اور اب عمران خان –
جنید جمشید مرحوم کے بعد اب عمران نشانے پہ ھے – حقیقت یہ ھے کہ اس قسم کے فتوے پڑھ کر مجھے مفتی صاحبان کے علم پر افسوس ھوتا ھے ، کیونکہ یہ حضرات ریاضی کی طرح کے فارمولے پڑھ کر مفتی بن جاتے ھیں مگر تاریخ اور یہانتک کہ حدیث کا علم بھی ان کو نہیں ھوتا – جنید جمشید نے جو کہا تھا وہ سب بھی بخاری شریف میں لکھا ھوا موجود ھے ، اس کی انکساری اور عاجزی تھی کہ وہ دھمکیوں کے سامنے سرنڈر کر گیا –
اب عمران نے جو الفاظ کہے ھیں وہ ھماری تاریخ میں لکھے ھوئے موجود ھیں ، نبئ کریم ﷺ کی کئ بار خودکشی کی کوشش والی حدیث جو بخاری شریف میں موجود ھے کیا وہ مفتی صاحب کی نظر سے نہیں گزری ؟ جب نبی ﷺ کو ھی جبرائیل سے ملاقات اور نزول آیات کے بعد بھی اپنی نبوت اور رسالت پرشک ھو اور شک اس قدر اذیتناک ھو کہ ، وہ بار بار خودکشی کی کوشش کریں ، اور حضرت خدیجہ کو ان کو یقین دلوانے کے لئے اپنے کزن ورقہ ابن نوفل کے پاس لے جانا پڑے اور ورقہ بن نوفل کہے کہ آپ کے پاس واقعی ناموس یا فرشتہ آیا تھا جو موسی پر آتا تھا تب یقین آئے ،، کیا یہ ایمان تازہ کرنے والی باتیں ھیں ؟
حدثنا يحيى بن بكير ، حدثنا الليث عن عقيل عن ابن شهاب ، وحدثني عبد الله بن محمد حدثنا عبد الرزاق حدثنا معمر ، قال الزهري فأخبرني عروة عن عائشة رضي الله عنها أنها قالت : ” ..ثم لم ينشب ورقة أن توفي ، وفتر الوحي فترةً حتى حزن النبي صلى الله عليه وسلم – فيما بلغنا – حزناً غدا منه مرارا كي يتردى من رؤوس شواهق الجبال ، فكلما أوفى بذروة جبل لكي يلقي منه نفسه ، تبدّى له جبريل فقال : يا محمد ، إنك رسول الله حقا . فيسكن لذلك جأشه ، وتقر نفسه ، فيرجع ، فإذا طالت عليه فترة الوحي غدا لمثل ذلك ، فإذا أوفى بذروة جبل ، تبدّى له جبريل فقال له مثل ذلك – ( رواہ البخاری)
نوٹ ( ابن شھاب زھری) عروہ ابن زبیر سے نقل کرتے ھیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ورقہ بن نوفل سے ملاقات کے بعد کچھ ھی عرصہ گزرا کہ ورقہ کا انتقال ھو گیا اور وحی رک گئ ( واضح رھے ملحدین اس سے یہ استدلال کرتے ھیں کہ وحی سکھا ھی ورقہ رھا تھا ، جونہی وہ فوت ھوا تو وحی بھی رک گئ جب تک نیا استاد نہیں ملا) وحی رکنے پر رسول اللہ بہت غمگین ھوئے اور یہ غم جیسا کہ ھمیں خبر پہنچی ھے اس حد تک پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ نے کئ بار خود کو پہاڑ کی چوٹی سے گرانے کی کوشش کی ، جب بھی پہاڑ کے کنارے پرپہنچتے تا کہ خود کو گرا دیں تو جبرائیل سامنے آ جاتے اور کہتے کہ اے محمدﷺ آپ واقعی اللہ کے رسول ھیں ، جس پر رسول اللہ ﷺ کو وقتی سکون میسر آ جاتا اور آپ پلٹ آتے پھر جب وحی میں وقفہ پڑتا تو پھر وھی کچھ دھرایا جاتا کہ آپ پہاڑ کے کنارے پہنچتے تو جبرائیل ظاھر ھو کر وھی دھراتے جو پہلی دفعہ کہا تھا ( بخاری)
یہ تو صرف شھد لگایا گیا ھے ، اب اس پر پورا چھتہ امام طبری نے بنایا ھے – اور سب کچھ وھی کہا ھے جو عمران نے لفظ بلفظ دھرایا ھے –
قال : ولم يكن من خلق الله أحد أبغض إلى من شاعر أو مجنون ، كنت لا أطيق أن أنظر إليهما ، قال : قلت إن الأبعد – يعني نفسه – لشاعر أو مجنون ، لا تحدث بها عني قريش أبدا ! لأعمدنّ إلى حالقٍ من الجبل فلأطرحنّ نفسي منه أقتلها فلأستريح . قال : فخرجت أريد ذلك ، حتى إذا كنت في وسط من الجبل ، سمعت صوتا من السماء يقول : يا محمد ، أنت رسول الله ، وأنا جبريل ..)
( محمد ﷺ نے کہا کہ میرے نزدیک اللہ کی مخلوق میں سے شاعر اور مجنون سے بڑھ کر کوئی قابل نفرت نہیں ھے ، میں تو شاعر اور پاگل کو دیکھنے کی ہمت بھی جُٹا نہیں پاتا میں اپنے آپ کو اس صورتحال سے دور لے جاؤنگا تا کہ قریش میرے بارے میں یہ ڈسکس نہ کریں کہ یہ شاعر یا پاگل ھے – میں پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اپنے آپ کو گرا لونگا اور اس اذیت سے اپنے آپ کو نجات دلا دونگا – چنانچہ میں اسی ارادے کو لے کر نکلا یہانتک کہ میں جب پہاڑ کے درمیان پہنچا تو آسمان سے ایک آواز سنی کہ اے محمد تم اللہ کے رسول ھو اور میں جبرائیل ھوں –
اب لگاؤ امام بخاریؒ اور امام طبری پر فتوے جس کی تفسیر کے تکے اور چپل کباب بنا کر تناول کرتے ھو – عوام الناس آپ کو غریب کی جورو لگتے ھیں جس کو چاھا ،السلام علی من اتبع الھدی کہہ کر کافر بنا دیا –