اسلام بطور نظام –
پہلا دائرہ ،
خلافت اور اس سے متعلق علمی و عملی اقدامات کا تضاد ،،،
نظام کی بات جب بھی کی جائے گی تو اس کا مطلب اجتماعیت کی رائنمائی کرنے والا اور ان کے مفادات کا تحفظ کرنے والا ایک سسٹم مراد ھوتا ھے ،، اسلام نے اس کو بڑی اھمیت دی ھے اور دو میں سے ایک بندے کو امیر بنا لینے کا حکم دیا ھے تا کہ اختلاف رائے کو ڈسپلن میں رکھا جا سکے ،، اگر دو میں کوئی امیر نہیں ھے تو شیطان ان کا امیر بن جاتا ھے یعنی وہ دونوں میں اختلاف ڈال دیتا ھے ،،
انسانوں میں جب امیر کا انتخاب کیا جائے تو کس کس صلاحیت کو اھمیت دی جائے گی ،،
ھمارے یہاں اولین اھمیت تقوے کو دی جاتی ھے اور اس کے لئے سورہ الحجرات کی آیت 133 کا حوالہ دیا جاتا ھے ،،، (( يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ.))
چنانچہ ھم اس کو پہلی شرط کے طور پر لے لیتے ھیں ،،
دوسری شرط اس آدمی کا تجربہ اور جس کام کے لئے چنا جا رھا ھے اس کی میرٹ پر صلاحیت ھے ،، مثلاً آپ اگر حج پر بائی روڈ جا رھے ھیں تو اس صورت میں قافلے کا امیر بس ڈرائیور کو ھی بنایا جاتا ھے کیونکہ وھی رستوں کا واقف ھوتا ھے ، نیز قیام و طعام کے وقفے اور پیٹرول پمپس وغیرہ کا تجربہ بھی اس کا ھوتا ھے ،اب اگرچہ وہ نارمل سا مسلمان ھو تب بھی اس کو ایک حافظِ قرآن پر اپنے تجربے کی بنیاد پر فوقیت مل جاتی ھے کیونکہ اس وقت ھمیں سفر کے لئے امیر چاھئے نماز کا امام نہیں چھائے ،جب جماعت کھڑی ھو گی تب حافظ صاحب کو فوقیت حاصل ھو گی ،،،،،،،،
نبئ کریم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں مجمع عام میں فرمایا تھا کہ ”
(( يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوَى، أَبَلَّغْتُ ؟ قَالُوا: بَلَّغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّ يَوْمٍ هَذَا ؟ قَالُوا: يَوْمٌ حَرَامٌ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّ شَهْرٍ هَذَا ؟ قَالُوا: شَهْرٌ حَرَامٌ: قَالَ: ثُمَّ قَالَ: أَيُّ بَلَدٍ هَذَا ؟ قَالُوا: بَلَدٌ حَرَامٌ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ بَيْنَكُمْ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ، هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَبَلَّغْتُ ؟ قَالُوا: بَلَّغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لِيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ))
[رواه أحمد ]
اس خطبے میں بھی نسلی تفاخر کی اسی طرح نفی کی گئ جس طرح سورہ الحجرات کی آیت نمبر 13 میں کی گئ تھی ،، کسی عربی کو کسی عجمی پر ، یا کسی عجمی کو کسی عربی پر یا کیسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں مگر صرف تقوے کی بنیاد پر اعلی و ادنی کا فیصلہ ھو گا ، رنگ و نسل کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ،،،،،،،،،،،
اب سوال یہ ھے کہ کیا یہ آیت اور خطبے کا یہ حصہ آخرت میں اللہ کے نزدیک عزت و کرامت کا پیمانہ طے کر رھے ھیں یا دنیا میں خلیفہ چننے کا اصول دے رھے ھیں ،،
آج تک ھمیں جو کچھ پڑھایا گیا یا منبرِ رسول ﷺ سے لوگوں کو سمجھایا گیا وہ یہی تھا کہ یہ خلیفہ کی شرائط یا کوالیفیکیشن ھے کہ وہ سب سے متقی ھو ،،،،
اس پر پہلا سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ اگر آپ ایک آدمی کو اس کے موجودہ تقوے کی بنیاد پر خلیفہ چن لیتے ھیں تو کیا یہ طے ھو جاتا ھے کہ اب جب تک یہ خلیفہ زندہ ھے کوئی اور ماں اس سے زیادہ متقی بچہ پیدا نہیں کر سکتی ؟ کیا اس خلیفہ کے تقوے میں کمی یا کسی اور شخص میں اس سے زیادہ تقوی پیدا نہیں ھو سکتا ؟ یا خلیفہ بنتے ھی وہ متقی معصوم نبی یا فرشتہ بن جاتا ھے کہ جس کے تقوے میں کمی نہیں ھو گی بلکہ بڑھوتری ھی ھو گی ؟ اسلام اس مسئلے کا کوئی حل نہیں دیتا ، اسلام خلیفہ کی مدتِ خلافت طے نہیں کرتا ،لہذا یا تو خلیفہ خود فطری موت مرے گا تو جنازے کے ساتھ اس کی خلافت جائے گی ، یا لوگ تنگ آ کر اسے قتل کر دینگے تو اس کی خلافت کا خاتمہ ھو گا ،، تیسرا کوئی رستہ اسلام ھمیں نہیں دیتا ،، خلیفہ بنانے میں تو شوری کا اصول چل جاتا ھے مگر خلیفہ بن جانے کے بعد شوری ایک چلا ھوا کارتوس ھوتی ھے ،جس سے دوبارہ فائر نہیں ھو سکتا ،،،،
یوں موجودہ عمرانی نظام ھمیں ایگزٹ فراھم کرتا ھے جو خلیفہ کی مدت طے کرتا ھے اور اس کے بعد پھر متقیوں میں تقابل کا حق دیتا ھے،
ڈاکٹر اسرار احمد بانئ تحریک خلافت فرمایا کرتے تھے کہ ” ھو سکتا ھے کہ قرآن اکیڈیمی کے گیٹ پر بیٹھا چوکیدار مجھ سے زیادہ متقی ھو مگر اس کے تقوے کا اجر اسے آخرت میں ملے گا ، وہ تقوے کی بنیاد پر اکیڈیمی یا انجمن خدام القرآن نہیں چلا سکتا کیونکہ اس کے لئے پہلی شرط انتظامی صلاحیت ھے ،، یہ بات اصلاً مستنبط ھے اسوہ حسنہ سے ،،،،،،
کہ سورہ الحجرات کی آیت 133 اور خطبہ حجۃ الوداع میں اپنے بلیغ خطبے کے علی الرغم رسول اللہ ﷺ نے خلافت یا امامت کے لئے قریش کو خاص کیا اور فرمایا کہ ” الائمۃ من قریش ،احمد ،رقم ۱۱۸۹۸۔ ’’ائمہ قریش میں سے ہوں گے۔‘‘
یہاں وھی تجربے والی بات اھم ھو گئ ھے کہ قریش کو پیری کا تجربہ ھے ،حکومت کرنے کا تجربہ ھے ،دلوں پر حکومت کا تجربہ ھے اور عربوں کو قریش کی مریدی کی عادت ھے لہذا بہتر یہی ھے کہ اسلام کے اس ابتدائی دور میں کوئی اور تجربہ نہ کیا جائے کیونکہ نبئ کریم ﷺ انتہائی بصیرت کے حامل تھے اور آپ کی انگلی حالات کی نبض پر رھتی تھی ،، آپ بنو حنیفہ جیسے جنگجو قبیلے کے سردار کے اعلانِ نبوت سے بھی آگاہ تھے لہذا ایک ایسا محور چھوڑ کر جانا چاھتے تھے کہ جس کے گرد مسلمان آخری سانس تک اکٹھے رھیں اور وہ قریش مکہ ھی ھو سکتے تھے ،،
اسلام پہلے دن سے دین تھا – جس دن نبئ کریم ﷺ کوہ صفا پر اکیلے کھڑے تھے اسلام تب بھی دین ھی تھا ، اسلام کو حکومت سے جوڑ کر اس کو بطور گورنمنٹ سسٹم کے سمجھنا اور پھر ایسی گورنمنٹ لانے کے لئے قتلِ عام اور فساد فی الارض کا بازار گرم کرنا اور دین کو تب تک نامکمل سمجھنا جب تک کہ وہ حکومت میں نہ ھو ،، غلط فہمیوں کا ایک طویل سلسلہ ھے ،، اسلام کی ابتدا محمد عربیﷺ سے نہیں ھوئی اور نہ ھی اسلام محمڈن ازم ھے ،، یہ محمد ﷺ نے نہیں دیا اور نہ ھی آپ کی ذھنی اپچ اور کاوش ھے ،، اللہ پاک نے اس کی نفی قرآن حکیم میں خود نبئ کریم ﷺ سے کروائی ھے ،،
قُلْ لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْرَاكُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلا تَعْقِلُونَ ( یونس-16)
کہہ دیجئے کہ اگر اللہ چاھتا تو میں اس قرآن کو تم پر تلاوت نہ کرتا اور نہ ھی تمہیں اس کی خبر لگنے دیتا ، اس سے قبل بھی تو میں تم میں ایک زندگی گزار چکا ھوں ،،،،
وكذلك أوحينا إليك روحا من أمرنا ما كنت تدري ما الكتاب ولا الإيمان ولكن جعلناه نورا نهدي به من نشاء من عبادنا وإنك لتهدي إلى صراط مستقيم ( شوری -52)
اور اسی طرح( اے محمد) ھم نے اپنے حکم سے ایک روح آپکی طرف وحی کی ھے ، تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ھوتی ھے اور ایمان کیا ھوتا ھے مگر اس روح کو ھم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ھم راہ دکھاتے ھیں اپنے بندوں میں سے جسے چاھتے ھیں ،یقیناً تم سیدھے رستے کی طرف راہنمائی کر رھے ھو،،
اسلام آدم علیہ السلام سے بطور دین ھی چلا ھے اور ھر نبی اسلام ھی لے کر آیا ھے اور سب سے پہلا مسلم وہ نبی ھی رھا ھے ، ان الدین عنداللہ الاسلام ” میں ھمارے والے اسلام کی بات نہیں ھو رھی ،، آدم علیہ السلام کے زمانے سے چلنے والے اسلام کی بات ھو رھی ھے ،پچھلی آیات میں یہود و نصاری کے دعوے کی نفی کی گئ ھے کہ ابراھیم یہودی تھے یا نصرانی تھے ، جواب دیا کہ ابراھیم نہ تو یہودی تھے اور نہ ھی نصرانی تھے بلکہ یکسو مسلم تھے ، اور اے مشرکینِ مکہ وہ مشرکین میں سے بھی نہیں تھے ،، اس وقت کے تینوں دعوے داروں کو جھڑک دیا ، یہود کا دعوی تھا ابراھیم یہودی تھے ،عیسائیوں کا دعوی تھا ابراھیم نصرانی تھے اور مکے والے کہتے تھے کہ ابراھیم ھمارے مذھب پر تھے اور محمد ﷺ اپنے باپ دادا کے مذھب سے پھر گئے ھیں ،،،
مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ( آل عمران67)
اسی پیرائے میں آگے چل کر فرمایا کہ پوری کائنات کا دین اسلام ھے تو کیا یہ لوگ اللہ کے دین سے ھٹ کر کوئی دین چاھتے ھیں ؟ مزید آگے چل کر ارشاد فرمایا کہ جس نے بھی اسلام سے ھٹ کر کوئی دین بنایا اللہ اس کو ھرگز قبول نہیں فرمائے گا ،، یہ ساری بحث یہود اور نصاری نیز مشرکین کو دین اسلام سے عاق کرنے ،، ان کے دعوئ مسلمانی کو رد کرنے کے لئے کی گئ ھے ،، ھمارا مروجہ اسلام نہیں بلکہ آدم علیہ السلام سے چلے آنے والا اسلام زیرِ بحث ھے کہ اب اس اسلام کے حامل محمد ﷺ ھیں اور وھی ابراھیم علیہ السلام کے قریبی ھیں ، باقی تینوں فرقوں کے ابراھیم سے تقرب کے دعوے رد کیے جاتے ھیں ،، اس لئے ان الدین عنداللہ الاسلام سے ھمارا اسلام مراد لینا ٹھیک نہیں ،، اللہ نے اسلام ھی ھر زمانے میں بھیجا ھے اور اسلام ھی قبول کرے گا ،جو لوگ بھی فرقوں میں بٹے اللہ نے انہیں اسلام سے خارج کر کے نیا نبی پھر اسلام ھی کی دعوت کے لئے کھڑا کر دیا ،،،
جب ایک شخص کلمہ پڑھ لیتا ھے تو وہ اسلام میں بطورِ دین ھی شامل ھوتا ھے اور دنیا میں صرف وھی ایک شخص موجود ھو اس کلمہ توحید کے ساتھ تو وہ دینِ اسلام پر ھی مرے گا ،، اسلام حکومت میں آ کر دین نہیں بنے گا وہ پہلے دن اور پہلے بندے سے ھی دین ھوتا ھے بہت سارے نبی بغیر کسی امتی کے دینِ اسلام پر ھی اٹھیں گے یہانتک حضرت ابراھیم بھی بطور امت اکیلے اٹھیں گے ،،
ان ابراھیم کان امۃً قانتاً للہ حنیفاً ،،، بے شک ابراھیم ایک مطیع وفرمانبردار امت تھے ،، ابن عباسؓ نے اس کی شرح میں یہی فرمایا ھے کہ ایک بندہ بھی اگر دینِ حق پر ھو تو وہ اپنی ذات میں مکمل امت اور اللہ کی طرف سے انسانیت پر حجت ھو گا ،،،
جب جب آپ اجتماعیت کی طرف بڑھیں گے تو اسلام اپنے ضابطوں میں توسیع کرتا چلا جاتا ھے اور دیگر لوگوں کے حقوق و فرائض بھی طے کرتا چلا جاتا ھے ، جب تک آپ کنوارے ھوتے ھیں آپ کے ذمے والدین کے حقوق ھی ھوتے ھیں اور والدین کے ذمے صرف آپ کے حقوق ھوتے ھیں ،مگر جب شادی ھوتی ھے تو اب آپ سے استفادہ اور اپنے حقوق کا تقاضا کرنے کے لئے ایک نیا ادارہ وجود میں آ گیا ھے ،اب آپ نے اپنے وھی اوقات جو والدین کے لئے وقف کر رکھے تھے انہیں میں سے کچھ کاٹ کر نئے ادارے یعنی زوجہ کو بھی دینے ھیں اور آپ کے والدین کے ذمے اب آپ کے ساتھ آپ کے بیوی بچوں کے حقوق کی ذمہ داری بھی پڑ گئ ھے کہ وہ اپنے حقوق کی آڑ میں ان کے حقوق کی حق تلفی نہ کریں اور نہ آپ کو آمادہ کریں ،، جب آپ عوام ھوتے ھیں تو اسلام آپ کو عوامی ذمہ داریوں سے روشناس کراتا ھے مگر جب آپ حاکم بن جاتے ھیں تو وہ آپ کو بطور حاکم عدل و انصاف اور رحم دلی نیز عفو و درگزر کی روش اپنانے کی تلقین کرتا ھے ،یوں اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ھے ،مگر آپ اسے مکمل نظامِ حکومت مت سمجھئے کیونکہ حکومت ھو یا نہ ھو اسلام دین ھی ھوتا ھے اور آپ دین اسلام پر ھی مرتے ھیں اسلام کبھی بھی فرقہ نہیں بنتا اگرچہ اس کو ماننے والا ایک بندہ ھو تب بھی وہ فرقہ نہیں ھوتا ” امت ” ھوتا ھے ،،،
اللہ پاک نے ھمیں یہ تعلیم دی ھے کہ جب کبھی ھم زکوہ کے نصاب کو پہنچ جائیں تو زکوۃ ادا کرنا ھم پر فرض ھے ،، مگر نصاب تک پہنچنا فرض نہیں کیا ،، اور یہ اس کا خاص احسان ھے ،،
اس نے ھم پر فرض کیا ھے کہ اگرھم حج کی استطاعت رکھیں تو زندگی میں ایک حج کر لیں ،،مگر یہ فرض نہیں کیا کہ ھم منہ سر کالا کر کے ھر حال میں جیسے تیسے بھی ھو حج کی استطاعت پیدا کریں ،،
اسی طرح اللہ پاک نے ھمیں یہ تعلیم دی ھے کہ جب کبھی ھم حکومت میں پہنچیں اور ھمیں زمین پر کبھی اللہ تمکن اور حکومت عطا فرما دیں تو ھمیں اس حکومت کو کس طرح خیر کو پروموٹ کرنے اور منکر کی بیخ کنی کے لئے استعمال کریں ،، نماز و زکوۃ کا نظام قائم کریں ،، مگر اللہ نے ھم پر حکومت قائم کرنا یا اس کے لئے قتلِ عام کرنا اور تختے الٹنا ھر گز فرض نہیں کیا ،، اللہ پاک نے سورہ حج میں کہ جو دورانِ ھجرت نازل ھوئی اور مسلمانوں کو ریاست قائم ھو جانے کے بعد پہلی دفعہ دفاع کا حق دیا اور قتال کی اجازت دی اس مین جہاں مسلمانوں کی مظلومیت کا نقشہ کھینچا وھیں ان کا مستقبل کا منشور بھی دیا ،،مگر اس کے الفاظ بڑے نپے تلے منتخب فرمائے ،، کیونکہ مدینہ مسلمانوں نے لڑ کر فتح نہیں کیا تھا اور نہ کوئی لشکر لے کر مدینہ پر چڑھ دوڑے تھے اور نہ ھی جبر اور تلوار کے زور پر حکومت قائم کی تھی ،پہلی اسلامی مملکت مدینہ دعوت کے نتیجے میں اکثر آبادی کے مسلمان ھو جانے کے بعد قائم ھوئی تھی ،، یہ بات آج کے مسلح قاتل گروھوں پر واضح رھنی چاھئے کہ اسلام سروں کے مینار پر حکومت کی بنیاد نہیں رکھتا وہ دلوں پر حکومت کرتا ھے ،، اللہ پاک نے فرمایا ،،
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (399) الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ۗ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (40) الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (الحج- 41)
اجازت دی جاتی ھے ان لوگوں کو کہ جن سے لڑا جاتا رھا ھے اس لئے کہ ان پر ظلم کیا جاتا رھا ھے ، اور بے شک اللہ ان کی نصرت پر قادر ھے ، جو ناحق اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اس پاداش میں کہ وہ کہتے ھیں کہ ان کا رب اللہ ھے اور اگر اللہ دفاع نہ کرے بعض لوگوں کا بعض لوگوں کے ذریعے تو یقیناً مسمار کر دیئے جائیں گرجے اور خانقائیں اور سینگاگ( یہودی عبادت گاہیں ) اور مساجد جن میں اللہ کا نام ذکر کیا جاتا ھے کثرت کے ساتھ ،اور اللہ یقیناً ان لوگوں کی مدد کرتا ھے جو اللہ کے مشن میں مددگار بنتے ھیں بے شک اللہ زبردست قوت والا ھے ،، وہ لوگ جن کو اگر ھم تمکن یعنی کہیں بسنا نصیب کر دیں (یا حکومت) دے دیں تو وہ نماز قائم کرتے ھیں اور زکوۃ ادا کرتے ھیں اور نیکی کے لئے کہیں اور بدی سے منع کریں ،، اور تمام امور کا انجام اللہ کے ھاتھ میں ھے ،،
اس میں کہیں بھی جنگ کر کے حکومت قائم کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ، اس تمکن کا منشور پیش کیا ھے جو اللہ پاک نے مسلمانوں کو خاص اپنی نصرت سے مدینے میں عطا فرمایا تھا ،،
چنانچہ صدیوں سے ھمیں تشدد کا جو زھر پلایا جاتا رھا ھے وہ آج خود ھمارے اپنے اندر پھٹ گیا ھے اور ھمارے اپنے بھائی ھی بھیڑیوں کا روپ دھار چکے ھیں ، جن کے نزدیک جب تک لوگوں کے سر نہ قلم کیئے جائیں ، گلی گلی ٹکٹکیاں لگا کر کوڑے نہ مارے جائیں ، ھاتھ نہ کاٹے جائیں تب تک اسلام دین ثابت نہیں ھوتا ،، جو ھمارے بزرگوں نے بویا تھا وہ ھم کاٹ رھے ھیں ،، جبکہ عملی طور پر یہ وہ لوگ ھیں جو صرف شکلوں میں تھوڑا بہت تغیر کر کے سمجھتے ھیں کہ وہ انسانوں کی جان و مال کے مالک بن گئے ھیں اور جسے چاھئیں غلام بنائیں جسے چاھئیں لونڈی بنائیں جسے چاھئیں زندگی دیں جسے چاھئیں مار مکائیں ،، جبکہ یہ صرف تباھی کے علمبردار ھیں ،دین میں ان کا کچھ حصہ نہیں ھے نہ ان میں تعمیر کی صلاحیت ھے اور نہ ھیہ تعمیر ان کے ارادوں میں ھے ،انہوں نے جہاں قدم رکھے وھاں تباھی و بربادی نے ڈیرے ڈال لئے کوئی عبادت گاہ ان کی تباہکاریوں سے محفوظ نہیں ، انہوں نے صومالیہ میں بنی حکومت ختم کر دی مگر کوئی حکومت بنا نہ سکے لہذا جہاز لوٹ کر اور یرغمالیوں کا تاوان لے کر گزارا کر رھے ھیں ،،لیبیا میں بھی متبادل حکومت اور امن و امان نہ دے سکے ،شام میں بھی انہوں نے لاکھوں بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو انتہائی وحشیانہ طریقوں سے قتل کیا ،، اور ستم یہ ھے کہ یہ سب اسلام کے نام پر کیا جا رھا ھے ،، اور ان کو ھمارے علماء اور مفتیوں کی خاموش تائید حاصل ھے ،، ھماری ذرا سی پوسٹ پر پھڑک اٹھنے والے ان مظالم پر کبھی کوئی تبصرہ نہیں کرتے بلکہ ان کو "اگر مگر ” کے ذریعے جواز فراھم فرماتے ھیں