ڈاکٹر قدیر صاحب کے ساتھ کون ھے جو مخلص نہیں، ان کے ساتھ جو کچھ ھوا اس میں بیس کروڑ عوام یا مسلمان قوم کا کوئی ھاتھ نہیں، یہ کیوں اور کس مہذب دنیا کی ایما پر ھوا، آپ کو سب معلوم ھے، یہی کچھ ماضی میں ھوتا تھا
بہر حال پیش خدمت ھیں وہ سائنس اور فلسفی دنیا کے روشن ستارے جو مسلمانوں نے نہیں مارے تھے
پچھلے چند سال میں ناسا کے 74 سائنسدان پراسرار موت مارے گئے ھیں، ان میں اکثریت مائیکروبیالوجسٹ اور آسٹرونومرز کی ھے، ان بندوں کی موت کو پراسرار اس لئے کہا جا رھا ھے کہ جب بھی کسی نے کوئی خاص اچیومنٹ کی ھے اس کے بعد وہ زندہ نہیں رھا اسی طرح پچھلے چند سالوں میں انڈیا کے بھی دس کے قریب ایٹمی سائنسدان پراسرار موت مرے ھیں، برطانیہ کا ایلین ٹورنگ ابھی کل کی بات ھے
ماضی کے یورپی مذھبی ادارے نے سائنسدانوں کے خلاف باقائدہ ایک قسم کی جنگ شروع کر رکھی تھی جن کے نظریات مذھبی عقائد سے ٹکراتے تھے، انہوں نے ایک فہرست بھی جاری کر رکھی تھی جن سائنسی کتابوں کو پڑھنا ممنوع قرار دیا گیا تھا، اس جنگ میں نقصان سراسر سائنسدانوں کا ھی ھوا
برونو، نکولس اور گلیلیو کی کتابیں بین ھوئیں، ان تینوں کا نظریہ ایک ھی تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ھے، نکولس اپنی کتاب آنے کے کچھ عرصے بعد فوت ھوگیا لیکن گلیلیو کو دھر لیا گیا، اس کا جرم یہ بتایا گیا کہ یہ نظریہ مذھب کے خلاف ھے اس کا مطلب یہ کہ دراصل تم ھمارے مذھب کو غلط کہہ رھے ھو جو گناہ ھے، گلیلیو نے معزرت کرلی تو اسے اس کے گھر میں عمر بھر نظربند رکھا گیا لیکن برونو کو جلا دیا گیا
مذھب اور سائینس کی مخالفت کے پیش نظر 1603 میں ایک فاونڈیشن بنایا گیا جسے 1936 میں دوبارہ منظم کیا گیا تاکہ سائنس اور مذھب کے تعلقات بہتر رھیں، اس کے باوجود موجودہ ٹاپ کلاس مذھبی لیڈر نے اسٹیم سیل ریسرچ کی مخالفت کی ھے جو مختلف امراض پر قابو پانے کیلئے کی جا رھی ھے ان کے بیانات اور تازہ مخالفت بھی اخبارات میں موجود ھیں
ارشمیدس جو قدیم یونانی شہر سائراکاز کا رھنے والا تھا بلاشبہ اسے قدیم دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان گردانا جاتا ھے، ارشمیدس میتھمیٹیشئن، فزکسئین، انجیبئیرنگ اور آسٹرنومر ھونے کے ساتھ ساتھ اسلحہ ڈیزائنر بھی تھا، اس کے دفاعی سسٹم کی وجہ سے رومی فوج سائراکاز کو طویل مدت تک فتح نہ کرسکی اور محاصرے پر مجبور رھی، جب ایک غدار کی بدولت فتح حاصل ھوئی تو رومن کمانڈر کے حکم پر اس کے سپاھی نے ارشمیدس کو 212 قبل مسیح میں مار دیا، سقراط کو بھی مسلمانوں نے نہیں مارا تھا
قدیم الیگزینڈریا مصر کی خاتون ریسرچر Hypatia جو ایک فلاسفر Theon کی بیٹی تھی اسے 415 عیسوی میں 45 سال کی عمر میں مذھبی بلوائیوں نے مار ڈالا، اس پر الزام تھا کہ وہ گورنر اور مذھبی لیڈرشپ کے درمیان مذھبی جھگڑے میں گورنر کی طرفدار تھی، یہ خاتون افلاطون کے ادارے سے فاضل تھی اور اس نے فلسفے کی کئی نئی جہتیں متعین کیں، لوگ دور دور سے اس کے پاس علم حاصل کرنے آتے تھے، اس خاتون کی بہت اعلٰی لائبریری بھی جلا دی گئی
سائنسدان، پروفیسر اور آسٹرونومر سیکو ڈی اسکولی Cecco d’Ascoli کو مذھبی قیادت نے 1327 میں اس لئے، برنٹ الائیو، مار دیا کہ اس نے 500 قبل مسیح کا قدیم یونانی جیولوجیکل فلسفہ پھر دھرایا تھا کہ زمین گول ھے
اسپین کا ایک سائینسدان Michael Servetus جس نے اپنی کتاب میں پہلی بار دل اور پھیپھڑوں میں دوران خون pulmonary blood circulation کا نظام بیان کیا، اس کے علاوہ اناٹومی اور میڈیسن میں بھی گرانقدر کام کیا لیکن اس نے ٹرینیٹی اور بچوں میں بپتسمہ کا انکار کیا تھا اس لئے مذھبی لیڈرشپ کے فتووں کی بنیاد پر اسے 1553 میں بیالیس سال کی عمر میں جنیوا سوئیٹزرلینڈ میں زندہ جلا دیا گیا، اس کی لکھی کتابیں بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر تلف کر دی گئیں
روم کے سائینسدان Giordano Bruno کا جرم بھی گلیلیو جیسا تھا، جو کوپرنیکن ویو کو سپورٹ کرتے تھے، اس کا بھی یہی کہنا تھا کہ زمین کائنات کا مرکزی نقطہ نہیں ھے، زمین سورج کے گرد گھومتی ھے اور دوردراز کے ستاروں کا اپنا مدار ھے، مزید یہ کہ کائنات کا کوئی کنارہ نہیں ھے یہ لامحدود حد تک وسیع ھے اور اس کا کوئی مرکز نہیں ھے، یہ سات سال تک قید رھا پھر مذھبی لیڈرشپ کے حکم سے مذھب اور عقیدہ Trinity کا باغی قرار دے کر 1600 عیسوی میں 52 سال کی عمر میں روم کے اندر زندہ جلا دیا گیا، برونو پر اسی کے نام سے 1973 میں فلم بھی بنی تھی
سائنسدان مارکو انتونیو Marco Antonio کو 1624 میں روم میں اس لئے ٹارچر کرکے مار دیا گیا کہ اس نے لائٹ کے فینومینا پر اپنی تحقیقات پیش کی تھیں، مزید یہ کہ اس نے Rainbow کی ساخت پر اپنی سائنسی توجیحات بھی پیش کی تھیں
ھینری اولڈنبرگ Henry Oldenburg نے 1662 میں لندن میں رائل سوسائٹی کی بنیاد رکھی جس کا مقصد اعلٰی معیار کی سائنسی تحقیقات کو جمع اور شائع کرنا تھا اس مقصد کیلئے اس نے نیدرلینڈ اور اٹلی سمیت یورپ سے باھر کی دنیا سے خط و کتابت شروع کی، اس بھاری خط و کتابت کو دیکھ کر اسے جاسوس یا غدار سمجھ کردھر لیا گیا اور کئی ماہ تک ٹاور آف لندن میں قید رھا، پھر پتا نہیں چل سکا اس کے ساتھ آگے کیا ھوا
فرانس کے مشہور سائینسدان اور بابائے کیمسٹری لوگوں میں سے ایک شخصیت Antoine Lavoisier جس نے آکسیجن سلینڈر ایجاد کیا تھا، تھیوری آف کمبسشن، عناصر کے اوزان و کمپوزیشن، لاء آف کنورژن آف ماس اور کیمسٹری کے پیریوڈک ٹیبلز بھی سائنسی تاریخ میں پہلی بار اسی بندے نے مرتب کئے تھے، کیمیکل عناصر کی لسٹ بھی اسی نے مرتب کی تھی، اسی نے یہ دریافت کیا تھا کہ ھوا میں آکسیجن کی مقدار ۲۰ فیصد ھے اور آکسیجن ھی جلنے کے عمل میں کام آتی ھے
انٹونی لیوائزر ایک غریب آدمی تھا، اس کی قابلیت دیکھ کر ایک ڈیوک نے اسے اپنا داماد بنا لیا، اپنے کام اور ڈیوک کے داماد ھونے کی بنا پر یہ جلد ھی حکمران طبقے میں مقبول ھوگیا، پہلے اسے ریوینیو کلیکٹر لگا دیا گیا پھر حکمرانوں کی سپریم کونسل میں بھی شامل کرلیا گیا، انتونی نے اس دوران اپنی لیب قائم کی اور اپنا سائنسی کام بھی کرتا رھا، انقلاب فرانس میں جب حکمرانوں کا احتساب ھو رھا تھا تو اسے بھی دھر لیا گیا، یہ واحد بندہ تھا جس کو سزا دینے کے معاملے میں فرانسیسی عوام اور انقلابی کونسل دو دھڑوں میں بٹ گئی تھی، ایک طبقے کا کہنا تھا کہ آکسیجن سلنڈر کی ایجاد ایک انسانی خدمت ھے اس لئے اسے چھوڑ دیا جائے دوسرے طبقے کا کہنا تھا کہ یہ حکمرانوں کا ساتھی تھا اور اس نے بھی ناجائز فائدہ اٹھایا ھے لہذا انقلابی قانون کے مطابق مواخذہ ھونا چاھئے
بلآخر عدالت نے اسے باقیوں کی طرح عوام کے آگے ڈالنے کی بجائے یا بے دردی سے مارکر پھینکنے کی بجائے عزتدار سزا دینے کا فیصلہ کیا اور آٹھ مئی 1794 میں آکسیجن سلنڈر کے مؤجد اور بابائے کیمسٹری و ریاضی دان کو پچاس سال کی عمر میں گلوٹین گیس چیمبر میں دھکیل دیا گیا، انٹونی پر میرا دوسال پہلے کا ایک تفصیلی مضمون بھی میری وال پر موجود ھے
برٹش سائینسدان Henry Moseley لیفٹیننٹ کی حیثیت سے جنگ عظیم میں شرکت کرتے ھوئے اگست 1915 میں ستائیس سال کی عمر میں گلیپولی ترکی میں ھلاک ھوا، یہ حادثہ نہیں اس کا ذاتی شوق تھا لیکن غیر طبعی موت ھونے کی بنا پر تذکرے میں شامل کیا گیا ھے، ھینری نے کیمیکل کے عناصر کی شناخت اس کے پروٹون کی تعداد سے کرنے کا کلیہ وضع کیا تھا، کہا جاتا ھے کہ 1916 میں فزکس اور کیمسٹری میں کسی کو بھی نوبل پرائز نہیں ملا اگر ھینری زندہ ھوتا تو وہ ضرور کوالیفائی کر جاتا
جرمنی کے سائنسدان Gerhard Domagk جو پیتھالوجسٹ اور بیکٹیریالوجسٹ تھا، یہ وہ بندہ ھے جس کی بدولت آپ کو اینٹی بائیوٹک ادویات کمرشل بنیادوں پر دستیاب ھوئی، اسے 1939 میں میڈیسن کے شعبے میں نوبل پرائز کیلئے چنا گیا لیکن نازی حکومت نے اسے انعام لینے سے منع کر دیا، پھر گسٹاپو نے اسے زیرحراست لے لیا، جنگ کے بعد 1947 میں اس نے اپنا انعام وصول کرلیا لیکن معیاد گزرنے کی وجہ سے اسے وہ کیش نہ مل سکا جو نوبل پرائز کیساتھ ملتا ھے، یہ بندہ 1964 میں فوت ھوا لیکن زندگی میں استحصال اس کا بھی مقدر بنا
البرٹ Albert Einstein کو کون نہیں جانتا، یہ بھی جرمنی کا نان۔پریکٹیشنر یہودی تھا، ھٹلر جب پاور میں آیا تو آئنسٹائن کیلیفورنیا میں تھا، اسے جرمنی کی سائنس اکیڈمی کی ممبرشپ سے بیدخل کردیا گیا، جائداد ضبط کرلی گئی اور اس کی کتابوں کو جلا دیا گیا، ان حالات کی وجہ سے وہ پھر واپس نہیں آیا اور 1955 میں فوت ھوا، استحصال کی جدید دور میں قریبی مثال اور کیا ھو سکتی ھے
فرانس کے میتھیمیٹیشئین Evariste Galois کو بیس سال کی عمر میں گولی ماردی گئی جس نے میتھ کی گروپ تھیوری ایجاد کی، اس نے اپنی جان کو خطرے کے پیش نظر اپنا کام ایک دوست کے حوالے کر دیا تھا، جرمنی کے میتھمیٹیشئین ھرمن ویئل نے 1952 میں اس تھیوری کو گرانقدر کام قرار دیا
ایلن ٹورنگ alan turing انگلینڈ کا جینئیس ترین بندہ تھا، 1912 میں پیدا ھوا، میتھ، الوگرتھم، لوجک، کرپٹوگرافی کا ماھر اور بالاتفاق ماڈرن کمپیوٹر سائینس کا بانی تھا، جنگ عظیم میں جرمنی کے فوجی کوڈز ڈیصفر کرکے دیتا رھا، پھر ڈیکوڈنگ کی مشین بھی بنائی، آخری کام کمپیوٹر سائینس کی بنیاد رکھی، قصور صرف اتنا تھا کہ ایک لڑکے کیساتھ تعلقات تھے، اسی جرم میں اسے چوائس دیا گیا کہ جیل جاؤ یا کیمیکل کیسٹریشن کراؤ، اس نے دوسری بات قبول کرلی تاکہ آزاد رہ کر اپنا تحقیقی کام کرسکے مگر اس دوائی نے اس کی جنسی قوت بند کرنے کے ساتھ ساتھ سارے جسم میں رنگ برنگی بیماریاں پیدا کر دیں، دوسال اذیت اٹھانے کے بعد 1954 میں ایک دن اپنے گھر میں مردہ پایا گیا
اب کچھ گفتگو مذھبی مفادپرستی کی ھوجائے اس کے بعد مذھبی جنگوں کے بارے بھی کچھ چشم کشاء تفصیلات پیش ھوں گی
انڈلجینس ایک عقیدہ تھا کہ مذھب کے کرتا دھرتا لوگوں کو جہنم میں جلنے سے ڈراتے تھے، اس چیز کا جب لوگوں پر خاطرخواہ اثر دیکھا تو کچھ لیڈروں نے سوچا یہ امیر ھونے کا بہت اچھا طریقہ ھے اس لئے پرگیٹوری کے تحت سب نے خوب مال بنایا، یہ پریکٹیس پانچ سو سال سے زائد عرصہ تک جاری رھی پھر مارٹن لوتھر نے اس عقیدے کے خلاف پچانوے کے قریب تھیسس لکھے
ان موقع پرست مذھبی لیڈروں میں سب سے زیادہ مال بنانے والا Johann Tatzel تھا، لوتھر نے اسی کے نام یہ کپلیٹ لکھی تھی، جب بزرگ کے ڈبے میں سکہ کھنکتا ھے تو مرنے والے کی روح برزخ میں شاد ھوجاتی ھے
“As soon as a coin in the coffer rings، a soul from purgatory springs.”
پرگیٹوری کا عقیدہ یہ تھا کہ اگر مرنے والے کے لواحقین کچھ مال ھدیہ کریں تو مرنے والے کے گناھوں کی تطہیر ھو سکتی ھے، مذھبی لیڈر سالہا سال تک لوگوں سے اس عقیدے کے نام پر پیسہ بٹورتے رھے، tatzel جب سینئیر قیادت کے حکم پر دنیا بھر سے پیسہ اکٹھا کرنے اسی انڈلجینس کی مہم پر جرمنی پہنچا تو مارٹن لوتھر نے اسے آڑے ھاتھوں لیا، یہ کشیدگی بعد میں اتنی بڑھی کہ لوتھرازم ان لوگوں کی راہ میں ایک بھاری پتھر بن گیا اور نوبت جنگ و جدل تک پہنچ گئی، یہ عقیدہ ھمارے ھاں بھی ھے، جبھی مرنے والوں کے نام پہ رفاحی کام کئے جاتے ھیں لیکن کچھ مذھبی لوگ اس عقیدے سے آج بھی اپنے الو سیدھے کرلیتے ھیں
نائٹ ٹیمپلرز Knights Templers جسے عرف عام میں مذھبی سپاھی یا صلیبی قوت کہا جاتا ھے یہ وھی فورس ھے جو صلاح الدین ایوبیؒ کیساتھ لڑی تھی، یہ 1095 میں بنائی گئی اور 1291 میں ختم ھوئی، اس فورس کے پاس بہت دولت تھی، دوصدیوں تک حاوی رھنے والی اس فورس کے ساتھ اسپین کے کنگ فلپ چہارم اور اس کے حمائتیوں نے پورے یورپ میں کیا سلوک کیا تھا، صلیبی فوجوں کو ڈیزالوو کرنے کے بعد ٹارچر سیلوں میں انہیں لارج اسکیل پر کس قسم کی اذیتیں دی گئیں، اس جنگ کے ھیرو رچرڈ لائن ھارٹ، کنگ ھینری، کنگ فلپ اول دوم سوم چہارم وغیرہ نے کیا کچھ آپس میں کیا، صرف یہ تاریخ پڑھ لیں تو مسلمانوں کا آپس میں لڑنا بھڑنا آپ بھول جائیں گے
جان آف ارک Joan of Arc فرانس کی مذھبی خاتون تھی جس نے کہا کہ خدا نے اسے انگریزوں کو فرانس سے باھر نکالنے کیلئے منتخب کیا ھے، اس کا عروج 1429 میں ھوا، جب مذھبی عوام کی طرف سے مذھبی شورش بڑھ گئی تو اس کے خلاف تحقیقات شروع ھوئیں اور جب کوئی ٹھوس ثبوت نہ ملا تو فرانسیسی مذھبی لیڈر جو انگریزوں کا حمائتی تھا اس نے سزائے موت اس بنیاد پر سنائی کہ وہ مردوں جیسا لباس پہنتی ھے جو مزھب میں منع ھے، جان کو وکیل صفائی بھی نہیں دیا گیا اور آخری خواھش کے طور پر جب اس نے Holy Communion آخری خوراک کے طور مانگی تو انکار کر دیا گیا، پھر اسے زندہ جلا دیا گیا، یہ سب اس لئے کیا گیا تاکہ وہ سیدھی جہنم میں جائے، جان کی موت کے پچیس سال بعد سینٹ جانز کی والدہ کی ایماء پر کیس کو دوبارہ کھولا گیا، اپیل پر تحقیقات ھوئیں تو پتا چلا کہ جان نے کبھی بھی مردانہ لباس استعمال نہیں کیا اس پر پوپ نے اسے بیگناہ تو قرار دے دیا مگر آج تک اسے کینونائز نہیں کیا گیا، کیتھولک عقیدے میں کینونائز کا مطلب ھے کسی کو سینٹ قرار دینا
جان ھوز Jan Hus رومن مذھبی ادارے کا معتبر لیڈر تھا، اس نے کہا کہ ھمارا مذھبی ادارہ اب ایک انسانی ادارہ یا بیوپار بن چکا ھے اس کا اب خدا سے کوئی تعلق باقی نہیں رھا، اس نے مارٹن لوتھر کی طرح انڈلجینس کے خلاف بھی بولنا شروع کیا، یہ ایک لمبی داستان ھے جس کی بنا پر سب مذھبی اتھارٹیز اس کے خلاف ھوگئے، اسے اپنی آواز بند کرنے کا کہا گیا مگر وہ نہ مانا، 1415 میں جان ھوز کو برن ایٹ دی اسٹیک کی سزا سنادی گئی اور اسے بھی زندہ جلا دیا گیا
ولیم ٹینڈیل William Tyndale ایک معتبر مذھبی ذمے دار تھا، اس نے اپنی مذھبی کتاب کا آسان انگریزی میں ترجمہ کرنا چاھا تاکہ عام لوگ خود پڑھ سکیں لیکن اس کے مذھبی ادارے نے سختی سے منع کر دیا اس لئے کہ اس کام سے مذھبی قوت ادارے کے ھاتھ سے نکل جائے گی اور لوگ ادارے کے محتاج رھنے کی بجائے خود جاننے لگیں گے، ولیم نے کچھ عرصہ بیلجئیم اور کچھ جرمنی میں چھپ کر گزارا، اس دوران اپنا کام بھی مکمل کرلیا، مقدس کتاب کا ترجمہ چھپ کر یورپ کے سارے ملکوں میں جانے لگا، جب انگلینڈ پہنچا تو مذھبی لیڈروں نے سارے نسخے اکٹھے کرکے تلف کر دئے اور ولئیم کی تلاش شروع کی جو چند یارمار دوستوں کے ھاتھوں کامیاب ھوئی، ولئیم کو 1536 میں برسلز میں برن ایٹ دی اسٹیک یعنی باندھ کر زندہ جلا دیا گیا
سفید پہاڑ بوھیمیا کی مذھبی جنگ 1620 میں ھوئی جو ایک فیصلہ کن معرکہ تھا، یہ اس سیریز کا حصہ تھی جو 1524 سے شروع ھوئی اور 1648 تک چلی، جرمن پیزنٹ وار 1524-25 جو مارٹن لوتھر سے متاثر لوگوں نے مذھبی عناصر کے خلاف شروع کی، اس کا دوسرا فیز 1532-35 تک، سؤٹزرلینڈ کی بیٹل آف کیپل 1531, رومن ایمپائر کی شیملکالڈک وار 1546 اور اس کا دوسرا فیز 1552, فرانس کی مذھبی جنگ 1562, اسپینش فیوری 1572, کولون وار 1582-83, رومن ایمپائر کی تیس سالہ جنگ 1618-48 تک جس میں حبسبرگ، بوھیمیا، آسٹریا، فرانس، ڈنمارک اور سویڈن شامل تھے، تین بادشاھتوں کی جنگ 1639-51 جس میں انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ شامل تھے، 1688-98 تک کی مذھبی جنگ، ان تمام مذھبی اور اقتدار کی جنگوں میں جو ایک ھی قوم کے مذھبی اور سیاسی دھڑوں کے درمیان لڑی گئیں ان میں کروڑوں لوگ کام آئے، یہ کتھا رومن ایمپائر کے دور 380 سے شروع ھوتی ھے اور سترھویں صدی میں آکے ختم ھوتی ھے، ایک دانشور نے اس جنگی سیریز کے بارے میں یوں کہا ھے
“No wild beasts are so hostile to men as religious sects in general are to one another”
یہ سارا فینومینا صرف مذھب اور سائینس سے متعلق تھا، یورپ کی آپس میں اقتدار کی جنگوں کا حال ابھی بیان نہیں کیا، صلیبی جنگوں کے ھیرو رچرڈ شیردل کے ساتھ کیا ھوا تھا، ایک نظر دیکھ لیجئے گا کہیں، مزید کچھ جاننا ھو تو مارٹن لوتھر کی کتاب "جیوز اینڈ دئیر لائیز” پڑھ لیجئے، یا پھر "ھسٹری آف کونفلکٹس بیٹوین ریلیجن اینڈ سائینس” بائی جاھن ولئیم ڈریپر پڑھ لیں، یا پھر "دی وارفئیر آف سائینس ود تھیولوجی ” بائی انڈریو ڈکسن وائیٹ پڑھ لیں، آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی، ھوش بھی ٹھکانے آجائیں گے اور "پیتی ھوئی بھی لیہہ جائے گی”
صاحبو اور مصاحبو!
تاریخی بلنڈرز پر کسی ایک قوم کی اجارہ داری نہیں، غیر مسلموں اور ان کے مذاھب میں بھی یہ سب کچھ اسی مقدار اور اسی اسکیل پر موجود تھا جتنا مسلمانوں کے ھاں ملتا ھے، اس مضمون سے یہی ثابت کرنا مقصود ھے کہ استحصال کسی قوم یا مذھب کا خاصہ نہیں بلکہ یہ مفادپرست یا اناپرست ٹولے کا کارنامہ ھوتا ھے جو مذھب، سیاست یا قومیت کو اپنے مقاصد کیلئے اپنی ڈھال بناتے ھیں، اسی لئے میں بھی اپنے اس مضمون میں کسی قوم اور ان کے مذھب کو موردالزام نہیں ٹھہرا رھا، قوم اور مذھب میرے حساب سے اس الزام سے بلکل بری ھیں
میری اس توجیح کو آپ امیرخسروؒ کے اس بیان میں واضع طور پر دیکھ سکتے ھیں، امیرخسروؒ نے کئی بادشاھوں کے ساتھ کام کیا ھے وہ پاورپلے کی سائیکی کو بخوبی جانتے ھیں اور تاریخ پڑھنے والے بھی جانتے ھیں
خواجہ حسن نظامیؒ نے خواجہ نظام الدینؒ کی سوانح حیات "نظامی بنسری” میں امیر خسروؒ اور دکن کے شہزادے راجکمار ھردیو کے درمیان ھونے والا ایک مکالمہ درج کیا ھے جسے ھردیو نے اپنی کتاب "چہل روزہ” میں بھی بیان کیا تھا، "ھردیو تم نے شاید سنا ھو علاءالدین کے چچا جلال الدین خلجی نے ترک سلطنت کے آخری شہنشاہ معزالدین کیقباد کو جمنا دریا کے کنارے کیقباد کے قصر "کےلوک ھری” میں مار ڈالا تھا
میں کیقباد کا نوکر رہ چکا ھوں، اس نے جمنا کے کنارے عالی شان قصر بنایا تو مجھ سے کہا اس کا ایسا نام تجویز کرو جس میں میرا نام بھی آ جائے، میری بادشاھت کا ذکر اور خدا کا نام بھی آ جائے تو میں نے اس قصر کا نام "کےلوک ھری” تجویز کیا، لفظ "کے” میں کیقباد کا ذکر تھا، "لوک” میں اس کی بادشاھی کا اور "ھری” میں خدا کا ذکر تھا، اس طرح ایک نام مِیں مَیں نے تینوں باتیں جمع کیں، کیقباد بہت خوش ھوا اور اس نے مجھے بہت بڑا انعام بھی دیا
جلال الدین خلجی نے جب کیقباد کو مار کے بادشاھت سنبھالی تو سب امیر، وزیر، کوتوال، علماء اور قاضی نوکریوں سے برطرف، مفلس اور کنگا ھوگئے، وہ سب کم و بیش بارہ ھزار آدمی تھے، اس وقت دلی میں ایک بہت بڑے درویش سیّدی مولا نام کے رھتے تھے جن کی بابت مشہور تھا کہ ان کو دست غیب سے دولت ملتی ھے اس لیے وہ روزانہ ھزاروں آدمیوں کو اپنے دسترخوان پر کھانا کھلاتے تھے، ان کی اس مسافر نوازی کو سارا شہر جانتا تھا
یہ برخواست شدہ ھزاروں لوگ جب فاقہ کشی کو پہنچے تو انہوں نے بھی سیدی مولاؒ کی طرف رخ کیا اور کئی ماہ تک اس خانقاہ پر پلتے رھے، خلجی کے بیٹے ارکلی خان کو جب پتا چلا کہ وھاں حکومت کے خلاف سازش ھو رھی ھے تو ان پر لشکر کشی کر کے سب کو ختم کر دیا گیا، ان میں حضرت سیدی مولاؒ بھی شہید ھوئے، سیدی مولاؒ پر خصوصاً ھاتھی چھوڑا گیا، یہ بزرگ بابا فرید شکرگنجؒ کے خلیفہ اور نظام الدین اولیاءؒ کے پیر بھائی تھے” سیدی مولا پر میرا دوسال پہلے کا تفصیلی مضمون بھی میری وال پر موجود ھے
میں تاریخ کے ستم رسیدہ ایک ایک بندے کے گرد موجود ایسی وجوھات بتا سکتا ھوں لیکن بات بہت لمبی ھو جائے گی، اس تفصیل کی بجائے یہ نقطہ یاد رکھئے کہ تاریخ میں جب بھی کسی خاص شخصیت کے ساتھ ایسا سلوک ھوا تو اس کی وجوھات سیاسی اور مذھبی غلط فہمیوں یا سازشوں پر مبنی رھی ھیں، الرازی کے خلاف فتوٰی کس نے دیا تھا یہ پوری تفصیل کے ساتھ موجود ھے، مغرب میں بھی یہی کچھ ھوتا رھا ھے اور مسلمانوں میں بھی یہی کچھ ھوتا رھا ھے
سیانے کہتے ھیں کسی میراثی کا بچہ اپنی ماں سے لاڈیاں کر رھا تھا کہ ماں کو بھی اس پر پیار آگیا، فرمایا اماں جان نے مغلوب اپنے جزبات سے ھو کر کہ جا بچہ خدا تجھے تھانیدار لگوائے، بچے نے یہ دعا سنی اور تصور میں تھانیدار کی وردی پہنی تو اپنے آپ میں نہ رہ سکا، تھانیدار کی شان و شوکت اور رعب داب کا نشہ سر کو یوں چڑھا کہ سب مروت اور تہزیب بھول گیا، ھوش نہ رھا کہ سامنے کون ھے، پھر اس نے خمار تھانیداری میں مدھوش ھوکر اپنا پالیسی بیان یوں جاری کیا کہ اماں جی پھر تو بڑا مزا آئے گا جب میں روز تجھے پھینٹی لگایا کروں گا
ھمارے قلمی تھانیداروں کو جب ندرت خیالی کا خمار چڑھتا ھے تو ان کا پہلا ٹارگیٹ بھی اپنا ھی گھر اپنی ھی cast & creed ھوتا ھے، ایک طرف کہیں گے مسلمان سائنس سے دور رہ کر مفلوک الحال ھیں تو دوسری طرف یہ کہیں گے کہ مسلمانوں نے اپنے سائنسدانوں کو مار دیا اور تیسری طرف کہیں گے مسلمانوں کو سائنس پڑھنی چاھئے
صاحبو! جب مسلمان اپنے سائنسدانوں کے ساتھ برا سلوک کرتے ھیں تو ھمیں کس کتے نے کاٹا ھے کہ سائنس لازمی پڑھیں، ویسے ھمیں یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ آپ کونسی صراحی سے پیتے ھیں جو تین متضاد باتیں ایک ھی سانس میں بیان کر جاتے ھیں
لالہ صحرائی کے خوں فشاں قلم سے
=====================================================
#۱سلام #قرآن #قاری حنیف ڈآر