تقوی اور مغالطہ !
تقوی انفرادی کیفیت ھے ، شریعت ایک ادنی مومن کے ایمان کو سامنے رکھ کر بنائی گئ ھے ابوبکر صدیقؓ کو سامنے رکھ کر نہیں بنائی گئ ، اس لئے ھر بندہ تقوے کے اپنے اپنے لیول پر تھا ،ھر صحابی بھی ابوبکرؓ و عمرؓ نہیں تھا اگرچہ تقوے کا تقاضا ھر مومن سے تھا ، یہی غلط فہمی امت کے فریسیوں کو لاحق ھوئی کہ ان میں سے ھر ایک نے اپنی کیفیت کو دوسروں پر تھوپنے کی خاطر فتوے دیئے اور مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا حالانکہ ان کے فتوؤں کا شریعت کے مطالبے سے کوئی تعلق نہیں تھا ، جہاں امت کو حکم دیا گیا کہ واتبعوہ ،تم عمل میں نبی کے طریقے کی کاپی کرو وھیں نبیوں کو بھی حکم دیا گیا کہ ” واتبعوا ادبارھم ” ساری امت کو آگے رکھ کر چلو کوئی پیچھے نہ رھے ساتھ لے کر چلو- ایک قافلہ اسی وقت تک قافلہ رہ سکتا ھے جب تک رفتار اس قافلے کی سب سے کمزور گاڑی کو سامنے رکھ کر اختیار کی جائے – یہی وجہ ھے کہ نبئ کریم ﷺ شرابی اور زانی کو بھی ساتھ لے کر چلے ھیں – ایک شرابی جس کا نام حَمار تھا اور اکثر دربار نبی میں حاضر رھتا تھا شراب بھی کثرت سے پیتا تھا اور کئ بار شراب کی سزا پا چکا تھا ،ایک دن دربار میں کسی نے کہہ دیا کہ اللہ اس کو تباہ کرے یہ کتنی بار اس جرم میں لایا جا چکا ھے ، اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ ایسے مت کہو اللہ کی قسم میں اس کو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا پاتا ھوں ، نبئ کریم ﷺ کی اس بات پر اس شخص نے آئندہ شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگایا – جس شخص کا جنازہ پڑھانے پر بھی عمر فاروقؓ اعتراض کر رھے تھے ، آپ نے مجمعے سے پوچھا کہ کسی نے تو اس کو کوئی مسلمانوں والا کام کرتے دیکھا ھو گا ؟ اس پر ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میں نے اس کو اسلامی لشکر میں ایک دن پہرہ دیتے دیکھا تھا – اللہ کے رسول ﷺ نے اس کا جنازہ پڑھایا اور پھر قبر میں خود رکھا اور اس کا سر گود میں رکھ کر فرمایا کہ تمیرے ساتھی تجھے جہنمی سمجھتے ھیں حالانکہ میں گواھی دیتا ھوں کہ تو جنتی ھے ، فجر کی نماز میں جانے والی عورت کو پکڑ کر بدکاری کرنے والے شخص کی جگہ جب اس عورت کی گواھی پردوسرا بیگناہ پکڑا گیا اور اس کو سنگسار کیا جانے لگا تو وہ زانی اٹھ کر کھڑا ھو گیا کہ مصطفی ﷺ پر بے انصافی کا الزام نہ لگ جائے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ اس عورت کا مجرم میں ھوں ، یہ شخص بے گناہ ھے ، آپ نے اس شخص کو بھی معاف کر دیا اور زانی کو بھی یہ کہہ کر معاف کر دیا کہ اس نے وہ توبہ کی ھے جو سارے مدینے والوں کی نجات کے لئے کافی ھو – اس طرح امت کو ساتھ لے کر چلے ھیں نبئ کریم ﷺ جبکہ آج کل لوگوں نے یہ روش اختیار کر رکھی ھے کہ میرے پاس 2016 ماڈل گاڑی ھے تو میں نے ھر ایک پر 160 کلومیٹر فی گھنٹہ چلانا واجب قرار دیا جبکہ شریعت 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کا مطالبہ کر رھی تھی ،، جس پہ ھر ماڈل والا چلا سکے – بعض کام ھماری عادت بن چکے ھوتے ھیں مگر ھم ان کو تقوے کا نام دیتے ھیں ، اور اس کے خلاف کرنے کو دل نہیں چاھتا کہہ کر تقوے کا اظہار کرتے ھیں ، آپ اپنے دیوار کے شیشے کی جگہ تبدیل کر دیں ، چند دن تک آپ وضو کے بعد کنگھی کرنے ٹھیک پہلی جگہ جا کر کھڑے ھو جائیں گے تا آنکہ آپ کو آئستہ آئستہ نئ جگہ کی عادت پڑ جائے گی ، پہلی عادت تقوی اور دوسری جگہ گناہ نہیں تھی مگر میں نے اس کو تقوی سمجھ کر سب پر میرے شیشے کی جگہ واجب کر دی –