ھلکا پھلکا ٹک ،،،
وہ سیاح تھا اور جنگلی حیات پہ تفصیلی مضامین لکھا کرتا تھا مگر آج مصیبت میں پھنس گیا تھا ،، پانی کہیں دور دور تک نہیں مل رھا تھا اور گرمی کی شدت میں پیاس کا یہ عالم تھا کہ گویا زبان چمڑا بن کر منہ سے چمٹ رھی تھی ، حلق سے تھوک نگلنا مشکل ھو رھا تھا وجہ یہ تھی کہ تھوک بھی خشک ھو گیا تھا ،، وہ بے سدھ ھو کر ایک درخت کے نیچے گر پڑا ،، اس درخت پہ ایک بندر بیٹھا تھا ، وہ تھوڑی دیر تک بغور اسے دیکھتا رھا اور پھر اسے سوتا سمجھ کر اس کے قریب آ بیٹھا اور اس کی چیزوں کی تلاشی شروع کر دی ، بندر کو دیکھ کر سیاح کو آئیڈیا سوجھا اور اس نے جھپٹ کر بےخبر بندر کو پکڑ لیا ،، اپنے پاس بچے ھوئے نمکین چنوں میں سے کچھ اس بندر کو کھلائے اور اسے چھوڑ دیا ،بندر ایک طرف بھاگا تو سیاح بھی اس کے پیچھے بھاگا ، کافی آگے جا کر بندر ایک پہاڑی پر چڑھا ،، پہاڑی کے اوپر ایک کافی بڑا سوارخ تھا بندر اس میں داخل ھوا تو سیاح بھی اس کے پیچھے اندر داخل ھو گیا ، نیچے اترتے اترتے اچانک سیاح نے دیکھا کہ صاف شفاف ٹھنڈے پانی کا چشمہ اس کے سامنے تھا جہاں بندر ندیدے پن سے پانی پی رھا تھا ،سیاح نے بھی پانی پیا اور کچھ اپنے فلاس میں بھر کر ساتھ بھی لے لیا !
لازمی نتیجہ ،،
اگر آپ کو کسی عالم سے کسی مسئلے میں ڈسکاؤنٹ لینی ھے تو اس عالم کو ویسی ھی صورتحال سے دو چار کر دو ، اور پھر اس کے پیچھے لگ جاؤ ان شاء اللہ ڈسکاؤنٹ سامنے نظر آ جائے گی ،، عام طور پہ ڈسکاؤنٹ کی تشھیر نہیں کی جاتی اور نہ تبلیغ کی جاتی ھے کہ کوئی آسان رستہ بھی ھے تا کہ لوگ آسانیوں پر ھی عمل شروع نہ کر دیں ،، ھم یہ جرم کر دیتے ھیں تو لوگ سمجھتے ھیں کہ ھم علماء کے خلاف لکھتے ھیں ،، جبکہ ھمیں معلوم ھے کہ آج کے حالات میں نوجوانوں کو دین سے جوڑ کر رکھنا بہت ضروری ھے اور اس کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ضروری ھے ،یرید اللہ بکم الیسر،، ولا یرید بکم العسر ،، اللہ تمہارے لئے آسانی چاھتا ھے اور وہ تمہارے لئے تنگی نہیں چاھتا ! یرید اللہ ان یخفف عنکم و خلق الانسانُ ضعیفاً،، اللہ تم پر تخفیف کرنا چاھتا ھے اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ھے ( تخفیف کا حقدار ھے،،،،
2- حج کے دوران پہلی دفعہ مقناطیسی ٹونٹیاں متعارف کروائی گئ تھیں ،، لوٹا نیچے کرو رو شرر شرر پانی بہنا شروع ، لوٹا ھٹایا تو پانی بند ،،ھاتھ نیچے تو پانی شروع ھاتھ ھٹا تو پانی بند ، سبحان اللہ ،گلوری بی ٹو اللہ ،،
12 ذی الحجہ کو شیطان کو فائنل کنکنریاں مار کر اس کی ھڈی پسلی ایک کر کے خیمے میں پہنچے کہ سامان اٹھا کر کوچ کریں ،، مگر انشا جی ھم سے پہلے ھی کُوچ کر گئے تھے ،، کیمپ کا معلم باھر مین گیٹ پر ھی سر پکڑے بیٹھا تھا ،، پوچھا کہ کیا ماجرا ھوا ،کہنے لگا حاجی ساری ٹونٹنیاں نکال کر لے گئے ھیں ،، حاجیوں نے سوچا ھو گا کہ مر گئے ھیں گھڑوں میں پانی بھر بھر کے ۔، ابھی گھر جا کر جادوئی ٹونٹی دیوار میں ٹھونک دیں گے اور پورا محلہ پانی پانی ھو جائے گا ،، معلم کے لئے بھی صدقہ جاریہ ھو جائے گا اور ھمارے سمیت پبلک کا بھی بھلا ھو جائے گا ،، ان بیچاروں کو نہیں پتہ تھا کہ اس ٹونٹنی کے پیچھے پورا سسٹم ھو تبھی کام کرتی ھے ،،،
ھم نے اسلامی بینکوں میں صرف اسلامی ٹونٹیاں لگائی ھوئی ھیں سسٹم پیچھے وھی ھے ،، اسی مالی نظام سے جڑے ھوئے ھیں جس کی مذمت کرتے ھیں ،وھی سیونگ اکاؤنٹس ھیں ، وھی انشورنس ھے ، وھی فکس ڈپازٹ ھے ،، وھی یہودی اور عیسائی شاپنگ نیٹ ورکس اسپینی کیئر فور سے شاپنگ پہ کیش بیک اسکیمیں ھیں ،، 3 ملین کی انعامی اسکیمیں ھیں ، اور ایک ٹکٹ میں دو شو ھیں ، اگرچہ ٹونٹی مسلمان ھے ٹینکی میں کتا موجود ھے ،،
ایک صاحب کی شکایت آئی کہ وہ بیوی کو مارے ھیں ،،،،،،،
پوچھا یار کیوں مارتے ھو ،، کہنے لگا نماز نہیں پڑھتی ،،
بیوی نے کہا کہ یہ خود بھی نہیں پڑھتا ،،،،،،،
کہا کہ یار خدا کا خوف کر جب تو خود نہیں پڑھتا تو پھر اس کو کیوں مارتا ھے،،
کہنے لگا کہ میری نماز کی سزا تو مجھ اکیلے کو ملنی ھے اس سے اس کو کیا تکلیف ھے ؟ جبکہ اس کی نماز کی پوچھ مجھ سے بھی ھو گی کہ تو نے کیوں نہیں پڑھائی لہذا مجھے اپنی نماز کے ساتھ اس کی نماز کے حصے کی پھینٹی بھی کھانی پڑے گی ، بس میں اسی پھینٹی کا نقد اس کو یہاں دے دیتا ھوں ،، علماء اپنے اضطرار کے خود ذمہ دار ھیں ،مگر وہ کہتے ھیں کہ ھم عوام کے اضطرار کا فتوی دے کر ان کے اضطرار کا بوجھ بھی کیوں اٹھائیں اور پھینٹی کھائیں،،