سنت اور حدیث –
سنت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ھوتا ھے کہ یہ عمل ھوتا ھے لہذا کبھی کمزور نہیں ھوتا ، کبھی کسی نے قوی سنت یا ضعیف سنت یا موضوع سنت یا حسن سنت یا غریب سنت نہیں کہا نہ ھی لکھا ،، جبکہ قول اگر صحیح ھوتا ھے تو ضعیف بھی ھوتا ھے ، اور غریب بھی ھوتا ھے اور موضوع و حسن بھی ھوتا ھے ، اس کی وجہ یہ ھے کہ قول جھوٹا بھی ھوتا ھے اور سچا بھی ھوتا ھے مشکوک بھی ھوتا ھے ، ایک زانی بھی جب غسل کرتا ھے تو سنت کے مطابق کرتا ھے ، ایک چور بھی جو جوتی اٹھا کر لے جاتا ھے اپنی مسجد میں پڑھی گئ نماز سنت کے مطابق ھی ادا کرتا ھے جو وہ اپنے ابا کو اور اس کا ابا اپنے ابا کو اور،،،،، پھر ابن مسعودؓ کو اور ابنِ مسعودؓ نبئ کریم کو دیکھ کر پڑھتے چلے آ رھے ھیں ، میرے نزدیک صحیح سے صحیح حدیث بھی ابی حنیفہؒ کے بیان کردہ اثر کا مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ وہ عمل ھے ،، جو عمل اور تسلسل سے جاری چلا آ رھا ھے ، تب سے جب صحاح ستہ کا کہیں وجود نہیں تھا اور نہ ان کے مصنفین پیدا ھوئے تھے ،،، ایک چور کی گواھی کو رد کیا جا سکتا ھے جس سے اس کی بیان کردہ حدیث تو رد و ضعیف ھو جائے گی مگر اس کی پڑھی گئ نماز کے رد ھونے کا فتوی کوئی نہیں دیتا ،،،،،
جرح و تعدیل میں تعصب کا عمل دخل ،،،
محدثین میں جامعین صحاح یا امام مالک امام احمد بن حنبل اور ان جیسے اکابر محدثین رحمہ اللہ کی دیانت و خلوص میں ان کی وثاقت و عدالت میں کسی طرح کا شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح ائمہ رجال کی تفتیش و تمحیص اور دیانتدرانہ تحقیق و تدقیق سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مگر یہ سب حضرات انسان تھے اور انسان کی فطرت میں بھول چوک بھی ہے اور رعایت و مروت بھی ہے۔ محبت و عداوت بھی ہے اور بہت سی انسانی کمزوریاں بھی ہیں۔ ان محدثین و ائمہ رجال رحمہ اللہ کو تمام انسانی کمزوریوں سے پاک و منزہ سمجھنا غلط ہی نہیں گناہ بھی ہے اور درحقیقت گناہ کبیرہ ہے۔ محدثین میں جو جامعین سنن ہیں یہ اس زمانہ کے لوگ ہیں جب فرقہ بندی مسلمانوں میں پیدا ہو چکی تھی۔ اس لئے فرقہ ورانہ تعصب ان میں نمایاں تھا اکثر محدثین شافعی تھے۔ حنفیوں کے ساتھ ان کا تعصب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ امام بخاری شافعی تھے اس لئے امام ابو حنیفہ کی طرف سے کچھ کچھاؤ رکھتے تھے۔ چنانچہ اپنی کتاب تاریخ صغیر میں ایک روایت لکھ گئے کہ “نعیم بن حماد نے ہم سے بیان کیا کہ ہم سے فزاری نے کہا کہ میں سفیان (ثوری) کے پاس تھا کہ نعمان (امام ابو حنیفہ) کی وفات کی خبر پہنچی۔ تو سفیان نے کہا الحمد للہ ! اس شخص نے اسلام کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی تھیں۔ اسلام میں اس سے زیادہ منحوس آدمی پیدا نہ ہوا”۔(تاریخ صغیر صفحہ 174 مطبوعہ انوار احمدی الٰہ آباد) حالانکہ نعیم بن حماد کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الضعفاء الصغیر صفحہ 29 میں ضعیف لکھا ہے اور مشہور شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجر تہذیب التہذیب جلد 10 صفحہ 462 میں اس نعیم بن حماد کو کذاب لکھتے ہیں اور صاف طور سے تحریر فرماتے ہیں۔ دو دو جگہ صفحہ 462 اور 463 میں کہ کان یضع الحدیث فی تقویۃ السنۃ و حکایات فی ثلب ابی حنیفہ کلھا کذب یعنی ” نعیم بن حماد سنت کی تقویت کے لئے حدیثیں گھڑا کرتے تھے اور (امام) ابو حنیفہ کی تنقیض میں حکایتیں گھڑا کرتے تھے اور وہ سب جھوٹی ہوتی تھیں” اور فزاری صاحب جن کا نام مروان بن معاویہ ہے وہ بھی نعیم بن حماد سے کچھ کم نہ تھے مجہول لوگوں سے غلط سلط روایتیں کرتے تھے اور کبھی راویوں کے نام بھی بدل دیتے تھے اس لئے ان کے معروف و مجہول دونوں قسم کے شیوخ مشتبہ ہی حال میں تھے۔ چنانچہ ابن حجر تہذیب التہذیب جلد 1 صفحہ 160 میں لکھتے ہیں کہ یہ ابراہیم بن محمد سے روایت کرتے تھے مگر نام بدل کے یعنی ابراہیم کو عبدالوہاب قرار دے کر۔ مگر جلد 10 صفحہ 98 میں ان کے اوصاف حسنہ کی تصریح کی ہے۔غرض ائمہ حدیث ہوں یا ائمہ رجال کمزوریوں سے وہ بری نہ تھے ،،،،،
اسی طرح یہ کسی کی توثیق کرنے والے اور تضعیف کرنے والے حضرات بھی ٹھیک ھماری طرح کے انسان تھے اور ھر وہ جذبہ ان میں بدرجہ اتم پایا جاتا تھا جو آج کے عام انسان اور خصوصاً علماء میں پایا جاتا ھے کہ اپنے شیخ کی محبت میں اندھے بہرے گونگے ھو جاتے ھیں ، اور کسی کی دشمنی میں بھی حد سے نکل جاتے ھیں ، چنانچہ وہ جس سے محبت کرتے تھے اس کی برائی کو قبول نہیں کرتے تھے اور جس سے کد ، دشمنی ،عداوت یا کینہ رکھتے تھے اس کی اچھائی کو تسلیم نہیں کرتے تھے ،، امام ابوحنیفہ کا واقعہ تو آپ پڑھ چکے کہ امام بخاری جیسے محدث نے بھی ایک ضعیف راوی کی حدیث جانتے بوجھتے صرف اس وجہ سے لے لی کہ وہ ان کے غیبی دشمن کے خلاف تھی جو ان کی حدیثوں کی ترویج کی راہ میں سنت کی سدِ سکندری بنائے بیٹھا تھا اور قبر کے اندر سے بھی مزاحمت جاری رکھے ھوئے تھا ،،
عبدالرزاق ابن ھمام جو تمام محدثین کے شیخ ھیں اور اپنی تصنیف ” مصنف عبدالرزاق ” کے لکھنے والے بھی ھیں ،، وہ شیعہ ھو گئے تھے ابن معین ان کے شیعہ ھونے کی تصریح بھی کرتے ھیں اور اس سے پوچھا بھی ھے کہ آپ کے سارے شیوخ تو اھل سنت تھے آپ شیعہ کیونکر ھو گئے تو اس نے کہا کہ ابوجعفر میرے پاس آئے تو ان کے تقوے نے مجھے شیعہ کر دیا ،، اب آگے محبت کی کارفرمائی دیکھئے ،،
ابو صالح محمد بن اسماعیل ضراری کا بیان ہے کہ ہم لوگ شہر صنعا میں عبدالرزاق کے پاس تحصیل علم حدیث میں منہمک تھے ہمیں خبر ملی کہ امام احمد اور ابن معین نے عبدالرزاق کی حدیثوں کو شیعہ ہونے کی وجہ سے متروک قرار دے دیا ہے ہمیں اس خبر سے بڑا صدمہ ہوا کہ ساری محنت اکارت گئی پھر ہم حاجیوں کے ہمراہ مکہ آئے وہاں ابن معین سے ملاقات ہوئی ہم نے ان سے دریافت کیا۔ انھوں نے کہا اگر عبدالرزاق مرتد بھی ہوجائیں تو ( وہ اتنے ثقہ ہیں کہ ) ہم ان کی حدیثوں کو متروک نہیں قرار دے سکتے۔( میزان الاعتدال تذکرہ عبدالرزاق)
آپ نے دیکھا کہ عبدالرزاق اگر مرتد بھی ھو گیا ھوتا تو محبت اتنی گہری ھے کہ تب بھی اس کی بیان کردہ حدیثیں قوی ھی رھتیں کیونکہ ان کی بنیاد شخصی محبت کی قوت ھے ،،
مزید نمونے ملاحظہ فرمایئے ،،،
حدیثِ رسول کے ایک قوی راوی ھیں ” عثمان بن ابی شیبہ ” ان کو عثمان بن محمد بن ابراھیم بن عثمان بن خوستی یا خواستی العبسی ابوالحسن بن ابی شیبہ الکوفی کہا جاتا ھے ، ان کی مسند یعنی ذخیرہ روایات اور تفسیر بہت مشہور ھے – بخاری میں ان کی 53 روایتیں ھیں اور مسلم میں 135 ھیں –
امام محمد بن ادریس ابوحاتم الرازی فرماتے ھیں کہ کسی نے ان کے سامنے امام بخاری کے شیخ محمد بن عبداللہ بن نمیر سے عثمان بن شیبہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ سبحان اللہ مثلہ یسئل عنہ ؟ یعنی سبحان اللہ بھلا اس جیسے آدمی کے بارے میں بھی کسی کی رائے جاننے کی حاجت ھے ؟ ابن ابی حاتم ان کے متعلق اپنے والد سے روایت کرتے ھیں کہ بہت سچے انسان تھے ،، یحی ابن معین کہتے ھیں کہ محمد بن حمید الرازی اور عثمان بن ابی شیبہ دونوں ثقہ ھیں – لوگوں نے پوچھا کہ ان میں سے کون آپ کو زیادہ محبوب ھے ؟ تو فرمایا کہ دونوں ثقہ ھیں ، دونوں امین ھیں ، دونوں مامون ھیں – ایک دوسرے شخص سے کہا کہ ابوبکر بن ابی شیبہ اور عثمان بن ابی شیبہ دونوں ثقہ ھیں ، سچے ھیں اس میں کوئی شک نہیں ،، اب آپ کوئی بھی بری سے بری روایت بھی اس بندے سے مروی ھو چاھے اس کی زد قرآن پہ آتی ھو یا اللہ پر آتی ھو یا رسول اللہ ﷺ پر آتی ھو ، آپ اعتراض کریں گے تو لوگ یہی جگہ نکال کر اس کی مقام بیان کر دیں گے کہ جب اتنے لوگ ان کو ثقہ کہہ رھے ھیں تو ان کی روایت سچی ھے اور تم منکرِ حدیث ھو ،، جبکہ اس بندے کی ساری تصویب و توثیق ذاتی محبت و تعلق پر مبنی ھے ورنہ یہ ایک دشمنِ دین شخص ھے جس پر باقاعدہ حد جاری ھوتی ھے اگر توبہ نہ کرے ،،، وجہ اگلی سطروں میں پڑھ لیجئے ،،
امام دارقطنی اپنی کتاب تصحیف میں ابوالقاسم بن کاس سے اور وہ ابراھیم انحصاف سے روایت کرتے ھیں کہ عثمان بن ابی شیبہ نے اپنی تفسیر ھم لوگوں کے سامنے پڑھی تو سورہ یوسف کو پڑھا – فلما جھزھم بجھازھم جعل السفینۃ فی رحلِ اخیہ ” پڑھا ( جب ان کا سامان تیار کرا دیا تو سفینہ یعنی جہاز اپنے بھائی کے بوریئے میں رکھ دیا ) جبکہ اصل آیت میں جعل السقایۃ فی رحلِ اخیہ ” ھے یعنی پیالا اپنے بھائی کے بوریئے میں رکھ دیا ،، لوگوں نے کہا کہ قرآن میں تو” جعل السقایۃ ” ھے تو عثمان بن ابی شیبہ نے کہا کہ میں اور میرا بھائی یعنی ابوبکر بن ابی شیبہ عاصم کی قرأت نہیں پڑھتے ،، گویا سوائے عاصم کے باقی سارے جعل السفینۃ پڑھتے ھیں ،،حالانکہ سارے ھی جعل السقایہ ھی پڑھتے ھیں مگر اپنی غلطی ماننے کی بجائے قرآن کو تبدیل کر دیا ،،
اسی کتاب میں امام دارقطنی احمد بن کامل سے اور وہ حسن بن حباب القری سے روایت کرتے ھیں کہ عثمان بن ابی شیبہ نے ” الم تر کیف فعل ربک باصحاب الفیل کو الف لام میم کیف فعل ربک ،، پڑھا ،،،
اسی کتاب میں یہ بھی مروی ھے کہ سورہ البقرہ میں جو آیت ” واتِبَعوا ما تتلوا الشیاطین علی ملک سلیمان ، وحی الہی کو چھوڑ کر پیچھے لگ گئے اس چیز یعنی جادو کے جو کہ شیاطین پڑھتے تھے سلیمان کے کی سلطنت کے نام سے ، کو عثمان بن ابی شیبہ حکم کے صیغے ” واتَبِعوا ماتتلوا شیاطین علی ملک سلیمان یعنی با کی زبر کو زیر پڑھ کر صیغہ امر میں تبدیل کر دیتا تھا ،، یعنی تم کو چاھئے کہ پیروی کرو اس کی جو شیاطین پڑھتے ھیں سلمان کی حکومت کا نام لے کر ،، گویا کلمہ کفر ھو گیا کہ اللہ خود جادو یعنی کفر کا حکم اور ترغیب دے رھا ھے ،،
اتنا تو ابن حجر العسقلانی نے بھی لکھا ھے کہ اس سے بخاری ، مسلم ابو داود، نسائی ، ابن ماجہ نے روایتیں لی ھیں اور ابن معین نے اس کو ثقہ و امین کہا ھے ، ابو حاتم نے صدوق کہا ھے مگر امام احمد نے اس کی کچھ روایتوں کو منکر قرار دیا ھے اور پھر لکھتے ھیں کہ ” کان یصحف القرآن ” یہ قرآن کو بدل دیا کرتا تھا ، البتہ عذر یہ پیش کرتے ھیں کہ و قیل کان لایحفظہ ،، کہ چونکہ قرآن اس کو حفظ نہیں تھا اس لئے ایسی غلطیاں کرتا تھا ،، غور نہیں کرتے کہ وہ لغت تبدیل کر رھا ھے کیا اسے اتنا بھی یاد نہیں رھتا تھا کہ جہاز بوریئے میں نہیں آتا اور اللہ کفر کا حکم نہیں دیتا پھر وہ زیر و زبر کے فرق کو بھی نہیں سمجھتا تھا ؟ کیا اس کو عربی بھی نہیں آتی تھی کہ اس کے منہ سے کیا نکل رھا ھے ،، الم ترکیف بھی اس کو یاد نہیں تھی ،، مگر جناب امام بخاری اس سے 53 حدیثیں لے کر بیٹھے ھوئے ھیں اور امام مسلم 135 ،،،
امام ذھبی میزان الاعتدال میں لکھتے ھیں کہ کسی محدث سے قرآن بدلنے کے واقعات اس کثرت سے بیان نہیں ھوئے جتنے اس عثمان ابن ابی شیبہ سے روایت ھیں ،، یہ سورہ الحدید کی آیت ” فضرب بینھم بسورٍ لہ باب ،، پس ان کے درمیان دیوار کھڑی کر دی جس میں ایک دروازہ تھا ،، کو فضرب بینھم بسنورً لہ ناب ،،پڑھا کرتا تھا ،کہ ان کے درمیان ایک بلی کھڑی کر دی گئ جس کی ایک دُم تھی ،، اور جب ٹوکا گیا تو بولے کہ ،، ھم حمزہ کی قرأت نہیں پڑھتے ،، گویا باقی سارے بلی اور دم پڑھا کرتے تھے بس حمزہ ھی ایک دیوار جس کا دروازہ پڑھا کرتا تھا ،، جبکہ تمام قراتوں میں اس کو بسور لہ باب ھی پڑھا جاتا ھے ،، دل پہ ھاتھ رکھ کر بتایئے یہ قرآن ،خدا اور دین کے ساتھ ٹھٹھا اور استھزاء نہیں ؟ اور کیا یہ قرآن کا معجزہ نہیں کہ وہ اس قسم کے ” ثقہ اور صدوق” راویوں سے بچ کر ھم تک پہنچا ھے ،، کبھی آپ نے غور فرمایا ھے کہ اللہ پاک نے قرآن کو کن سے محفوظ رکھنے کا ذمہ لیا تھا ؟ عیسائی ،ھندو یہودی سکھ سے نہیں ،، ان جیسے ثقہ راویوں اور علماء سوء سے حفاظت کا ذمہ لیا تھا قرآن جن کی دسترس میں تھا ، اور اللہ نے اس وعدے کو سچ کر دکھایا ،، قرآن کو کبھی بھی عوام سے نہ خطرہ تھا نہ ھے اور نہ ھو گا ،،،
اب غور طلب بات یہ ھے کہ جو شخص قرآن جیسی کتاب کو بدلنے سے نہیں شرماتا جو ساری امت کو یاد ھے اور ھر علاقے میں اس کے حفاظ مل جاتے تھے جو ھر رمضان میں اس کا دورہ بھی کیا کرتے تھے ، وہ بھلا اس حدیث کو کیونکر نہیں پلٹے گا جس کو دنیا پہلی دفعہ اس کے منہ سے سن رھی ھے اور کوئی دوسرا اس کا گواہ بھی نہیں ھے ،، مگر پھر بھی یہ ثقہ اور قابلَ اعتبار ھے کہ اللہ کی حدیث قرآن کو 180 ڈگری پلٹ دیتا ھے مگر رسول ﷺ کی حدیث کو من و عن پہنچاتا ھے ،، جو چاھے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے