انسانی جان کی حرمت و توقیر !
اللہ پاک نے قرآنِ حکیم میں جہاں بھی بڑے گناھوں کا ذکر فرمایا ھے وھاں شرک کے فوراً بعد قتلِ نفس کو ضرور ذکر کیا ھے،، جہاں میں شرک سے منع کیا ھے وھیں ناحق انسانی جان لینے کو بھی حرام قرار دیا ھے ! ایک انسان کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ھے، اور ایک جان بچانے کو ساری انسانیت کو بچا لینے کے مترادف قرار دیا ھے ! اللہ پاک نے مسلمانوں کی ایک لشکری مہم میں ایک شخص کے کلمہ پڑھ لینے کے باوجود قتل کر دینے پر سورہ النساء میں جو رکوع نازل فرمایا ھے وہ دل دہلا دینے والا ھے، بات کو کچھ یوں اٹھایا ھے کہ مومن تو مومن کو قتل کر ھی نہیں سکتا سوائے اس کے کہ کوئی خطا سے مارا جائے،، یا مومن کو تو لائق ھی نہیں کہ وہ مومن کو مار دے سوائے اس کے کہ وہ خطا سے مر جائے ! پھر قتلِ عمد کا ذکر کیا ھے تو فرمایا ،،جو شخص مومن کو جان بوجھ کر قتل کرتا ھے تو اس کا بدلہ جہنم ھے جس میں وہ ھمیشہ پڑا رھے گا اور اللہ کا غضب ھوا اس پر اور اللہ نے لعنت کر دی اس پر اور اس کے لئے عظیم عذاب تیار کر رکھا ھے ! اے ایمان والو جب تم اللہ کی راہ میں نکلو تو خوب چھان پھٹک کر لیا کرو اور جو کہے کہ وہ مسلمان ھے تو تم اسے مت کہو کہ تم مسلم نہیں ھو !( النساء92،93،94 )
صلح حدیبیہ جب ھوئی جو کہ بظاھر دب کر کافروں کی شرائط پر کی گئ تھی،بعض مومنوں کے جذباتی رد عمل پر اللہ پاک نے فرمایا کہ” اگر کچھ ایسے مسلمان مکے والوں میں گڈ مڈ نہ ھوتے جن کو تم نہیں جانتے،، اور ناواقفی میں انہیں بھی قتل کر کے نقصان سے دو چار ھو جاتے تو ،، تمہیں فتح بھی دے دی جاتی،،( الفتح 25 )گویا وہ گمنام سے مسلمان اللہ کے نزدیک اتنے اھم تھے کہ ان کی خاطر اپنے رسول کے ھاتھوں "محمد رسول اللہ” کٹوا کر محمد بن عبداللہ لکھوا دیا مگر انسانی جانوں پر کمپرومائز نہیں کیا !
احادیث کی طرف آئیں تو امام ذھبی اپنی کتاب الکبائر میں شرک کے بعد دوسرا کبیرہ قتل نفس کو ھی لے کر آئے ھیں،، جس میں قرآنی آیات کے بعد متعدد احادیث میں اس شنیع فعل کی مذمت بیان کی ھے،، فرماتے ھیں،، نبی پاکﷺ کا فرمان ھے اللہ کی رحمت انسان کو ھر حال میں پا لیتی ھے،جب تک کہ وہ کسی کی ناحق جان نہ لے،، نیز کسی کو ناحق قتل کرنا اللہ کے نزدیک ساری دنیا کو تباہ کرنے سے بڑا جرم ھے،،روایت کیا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے قتل کے فیصلے کیئے جائیں گے، نیز بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت کے حوالے سے لکھا کہ،جس کسی نے غیر مسلم ذمی کو ناحق قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا اگرچہ جنت کی خوشبو کی لپٹیں 40 سال کے فاصلے تک جاتی ہے۔
(40 lightyears) !! تبصرے میں امام ذھبی فرماتے ھیں کہ اگر ذمی یہودی اور عیسائی کے ناحق قتل کی سزا یہ ھے تو مسلمان کے قتل کی سزا کیا ھو گی ؟؟
امام احمد روایت کرتے ھیں کہ جس نے کسی مسلم کے قتل میں ایک کلمے یا جملے کی مدد بھی کی( یعنی اس کے حق میں بات کی ) وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ھو گا ” آئیس من رحمۃ اللہ ” یہ بندہ اللہ کی رحمت سے مایوس ھے،محروم ھے ،،
امیر معاویہؓ سے روایت ھے کہ اللہ پاک ھر گناہ کو معاف فرما دیں گے سوائے شرک اور قتلِ ناحق کے !!
الغرض ان تمام وعیدوں کو پڑھ کر ایک سلیم الفطرت مسلمان تو کانپ کانپ جاتا ھے،مگر ھر زمانے میں کچھ مسخ الفطرت لوگ بھی رھے ھیں جنہوں نے قتلِ انسانی کو مشغلہ بنا لیا ،، اور بہانے بہانے سے خون کی ندیاں بہاتے رھے، اور یہ سب کچھ اسی اللہ کے نام پر کیا جاتا رھا جس نے اس فعل پر سخت غصے کا اظہار فرمایا !!
جہاد فی سبیل اللہ کے نام پر فساد فی سبیل اللہ !!
یہ وہ وائرس ھے جو اس امت کی ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ میں بار بار کہیں نہ کہیں ابھرتا رھا،، اپنا سائیکل مکمل کر کے پھر دب جاتا، امت کے مزاج نے کبھی اس کی پذیرائی نہیں کی،، یہ لوگ سمجھتے ھیں کہ اللہ اپنے بندوں کی گرفت کرنے سے عاجز آ گیا ھے لہذا انہیں انسانوں کی صفائی کا ٹھیکہ دیا گیا ھے کہ وہ معاشرے کو برے لوگوں سے صاف کر دیں،،
جب نبی کریمﷺ مکے میں تھے اور مسلمان روزانہ ستائے جا رھے تھے ،انہیں جان بوجھ کر نبیﷺ کے آنے جانے والے رستوں میں لٹا کر اذیت دی جاتی تا کہ نبیﷺ اپنی دعوت سے از آ جائیں،مگر نبی پاک ﷺ نے ان لوگں کو تو صبر کی تلقین فرمائی،،مگر کبھی یہ نہ سوچا کہ جفاکش غلاموں کا گینگ بنا کر قریشی سرداروں میں سے چند کو مروا دیا جائے تا کہ باقی کو عبرت ھو جائے،، اور وہ مسلمانوں کو ستانا چھوڑ دیں،، اس قسم کی زیرِ زمین سرگرمیاں نہ اسلام کا مزاج ھیں اور نہ ھے کسی حقیقی اسلامی جماعت کے اس طرح انڈر گراؤنڈ قاتل گروپ ھوتے ھیں !! حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے جب ایک کافر کے تھپڑ کے جواب میں تھپڑ مارا تو آپﷺ نے ان کو شاباش دینے کی بجائے الٹا ڈانٹ دیا اور فرمایا کہ اگر صبر نہیں کر سکتے تو یہاں سے چلے جاؤ،جب اللہ مجھے غلبہ عطا فرما دے گا تو واپس آ جانا،، !
بیعتِ عقبہ ثانیہ میں جب 70 مدنی انصار نے آپﷺ کی بیعت کی اور آپﷺ کو مدینے کی ھجرت کی دعوت دی تو ان میں سے عباس ابن عبادہؓ نے جو کہ سعد ابن عبادہؓ کے بھائی تھے فرمایا ‘والذی بعثک بالحقِ نبیاً لئن شئت لنمیلنَۜ غداً علی اھل منی بأسیافنا” اس ذات کی قسم جس نے اپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ھے، اگر آپﷺ اجازت دیں تو کل ھم اھل منی پر اپنی تلواروں سے ٹوٹ پڑیں؟ ،، آپﷺ نے نہایت وقار کے ساتھ جواب دیا،،لم نؤمـر بذالک،،، ھمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا،،یاد رھے ان 70 کو ملا کر مومنوں کی تعداد 313 سے زیادہ بنتی تھی،، اگر حضور ﷺ اجازت مرحمت فرما دیتے تو بدر منی میں ھی واقع ھو جاتا ،، مگر اسلام گینگ وار کا داغ اپنے ماتھے پہ نہیں لگانا چاھتا تھا،، جب ایک اسلامی ریاست قائم ھو گئ تو جہاد کا حکم دیا گیا،، اور وہ لفظ اذن کے ساتھ،،گویا جہاد اللہ کے اذن کے ساتھ مشروط ھے،، کسی گینگ کی تعداد اور وسائل کے ساتھ نہیں اور اس اذن کی پہلی شرط اسلامی ریاست کا قیام ھے،،جس میں رسولوں کو بھی استثناء نہیں دیا گیا !
جب بھی اندھا دھند خود کش دھماکوں کی مذمت میں کچھ لکھا جاتا ھے تو فوراً یہ سوال آتا ھے کہ جناب اگر آپ کے خاندان کو کسی ڈرون حملے میں مار دیا جائے تو آپ کیا کریں گے ؟ میں عرض کرتا ھوں کہ پہلی تو بات یہ ھے کہ میرے گھر پر یا علاقے پر ڈرون حملہ ھو گا کیوں ؟ مجھے اپنی اداؤں پر بھی تو غور کرنا ھو گا،،کیا کسی کا دماغ خراب ھے کہ وہ لاکھوں ڈالر کے میزائل صرف نشانہ پکانے کے لیئے خرچ کر یگا؟ جب ھم پوری دنیا کے قاتل گینگ اپنے علاقے میں اکٹھا کر لیں گے جو نہ نیک دیکھیں نہ بد ، نہ مرد دیکھیں نہ عورت، نہ بچہ دیکھیں نہ بوڑھا ،نہ مسجد دیکھیں نہ مدرسہ تو ایسے قاتل گروھوں اور باؤلے کتوں کا تعاقب کرتے ھوئے اگر کوئی میرے علاقے پر حملہ کرتا ھے اور اس میں میرے بے گناہ بچے بھی مارے جاتے ھیں تو میرا غضب ان پر بھڑکے گا جو اس کا سبب بنے ھیں نہ کہ مارنے والوں پر،،
اللہ پاک نے سورہ البقرہ کی آیت 178 سے جس قانون سازی کی ابتدا لفظ "کُتِبَ ” سے شروع فرمائی ھے ،کہ تم پر فرض کیا گیا ھے ،، اس میں سب سے پہلے انسانی جان ھی کو لیا ھے اور اس کا قصاص فرض کیا ھے،پھر وصیت پھر روزے پھر حج کو لیا ھے ! جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ھے کہ اللہ کے نزدیک انسانی جان کی بہت اھمیت ھے وہ نیک ھو یا بد ،، مرد ھو یا عورت آزاد ھو یا غلام کسی کی جان نہیں لی جا سکتی جب تک یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ اس نے کسی کی جان لی ھے یا اس نے اللہ کی زمین میں فتنہ و فساد پبا کر کے خوف و ھراس کی فضا قائم کر دی ھے جس میں ھر چیز کی حرمت داؤ پر لگ گئ ھے !
اسلام میں احکامات کی مختلف قسمیں ھیں جن میں سے کچھ میں تو فرد مخاطب ھے اورجنہیں وہ انفرادی طور پر ادا کر سکتا ھے،اور کچھ احکامات میں نظم یا اجتماعیت مخاطب ھے،، چاھے وہ نظم کسی بھی اصول پر قائم کیا گیا ھو،،وہ کوئی سرداری قبائلی نظم ھو یا آمریت ھو یا خلافت ھو یا جمہوریت ھو،ان میں سے ایک قصاص بھی ھے،ھر فرد کو یہ اجازت نہیں کہ وہ خود آگے بڑھ کر اپنے مقتول کا بدلہ لے لے، پھر دوسرا اٹھے اور اپنے مقتول کے بدلے میں خود کسی بندے کا انتخاب کر کے قتل کر دے یا یہ سوچے کہ جناب ھمارا آدمی تو قاتل قبیلے کے دس آدمیوں کے برابرتھا لہذا ھم دس آدمی ماریں گے،، یا ھمارا تو سردار مارا گیا ھے، جب کہ قاتل عام آدمی ھے تو ھم قاتل کے خاندان کے 10 آدمی ماریں گے،یا یہ کہ قاتل تو ایک عورت ھے، مقتول مرد ھے لہذا ھم بھی بدلے میں لازم مرد ماریں گے،،یا قاتل کوئی غلام ھے جبکہ مقتول آزاد ھے تو ھم بدلے میں آزاد ماریں گے،،
جب بھی افراد انفرادی طور پر بدلہ لینے نکلتے ھیں تو وہ کبھی بھی حدِ اعتدال میں نہیں رھتے اور نہ وہ انصاف کر پاتے ھیں،بلکہ غیظ و غضب انہیں ھمیشہ زیادتی پر اکساتا ھے،، وہ چاھتے ھیں کہ نہ صرف بدلہ اتر جائے بلکہ ھم کچھ ایسا کریں کہ دوسرے فریق پر ھماری دھاک بیٹھ جائے اور ھمارا ھاتھ اوپر رھے !
یوں ھوتا یہ ھے کہ جب وہ بدلہ لینے نکلتے ھیں تو یا تو اپنے مزید بندے مروا کر پلٹتے ھیں،، بدلہ ایک کا لینے گئے تھے،مگر وھاں مزاحمت ھو گئ اور مزید دس بندے مارے گئے،،یا فریق مخالف نے مزاحمت کی اور اصلی قاتل تو محفوظ رھا جبکہ دیگر دس آدمی مارے گئے،،یہ طریقہ قصاص پھر نسلوں تک چلتا رھتا ھے کہ قبیلے کے قبیلے اس اندھے انتقام کی بھینٹ چڑھ جاتے ھیں !
اجتماعیت اس بات کو ممکن بناتی ھے اور یہ ممکن بنانے کے لئے ادارے قائم کرتی ھے جو اصلی قاتل کو گرفتار کرے، اس پر مقدمہ چلائے اور اسے سزا دے،یوں قاتل کو مقتول کے قبیلے کو سونپ دینے میں اپنی ناک کٹ جانے کا احساس رکھنے والوں کو اسے حکومت کو سونپ دینے میں آسانی رھتی ھے !
اس طرح ایک جان کے بدلے میں عدل و انصاف کے ساتھ ایک ھی جان سے قصاص لیا جاتا ھے، جو قاتل ثابت ھو،، اس کے لئے غیر جانبدار عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جاتا ھے !
شریعت مجھے اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتی کہ میں خود آگے بڑھ کر اپنے بھائی کے قاتل کو قصاص کے نام پر قتل کر دوں ،بلکہ اگر میں اپنے بھائی کے بدلے میں قاتل کی جان لیتا ھوں تو قانون کی نظر میں قاتل جیسا ھی مجرم قرار پاتا ھوں اور وھی دفعہ میرے اوپر بھی لاگو ھوتی ھے ،
یہ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ عملی طور پر بھی جب میرے دو بھائیوں کو 29 مارچ 1995 میں قتل کیا گیا، جن کی عمریں 18 سال اور 22 سال تھیں ،، قاتل گرفتار ھوا جو کہ حوالات میں بند تھا،اس کے ساتھ اس کا والد اور بھائی بھی تھا،تینوں ایک ھی دس بائی دس فٹ کے کمرے میں بند اور میرے سامنے تھے،، میرے پاس پستول تھا جس کی میگزین میں 9 گولیاں تھیں،، ملزم سامنے بیٹھا تھا اور میں اکیلا تھا وھاں پولیس کا پہرہ بھی نہیں تھا میں اگر چاھتا تو اپنے بھائیوں کے بدلے میں قاتل اور اس کے بھائی کو قتل کر کے حساب برابر کر سکتا تھا،اوریہی ایس ایچ او کا مشورہ بھی تھا کہ عدالت سزا دے گی بھی تو ایک کو دے گی،جبکہ آپ یہاں دو کو ٹَکا سکتے ھیں اور آپ پر دفعہ بھی 304 کی لگے گی،، مگر الحمد للہ قاتل کے اشتعال دلانے کے باوجود اور قتل کر سکنے کے تمام تر اسباب پر دسترس رکھنے کے باوجود مجرد اللہ کے خوف کی بنیاد پر میں نے کوئی اقدام نہیں کیا اور ملزم کو عدالت کے ذریعے 11 سال بعد سزا دلوائی ! عدالت کو ملزم کے فعل پر شک ھو سکتا ھے مگر مجھے تو اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ قاتل کون ھے،،وہ شریعت جو مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں سامنے بیٹھے ایک یقینی قاتل کو قتل کروں ، وہ شریعت کسی گروہ کو اسلام کے نام پر قتلِ عام کا لائسنس کیسے دے سکتی ھے کہ وہ جہاں چاھے جس کو چاھے جتنے چاھے بندے مارے ؟؟ میں یہ بات اس یقین کے ساتھ کہہ رھا ھوں کہ اگر خدانخواستہ میرے بیوی بچوں سمیت میرا پورا خاندان کسی ڈرون کا شکار ھو جاتا تو بھی میرے الفاظ میں کوئی کمی بیشی نہ ھوتی ،اور میرا موقف یہی ھوتا کہ میرے مجرم وہ ھیں جن کی وجہ سے یہ سب ھوا !! اللہ پاک کا ارشاد ھے ” اے ایمان والو تم پر مقتولین کے معاملے میں قصاص فرض کیا گیا ھے،، آزاد اگر قاتل ھے تو بدلے میں وھی آزاد اور اگر غلام قاتل ھے تو بدلے میں وھی غلام اور اگر کوئی عورت قاتلہ ھے تو بدلے میں وھی عورت قتل کی جائے گی،اور قصاص میں ھی تمہاری زندگی کی ضمانت ھے اے عقلمندو، ،، اسکے درمیان ایک تخفیف کی صورت رکھی کہ اگر مقتول کے ورثاء چاھئیں تو وہ دیت لے سکتے ھیں،، لیکن عدالت یہ فیصلہ قبول کرنے سے پہلے بحیثیتِ مجموعی اس بات کا جائزہ لے گی کہ اس بندے کو چھوڑ دینا کہیں باقی اجتماعیت کے لئے زہرِ قاتل تو نہیں ؟ قتل کی مختلف قسمیں ھیں اور صلح کی بھی مختلف قسمیں ھیں ! ایک قتل وہ ھے جو برادری کی سطح پر کسی لڑائی جھگڑے میں ھوا ھے، اور برادری ھی کی سطح پر صلح ھوئی ھے،، ایک قتل وہ ھے جو ڈکیتی کے دوران ھوا ھے،، ان دو میں زمین آسمان کا فرق ھے،،تیسرا قتل وہ ھے جو کسی گینگ وار کے دوران ھوا ھے،،چوتھا قتل وہ ھے جو کسی وڈیرے نے اپنی دھاک بٹھانے کے لئے کیا ھے ،، اب اسی طرح صلح کی بھی قسمیں ھونگی،، برادری کی صلح کو عدالت مان بھی لیتی ھے،،مگر جب بات ڈکیتی اور وڈیرے کی دھشت کی آ جاتی ھے تو عدالت سمجھتی ھے کہ فریق مخالف پر دباؤ ڈال کر مجبور کیا گیا ھے اور عدالت اگر ملزم کو چھوڑ دیتی ھے تو گویا امیر کو یا وڈیرے کو اپنے اثر رسوخ کی بنیاد پر قتل کا لائسنس دےدیتی ھے،، اس صورت میں اجتماعیت کے وسیع تر مفاد میں وہ اس صلح کو مسترد کرنے اور قصاص کی فرضیت کے حکم پر عملدرآمد کی ذمہ دار ھے،، کیونکہ اللہ پاک نے یہ کہہ کر کہ تمہارے اجتماعی وجود کے لئے قصاص ھی زندگی کی ضمانت ھے ،اسی طرف توجہ دلائی ھے
سورۃ الشوری، آیت 41 (42:41)۔ وَلَمَنِ ٱنتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِۦ فَأُو۟لَٰٓئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ – اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں اُن کو ملامت نہیں کی جا سکتی
اس سے ھی انتقام لیا جائے گا ،،مگر یہ اسی طریقےسے ھو گا جو میں نے عرض کیا ھے ،، ان آیات کا پسِ منظر یہ ھے کہ لوگ معاف کر دینے والوں کی چار دن بڑی بلے بلے کرتے ھیں،،مگر اگلے ماہ وھی معاف کردہ قاتل ان کی گلی میں کھڑا ھو کر مونچھوں پر تاؤ دے رھا ھوتا ھے اس وقت نہ تو وہ مصلح کہیں نظر آتے ھیں جو اس وقت اس کے مامے اور ضامن بن کر آئے تھے کہ آئندہ وہ شریف بن کر رھے گا،، اور نہ ھی مظلوم معاف کرنے والے اب کچھ کر سکتے ھیں،،جبکہ قصاص پر زور دینے والے کو دنیا برا بھلا کہتی ھے،، وہ قاتل کو برا کہنے کی بجائے پھانسی پر لٹکوانے والے کو لعن طعن کرتے ھیں،، یہ آیات اس کا جواب ھیں کہ مومن کی صفات میں بدلا لینا بھی شامل ھے اور یہ اس کا حق ھے،،اگر تمہیں لعن طعن کرنی ھے تو جرم کرنے والے کو کرو نہ کہ بدلہ لینے والے کو،،وَلَمَنِ ٱنتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِۦ فَأُو۟لَٰٓئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ انماالسبیل علی الذین یظلمون الناس و یبغون فی الارضِ بغیر الحق :: ،ملامت تو ان کو ھے جو لوگوں پر ظلم کرتے اور زمین میں ناحق بغاوت پھیلاتے ھیں