اھل سنت ھوں یا اھل تشیع حقیقت یہ ھے کہ عملی طور پر ان کا ضمیر ان خرافات کو تسلیم نہیں کرتا ، وہ جو کچھ اپنے ماضی سے متعلق اپنی کتابوں میں مقدس شریعت جان کر لکھتے ھیں عملی طور پر اس کو کرنے سے عاجز پاتے ھیں اور یہی محشر میں ان کے خلاف ایک مؤثر دلیل کے طور پر استعمال ھو گا – وہ چیز کبھی دین ھو نہیں سکتی کہ دیندار طبقہ ھی اس پر عمل سے شرماتا ھو یا چھپ چھپا کر کرتا ھو اور بظاھر اس کا منکر ھو – اھل سنت اگر چھ سال کی بچی سے رسول اللہ ﷺ کے نکاح کی روایت کو تسلیم کرتے اوراس کوپڑھتے پڑھاتے ھیں تو عملی طور پر چودہ سو سال سے یہ امت اس سنت کو دھرانے سے عاجز رھی ھے اور رھے گی – جس خلافِ قرآن فعل کو خود شیخ الحدیث رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرے مگر خود اس پر عمل کرنے سے شرمائے ، نہ خود کسی چھ سال کی بچی سے نکاح کرے اور نہ اپنی چھ سالہ بچی یا پوتی اپنے کسی استاد کو بیاہ کر دے ، وہ شرمناک عمل رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرنے سے اگر زمین پھٹتی نہیں ھے، آسمان ٹوٹ کر گرتا نہیں ھے تو اس کا مطلب یہ نہیں ھے کہ محشر میں ان سے جوابدھی بھی نہیں ھونی ھے ، اللہ پاک نے بیٹی پیدا ھونے پر عملاً شرمانے والوں کو طعنہ دیا ھے کہ عیسائیوں نے تو اللہ کی طرف منسوب کیا ھے تو کم ازکم بیٹا منسوب کیا ھے جس کو وہ خود اپنے لئے بھی پسند کرتے ھیں ، کم بختو تم نے تو اللہ کی طرف بیٹیوں کو منسوب کیا ھے جن کی پیدائش پر تم لوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے ھو اورسوچتے ھو کہ ساری زندگی کی ذلت ماتھے پر مل کر زندہ رھوں یا اس کو مٹی میں دبا دوں – تمہارا جرم دھرا ھے کیونکہ تم نے اللہ کی طرف اس کو منسوب کیا ھے جو اپنے لئے ناپسند کرتے ھو – بالکل یہی جرم این شیوخ الحدیث اور محدثین کا ھے کہ جس فعل سے خود اجتناب کر کے نیویں نیویں ھو کر نکل لئے اس کو رسول اللہ ﷺ جیسی نفیس ھستی کی طرف منسوب کرتے ھی چلے جا رھے ھیں –
(( (وإذا بشر أحدهم بالأنثى ظل وجهه مسودا وهو كظيم) (النحل -58)
يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (النحل -59) اورجب ان میں سے کسی کو بیٹی پیدا ھونے کی بشارت دی جاتی ھے تو اس کا چہرہ ذلت کے احساس سے سیاہ ھو جاتا ھے اور وہ اپنے غم و غصے کو بمشکل دبائے پھرتا ھے – قوم سے چھپتا پھرتا ھے اس بری خبر کی وجہ سے جو اس کی سنائی گئ ھے ، سوچتا ھے کہ کیا ساری زندگی کی ذلت کو پکڑے رھے یا اس کو مٹی میں دبا کر اپنی جان چھڑا لے ، وھی بیٹیاں اللہ کی طرف منسوب کر کے یہ لوگ بڑا بے انصافی کا فیصلہ کرتے ھیں –
(( ﯾﺟﻌﻟون ﷲ ﻣﺎ ﯾﮐرھون وﺗﺻف. أﻟﺳﻧﺗﮭم اﻟﮐذب أن ﻟﮭم اﻟﺣﺳﻧﯽ ﻻﺟرم أن ل. ھم اﻟﻧﺎر وأﻧﮭم ﻣﻔرطون.)) النحل-62
ٹھہراتے ھیں اللہ کے لئے وہ جس سے خود کراھت کرتے ھیں اور ان کی زبانیں جھوٹ بولتی ھیں کہ اس کے بدلے ان کو نیکی ملے گی۔، کوئی شک نہیں کہ ان کے لئے آگ ھی بدلہ ھے اور یہ لوگ حد سے نکل جانے والے ھیں –
یہی معاملہ اھل تشیع کا ھے کہ وہ جس فعل سے خود شرماتے ھیں یا چھپ کر کرتے ھیں تو اعتراف سے شرماتے اور ان کا نکار کرتے ھیں وہ اھل بیت کی طرف منسوب کرنے سے ذرا بھی خدا کا خوف نہیں کرتے اور ان کے مراجع مدارس میں وھی خرافات پڑھائے اور دھرائے چلے جا رھے ھیں –
پاک و ھند کا ایک ھی کلچر ھے اگرچہ مذاھب جدا جدا ھیں – ایک ھندو بھی اپنی محارم کے بارے میں ویسا ھی غیرتمند ھے جیسا کوئی مسلمان ھو سکتا ھے ، ان کی خواتین بھی شرم و حیا کا پیکر ھیں ، ایک شوھر سے وابستہ ھیں اور بدکاری سے آشنائی سے ویسے ھی غیرت محسوس کرتی ھیں جیسے مسلمان محسوس کرتے ھیں – پھر چکوال کا شیعہ ھو یا پارہ چنار کا وہ جھنگ کا ھو یا سرگودھے کا ، وہ پہلے پٹھان اور پنجابی ھوتا ھے پھر شیعہ یا سنی ھوتا ھے ، وہ بھی اپنی بہو بیٹیوں اور بیویوں کے معاملے میں انتہاء درجے کی غیرت محسوس کرتا اور مرنے مارنے پر تل جاتا ھے – ان میں 98 فیصد اس لئے شیعہ ھیں کہ وہ شیعہ کے گھر پیدا ھوئے ھیں ، ان خرافات سے وہ بیچارے نابلد ھیں ، جس طرح عرب کی اونٹنی کے پیشاب کو پاکستانی مسلمانوں کو نہیں پلایا جا سکتا چاھے تم پیشاب والی حدیث کے لاکھوں دورے کر لو ، اسی طرح تم پاک و ھند میں متعہ بھی نہیں کرا سکتے وہ اپنی بہو بیٹیوں کو جان سے مار دیں اگر ان کو پتہ چلے کہ انہوں نے متعہ کیا ھے – اگر علامہ امجد عباس متعہ کرتا ھوتا تو شادی کے لئے دہائیاں نہ دیتا پھرتا ، جسے تازہ دودھ دستیاب ھو بھلا اس کو بھینس پالنے کی کیا ضرورت ؟ مگر ضرورت اس امر کی ھے کہ ان خرافات کا صاف انکار کیا جائے نہ کہ ان کو ثابت کیا جائے ، جب آپ ثابت کرو گے تو پھر شک تو پیدا ھو گا کہ کرتے بھی ھو گے، اور اگر ثابت کر کے عمل سے انکار کرو گے تو سوال تو ھو گا کہ جس فعل کو جائز کہتے ھو وہ کرتے کیوں نہیں ؟ یہی سوال چھ سالہ بچی سے رسول اللہ ﷺکے نکاح کی حدیث کو صحیح ثابت کرنے والوں سے کیا جاتا ھے کہ ثابت کرتے ھو تو خود کرتے کیوں نہیں ؟
آپ تسلیم کیجئے کہ یہ خرافات اگرچہ ھماری ماضی کی کتابوں میں درج ھیں مگر ھم ان کو درست نہیں سمجھتے لہذا ان خرافات پر عامل بھی نہیں ھیں ،، اب آپ کی بات کو تسلیم کیا جائے گا – کتنی شرمناک بات ھے کہ کتاب الاجارہ( اجرتوں کے بیان میں ) کے تحت شرمگاھیں کرائے پر دینے کی تفصیلات بیان کی جائیں ، اور اس کو انڈسٹری کی شکل دے دی جائے ،جس طرح عربوں کی روایتوں پر عالم عرب میں ھی عمل ھو رھا ھے ، وہ اونٹ کے پیشاب کی حدیث ثابت ھی نہیں کرتے بلکہ پیپسی اور سیون اپ کی طرح ان کی دکانوں پر وہ آج بھی دستیاب ھے ، اور ریڈ بل کے مقابلے میں پاور ڈرنک کے طور پر بھی پیا جا رھا – اگر وہ چھ سالہ حدیث کو بیان کرتے ھیں تو واقعی سات، اٹھ اور نو سالہ بچیاں پہلی دوسری رات کو مار کر والدین کو پیسے پکڑا کر بھی آ جاتے ھیں ، اسی طرح متعہ کی روایات اگر عراقی ھیں تو عراق میں یہ ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکا ھے ، خاص طور پر ان شہروں میں جہاں مقدس مزارات ھیں وہ اسی زور و شور سے ھوتا ھے جیسے عمرہ کرنے کے بعد سر منڈانے کے لئے نائیوں کے یہاں رش ھوتا ھے – جس طرح حاجیوں کودیکھتے ھین رھائش فراھم کرنے والے گھیر لیتے ھیں اسی طرح زائرین کو دیکھ کر متعے والے گھیر لیتے ھیں جو مال متعہ کی تفصیل بھی جلدی جلدی بیان کرتے جاتے ھیں – رہ گیا ثواب تو وہ کتابوں میں پہلے ھی درج ھے تا کہ سند رھے –
اگر اپنی جوان نسل کو الحاد سے بچانا ھے تو وقت آ گیا ھے کہ خرافات کو مقدس کر کے نہیں بلکہ شرمناک ماضی کے طور پر ھی پڑھایا جائے اور اس پر دین کا لیبل نہ لگایا جائے ، البتہ فقہ جعفریہ کے بارے میں پہلے بھی میں کئ بار لکھ چکا ھوں کہ وہ اسلام کی ایک مستقل اور انتہائی مدلل و مفصل فقہ ھے جس طرح دیگر چار فقہیں پائی جاتی ھیں ، اور اس پر فقہی نقطہ نظر سے اختلاف و اتفاق ممکن ھے –