم عائشہؓ کی ریس کہاں کہاں کرو گی مجھ پر وحی بھی عائشہؓ کے حجرے میں نازل ھوتی ھے تم میں سے کسی کے بستر پر مجھے وحی نازل نہیں ھوئی ، گویا آپ ﷺ نے فرمایا کہ پہلے اللہ کو تو راضی کرو اس بات پر جس پر تم میرے اصحاب کو راضی کرنا چاھتی ھو ،،
ازواج مطھرات رضوان اللہ علیہن کی آپس کی غیرت کی ڈھیر ساری مثالیں ھیں ، بطور عورت انہوں نے قیامت تک عورت کی نفسیات کا معیار قائم کر دیا ھے جسے تقدس کے نام پر ھمیشہ چھپانے کی سعی کی گئ ھے ،عورت انسان ھے اور مرد بھی انسان ھے اور ان کی نفسیات بھی ایک جیسی ھیں جو لوگ یہ سمجھتےھیں کہ عورت میں غیرت نہیں ھوتی یہ لوگ عورت کو انسان ھی نہیں سمجھتے ،،
ایک ام المومنینؓ فرماتی ھیں کہ صفیہؓ گوشت ھم سب سے زیادہ اچھا بناتی تھیں ، اور رسول اللہ ﷺ کی باری جس زوجہؓ کے یہاں بھی ھوتی وہ سالن وھاں بھیج دیتیں ، ایک دفعہ انہوں نے میرے باری والے دن سالن بھیجا اور میں نے غلام کے ہاتھ پر مار کر وہ سالن گرا دیا ،رکابی ٹوٹ گئ ، میں دیکھ رھی تھی کہ رسول اللہﷺ بوٹیاں چن کر ایک ٹوٹے ھوئے ٹکڑے میں جمع کر رھے تھے اور غلام سے کہہ رھے تھے کہ ” غارت امک ” تیری ماں نے غیرت کی ھے، تیری ماں نے غیرت کی ھے ، اس کے بعد آپ ﷺ نے مجھے کہا کہ رکابی دو ، میں نے رکابی پکڑائی تو آپ نے اس کو غلام کے ھاتھ میں دیا پھر فرمایا کہ اس حجرے کی بات اپنی ماں کو نہیں بتانی ،، ھے کوئی مائی کا لعل یہ برداشت کر سکنے والا ،، ھم میں سے کوئی ھوتا تو سیدھی سیدھی اپنی انسلٹ سمجھتا اور بیوی کو پکڑ لیتا اور اس کا کچومر نکال دیتا ،، مگر اللہ کے رسول ﷺ نے اس کو عورت کی غیرت کا فطری رد عمل سمجھا اور ڈانٹا تک نہیں اپنی زوجہ کو ،،،
ازواج مطھرات کے ایک گروپ نے حضرت فاطمہؓ کو سفیر بنا کر حضورﷺ کے پاس بھیجا کہ وہ حضرت عائشہؓ کے بارے میں حضورﷺ کو کچھ گوش گزار کریں دیگر ازواج کا شکوہ پہنچائیں ،، آپ ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کی بات بغور سنی اور فرمایا کہ اے میری لختِ جگر کیا تو اس سے محبت نہیں کرے گی جس سے تیرے بابا محبت کرتے ھوں ؟ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا کہ جی بابا جانی بالکل کرونگی ،، آپ ﷺ نے فرمایا پھر تو بھی عائشہؓ سے محبت کر ،، حضرت فاطمہؓ خاموشی سے واپس آ گئیں ، ازواج نے انہیں دوبارہ جانے کے لئے کہا تو انہوں نے معذرت کر لی کہ ابا جی کی اس بات کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئ ،،
ایک ام المومنین حضرت عائشہؓ کے گھر تشریف لائیں تو رسول اللہ ﷺ وھیں تشریف رکھتے تھے انہوں رسول اللہ ﷺ سے گلہ کیا کہ وہ حضرت عائشہؓ سے زیادہ محبت کرتے ھیں جس کی وجہ سے وہ کچھ زیادہ ھی مغرور ھو گئ ھیں اور حضرت عائشہؓ کے بارے میں بہت کچھ کہا ،، حضرت عائشہؓ فرماتی ھیں کہ میں کن اکھیوں سے رسول اللہﷺ کی طرف دیکھ رھی تھی کہ یا تو آپ ﷺ خود جواب دیں ورنہ مجھے جواب دینے کی اجازت مرحمت فرمائیں ، جب دوسری زوجہ چپ نہ کیں تو اللہ کے رسولﷺ نے حضرت عائشہؓ کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ ، اب تم جواب دو ،،حضرت عائشہؓ فرماتی ھیں کہ میں جب شروع کیا تو زینبؓ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور تھوک ان کے منہ میں سوکھ کر رہ گیا ،، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ یہ صدیق کی بیٹی ھے ،،
ایک سفر میں ایک ام المومنینؓ کا اونٹ بیمار پڑ گیا جبکہ دوسری کے پاس دو اونٹ تھے ، رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اپنا اونٹ صفیہؓ کو دے دو ،، انہوں نے کہا کہ میں یہودی کی بچی کو اپنا اونٹ نہیں دے سکتی ،، اللہ کے رسول ﷺ اس بات پر سخت نارض ھو گئے اور کئ دن تک ناراض رھے یہانتک کہ ام المومنینؓ نے حضرت صفیہؓ کو اپنی باری دے کر گزارش کی کہ رسول اللہ ﷺ سے راضی نامہ کرا دو ،، جب حضرت صفیہؓ نے سفارش کی کہ آپ ام المومنین کو معاف کر دیں تو آپ ﷺ نے مسکرا کر فرمایا کہ اس سفارش کا ھدیہ کیا طے ھوا ھے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ اس نے اپنی باری مجھے دی ھے ،،
ایک دفعہ ایک ام المومنینؓ نے دوسری زوجہ مطھرہؓ کے بارے میں فرمایا کہ اس میں اور کوئی عیب نہ ھو تب بھی یہ کیا کم ھے کہ اس کا قد اتنا سا ھے اور ساتھ میں بالشت کا اشارہ کیا ،، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے ایسی بات کہہ دی ھے کہ اگر اس کو سمندر میں ڈالا جائے تو سارا سمندر کڑوا کر دے ،،
اسی طرح مرضِ وصال میں تمام ازواج رسول اللہ ﷺ کے گرد جمع تھیں کہ حضرت صفیہؓ نے رسول اللہ ﷺ کی تکلیف دیکھ کر فرمایا کہ ” کاش آپ کی یہ تکلیف مجھے مل جائے ” اس پر تمام ازواج نے آنکھوں ھی آنکھوں میں ایک دوسری کی طرف طنزیہ دیکھا ،، وہ اس کو حضرت صفیہؓ کا ٹھیک وقت پر بولا گیا ٹھیک ڈائیلاگ سمجھی تھیں ،، رسول اللہ ﷺ نے ان کا آنکھوں سے ایک دوسری کو اشارہ کرنا دیکھ لیا اور فرمایا کہ ” اللہ کی قسم وہ اپنی بات میں سچی ھے اگرچہ تمہیں یقین نہیں ”
اس کے علاوہ بھی کئ واقعات سیرت کی کتابوں میں محفوظ ھیں ،،
عورت میں دوسری عورت کے بارے میں ویسی ھی رقابت پائی جاتی ھے جیسا کہ ایک مرد کے اندر دوسرے مرد کے بیوی سے تعلق پر پیدا ھوتی ھے ، اگر عورت سماجی مجبوریوں کی وجہ سے اس کو برداشت کرتی ھے تو مرد پر دگنی ذمہ داری عائد ھوتی ھے کہ وہ اس کی اس تلخی کو اپنے کیئے کا نتیجہ سمجھے نہ کہ عورت کا جرم ،،اور اس نتیجے کا سامنا کرتے ھوئے عورت کی ھر کڑوی کسیلی بات کو ھنس کر ٹال دے اور دوسری بیوی کو صبر کی تلقین کرے کہ تمہیں برداشت کرنا ھو گا تم اس کے حق میں آ کر شریک ھوئی ھو ،صبر تم کو کرنا ھے اس نے تو بھڑاس نکالنی ھے ،،
اللہ پاک نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ھے کہ سوکناپے کی تلخی عورت کے بس کی بات نہیں بلکہ اس کی فطرت کا تقاضا ھے لہذا رحم کے رشتوں کو اس تلخی سے بچانے کے لئے دو بہنوں کی ایک مرد سے شادی حرام قرار دی ھے ،ورنہ لاجک کے تحت تو دو بہنیں آئیڈیل جوڑی بن سکتی تھیں کیونکہ وہ ایک دوسرے کی مزاج شناس ھوتی ھیں مگر اللہ جانتا ھے کہ سوکن بنتے ھی بہنوں کی محبت عداوت میں تبدیل ھو جائے گی ، اسی حکمت کو جانتے ھوئے اللہ کے رسول ﷺ نے رحم کے دیگر رشتے بھی ایک شوھر کے تحت جمع کرنا حرام قرار دے دیا ،، یعنی پھوپھی اور بھتیجی کا ایک شخص سے بیک وقت شادی کرنا ،، خالہ اور بھانجی کا ایک ھی شخص سے شادی کرنا ، اگر سوکن کا یہ رشتہ شیر وشکر ھو سکتا تو اللہ اور رسول ﷺ یہ پابندی نہ لگاتے ، یہ رشتہ ھی دشمنی کا رشتہ ھے ،،