محبت اور حسد ،،

ابلیس کو زمین پر رب کی نیابت چاھئے تھی کیونکہ وہ صاحب ارادہ مخلوق تھا ،، اپنی عبادت اور تجربے کی وجہ سے وہ اس ویکنسی کا اکلوتا بلا مقابلہ امیدوار بنا بیٹھا تھا کہ آدم علیہ السلام کی تخلیق کا پراسیس شروع ھوا ،، یوں ابلیس کو آدم سے وھی جیلیسی محسوس ھوئی جو ایک بچے کو اپنے نئے مہمان سے ھوتی ھے کہ اب والدین کی ساری توجہ یہ لے جائے گا ،لہذا وہ اس بچے کو کبھی تو چپکے سے چٹکی کاٹ جاتا ھے ، آنکھ میں انگلی مار دیتا ھے ، اس کی چیز گرا دیتا ھے ،، ابلیس بھی انسان کے ساتھ وھی حرکتیں کر رھا ھے ،، پرانا بچہ لائم لائٹس میں رھنے کے لئے پیار نہ سہی مار کے ذریعے ھی اپنا وجود ثابت کرنا چاھتا ھے ، جب وہ اپنے چھوٹے کو جان بوجھ کر چھیڑتا اور مارتا ھے تو اسے معلوم ھوتا ھے کہ والدین اسے پیار نہیں کریں گے بلکہ اس کو گالیاں دیں گے ، ڈانٹیں گے اور ماریں گے ،مگر وہ والدین کی محبت میں ان کی توجہ پانے کے لئے اگرچہ وہ مار اور پھٹکار کی صورت میں کیوں نہ ھو اپنے آپ کو مجبور پاتا ھے ،، یہی حرکت یعقوب علیہ السلام کی محبت پانے کے لئے بھائیوں نے ہوسف کو کنوئیں میں ڈال کر کی تھی ،، الغرض ابلیس نے ایسی پالیسی اختیار کی کہ رھتی دنیا تک اس کا نام آدم علیہ السلام کے نام کے ساتھ آتا رھے گا ،، ھر آسمانی کتاب اس کے ذکر اور اس کے ڈراوے سے بھری ھوئی ھے ، ھر رسول اس کے بارے میں خبردار کرتے ھوئے مبعوث ھوتا ھے ، یوں اس نے آسمانی لٹریچر کو اپنے ذکر سے بھر دیا ھے ، اور ھمیشہ سے خبروں کی سرخیوں میں رھا ھے ،چاھے وہ خبریں قرآن میں ھوں یا تورات و انجیل میں ھوں ،، وہ انسان کی فلم کا طاقتور ولن ھے جس کے ھیرو آدم علیہ السلام ھیں ،، یہ رستہ پتہ نہیں اس نے کتنا سوچ سمجھ کر ، کتنا جمع تفریق کر کے ،اور نفع نقصان ناپ تول کر اختیار کیا ھے کہ اب اس پر پچھتاوے کی گنجائش بھی نہیں رکھتا ،، یہ بھی محبت کے سکے کا دوسرا رخ ھے کہ وہ اس عظیم ھستی کی توجہ پانے ، اس کے کلام میں اپنا نام سننے کے لئے گالیاں کھا کر ، پھٹکاریں کھا کر بھی خوش ھے – ( ادھر ھمارا حال یہ ھے کہ اللہ پاک فرماتا ھے ،فاذکرونی اذکرکم ” تم میرا ذکر کرو میں تمہارے تذکرے کرونگا ،گویا گیند ھمارے کورٹ میں ھے کہ ایسا نہیں ھے کہ رب جب چاھے تمہارا ذکر کرے ، بلکہ تم جب چاھو رب کا ذکر شروع کر دو اور رب تمہارا تذکرہ شروع کر دے گا ، تم انسانوں میں کرتے ھو وہ فرشتوں میں تمہارا تذکرہ کرتا ھے ، تم اس کے دربار میں زیرِ بحث آتے ھو ،، اور ھم بد نصیب غیبت ، چغلی ، گالی اور بدگوئی سے ھی فارغ نہیں ھوتے کہ رب کے تذکرے کریں )) اس حقیقت کو اقبال نے جبریل و ابلیس کے مکالمے میں بیان کیا ھے ،،
جبریل ،،،
ہمدمِ دیرینہ! کیسا ہے جہاں رنگ و بو؟
ابلیس ،،
سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو،،
جبریل ،،،،
ہر گھڑی افلاک پہ رہتی ہے تیری گفتگو،،،
کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاکِ دامن ہو رفو،،،
ابلیس –
آہ اے جبریل تو واقف نہیں اس راز سے ،،
کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو ،،
اب یہاں میری گزر ممکن نہیں ممکن نہیں ،،
کس قدر خاموش ہے یہ عالَمِ بے کاخ و کو ،،
جس کی نومیدی سے ہو سوز دروںِ کائنات ،،،
اس کے حق میں تَقنَطُوا اچھّا ہے یا لا تَقنَطُوا؟
جبریل –
کھو دئیے تو نے انکار سے مقاماتِ بلند ،،،
چشمِ یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو!
ابلیس –
ہے میری جُرات سے مشتِ خاک میں ذوقِ نمو،،،
میرے فتنے جامہِ عقل و خرد کا تار و پو،،،
دیکھتا ہےتو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر ،،،،
کون طوفان کے طمانچے کھا رہا ہے،میں کہ تو؟
خضر بھی بے دست و پا، الیاس بھی بے دست و پا ،،
میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا جُو بہ جُو ،،
گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے ،،،
قصہِ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو!
میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح ،،
تو فقط ،،،،،،،،،،، اللہ ہو،،،، اللہ ہو،،،،، اللہ ہو ،،،
=============================================
#۱سلام #قرآن #قاری حنیف ڈآر #محبت #حسد