محصن کون ھے –
کہا جاتا ھے کہ محصن یا محصنہ ( شادی شدہ مرد یا عورت ) وہ ھے جس کی زندگی میں ایک دفعہ شادی ھو جائے – پھر چاھے وہ چند دن قائم رھے یا چند سال ، پھر بے شک طلاق ھو جائے یا وہ عورت بیوہ ھو جائے یا مرد رنڈوہ ھو جائے – اور عرصہ دراز مثلاً دو سال یا دس سال سے انہیں اپنی شہوت کی آگ بجھانے کو بیوی یا عورت کو شوھر دستیاب نہ ھو ، تب بھی اگر ان سے بدکاری کا ارتکاب ھو گیا تو اس کو سنگسار کیا جائے گا – گویا اصل قصور ان کا شادی کرنا تھا چاھے وہ شادی دو دن قائم رھے یا دو سال – البتہ کنوارا آج بدکاری کرے تو تازہ تازہ سو کوڑے کھائے ، اور پھر کل بھی کر لے تو کل بھی گرما گرم 100 کوڑے کھا لے اور مہینے میں 30 دن اور ھفتے میں سات دن اور سال میں 365 دن بھی بدکاری کرے اور 30 سال تک یہی کرتا رھے تو بھی وہ کنوارا ھی مانا جائے گا یعنی روز کوڑے کھا کر اگلے دن کے لئے دستیاب رھے گا – واضح رھے یہ شرعی کوڑے ھیں ضیاء الحق یا طالبانوں کے مارشل لائی کوڑے نہیں – شرعی کوڑے میں کہنی کو جسم سے ہٹائے بغیر کوڑا مارنا ھے ،، جبکہ طالبانی اور ضیائی کوڑے میں کوڑا مارنے والا کوڑے کو گھماتا ھوا لا کر کر لہرا کر( ہنگا کر) کوڑا مارتا ھے جو کپڑے کو پھاڑتا ھوا جسم میں گھس جاتا ھے –
(( جاء في الموسوعة الفقهية (2/227) : ” وَمِمَّا تَجْدُرُ الْإِشَارَةُ إلَيْهِ أَنَّهُ لَا يَجِبُ بَقَاءُ النِّكَاحِ لِبَقَاءِ الْإِحْصَانِ , فَلَوْ نَكَحَ فِي عُمُرِهِ مَرَّةً ثُمَّ طَلَّقَ وَبَقِيَ مُجَرَّدًا , وَزَنَى رُجِمَ ” ))
(( لا يلزم في إقامة حد الرجم أن يكون – الرجل أو المرأة – متزوجاً حال فعل الزنا ، فمن طلق أو ماتت زوجته بعد الدخول بها ، فإنه محصن إذا توفرت فيه بقية الشروط ، وكذا من طلقت أو مات زوجها ، فإنها محصنة .))
محصن اور غیر محصن کی یہ تعریف پڑھ کر آپ کو اندازہ ھو گیا ھو گا کہ شادی کرنا کتنی بڑی حماقت ھے ،، کہ جس میں دو دن بیوی سے ہمبستری کر کے انسان ساری زندگی کے لئے موت کے منہ میں کھڑا ھوتا ھے – جبکہ شادی نہ کرنے والا ساری زندگی عورت کو روزانہ چھکتا رھے پھر بھی زیرو میٹر اور کنوارہ ھی گنا جاتا ھے اور اسی طرح عورت بھی کنواری ھی گنی جاتی ھے چاھے کتنے ابارشن کرا لے – تو اصل جرم نکاح بنتا ھے جس کے بعد سزا اتنی بھیانک بنا دی جاتی ھے جبکہ کنوارہ سدا کوڑے کا ھی مستحق رھتا ھے –
اب اس کے بعد قاضی عیاض کی تشریح اور ابنِ حجر کا اس سے اتفاق سن کر آپ کے رونگٹے کھڑے ھو جائیں گے کہ رسول اللہ ﷺ کے عمل سے ثابت کرتے ھیں کہ ان کے نزدیک محصن یا محصنہ وھی ھو گا یا ھوگی جس کو بیوی یا شوھر دستیاب رھے تا کہ وہ اپنی جنسی شھوت کو پورا کر سکے ، بیوی یا شوھر کی دستیابی کے باوجود اگر کوئی یہ جرم کرتا ھے تو اس کی سزا سنگین ھو گی کہ متبادل اور حلال کی موجودگی میں حرام کا ارتکاب کیا ھے – گویا وہ مرد یا عورت محصن یا محصنہ نہیں سمجھے جائیں گے جن کی بیوی مر چکی ھو یا شوھر مر گیا ھو یا طلاق یافتہ ھوں – متبادل کی غیر موجودگی میں دونوں کو معذور سمجھ کر کنوارے والی ھی سزا دی جانی چاھئے –
( واضح رھے کہ شادی شدہ عورت کو یا مرد کو زنا کی صورت میں سنگسار مجرد زنا کی وجہ سے نہیں کیا جاتا بلکہ اصل میں اس جرم میں کیا جاتا ھے کہ انہوں نے ایک غیر نسل بچے کو دوسری نسل میں گھسانے کی جسارت کی ھے یا رسک پیدا کر دیا ھے – عورت کنواری ھو تو اس سے کنوارا بدکاری کرے یا شادی شدہ بچہ اگلی نسل میں نہیں جائے گا کیونکہ وہ کسی کی بیوی نہیں تو بچہ بھی کسی نسل سے منسوب نہیں ھوگا ، اب اس بچے کو پیدا کر بھی لیا جائے تو نانا ، نانی ھی پالیں گے ، یا ابارشن کرا دیا جائے گا )
رسول اللہ ﷺ سے منسوب جنسی اور ازدواجی واقعات –
ابن حجر چونکہ ایک حدیث کی تشریح میں یہ تعریف لائے ھیں لہذا وہ حدیث بیان کرنا بھی ضروری ھے – رسول اللہ ﷺ نے مکے میں اعلان نبوت فرمایا تھا ، اور اگر رسول ﷺ کو 30 جنتی مردوں کی جنسی قوت عطا فرما دی گئ تھی یا 40 مردوں کی ، مختلف اقوال کے مطابق ایک جنتی مرد کو 100 مردوں کے برابر قوت ھو گی گویا 40 جنتی مردوں کی جنسی قوت 4000 عام انسانوں جتنی ھو گئ –
یہ قوت رسول اللہ ﷺ کو مکے میں اعلانِ رسالت کے ساتھ ھی حاصل ھو گئ تھی اور اگر آپ ﷺ کو شروع سے رسول مان لیا جائے تو جس طرح باقی جسمانی قوتیں ، سماعت ، بصارت ، اور گویائی ھمیشہ سے حاصل تھی یہ قوت بھی شروع سے ھی حاصل تھی ، تب بھی ھم دیکھتے ھیں کہ نبئ کریم ﷺ نے مکے میں ایک ایسی خاتون کے ساتھ نہایت مھذب ازدواجی زندگی گزاری ھے کہ جو عمر میں بھی رسول اللہ ﷺ سے بڑی تھیں اور بال بچے دار اور دو دفعہ کی بیوہ تھیں یعنی رسول اللہ ﷺ سے پہلے دو مردوں سے شادی کر چکی تھیں – اس دوران مکی دور میں ایک واقعہ بھی غیر مھذب یا جنسی افراتفری کا نہیں ملتا – اس کی وجہ مکے میں منافق راویوں کی عدم دستیابی بھی ھو سکتی ھے – مگر مدینے میں عمر کے اضافے اور زھر خورانی کے نتیجے میں جوڑوں کے درد اور بیک وقت 9 ازواج دستیاب ھونے کے باوجود نبئ کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی کو نہایت غیر معتدل ، اور افراتفری کے انداز میں پیش کیا جاتا ھے گویا اک آگ ھے کہ جو بجھنے کا نام نہیں لیتی ، خدا گواہ ھے کہ میں اس قسم کے الفاظ اور اس قسم کے واقعات دل پر پتھر رکھ کر استعمال کرتا ھوں جبکہ میرا دل خون کے آنسو روتا ھے کہ ھمارے مقدسوں نے ھمارے رسول ﷺ کو کس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا ھے –
1- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَدُورُ عَلَى نِسَائِهِ فِي السَّاعَةِ الْوَاحِدَةِ مِنَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَهُنَّ إِحْدَى عَشْرَةَ.
قَالَ: قُلْتُ لأَنَسٍ: أَوَ كَانَ يُطِيقُهُ؟ قَالَ: كُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّهُ أُعْطِيَ قُوَّةَ ثَلاَثِينَ.
وَقَالَ سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ إِنَّ أَنَسًا حَدَّثَهُمْ: تِسْعُ نِسْوَةٍ.
[الحديث أطرافه في: 284، 5068، 52155] .
یہ حدیث بخاری شریف کی ھے انس بن مالکؓ سے روایت ھے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی تمام بیویوں پر کہ جن کی تعداد اس وقت نو تھی دن یا رات کی ایک ساعت میں ھی پھر آیا کرتے تھے ، اور دیگر کتابوں میں یہ الفاظ بھی ساتھ ملتے ھیں کہ ” یغسل عند ھذہ و ھذہ ” ھر ایک کے یہاں غسل بھی فرماتے جاتے تھے- جس کی تاویل بعض شارحین نے وضو بھی کی ھے کہ وضو کر کے اگلی زوجہ کے پاس چلے جاتے تھے – راوی نے تعجب سے حضرت انسؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کو اتنی طاقت تھی ؟ تو انہوں نے کہا کہ ھم آپس میں بات کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کو 30 مردوں کی قوت عطا کی گئ ھے ( مختلف روایات میں کہیں 30 اور کہیں 40 کا ذکر ھے اور کہیں باقاعدہ 40 جنتی مردوں کے برابر قوت کا ذکر ھے ، بہرحال امام بخاریؓ تو شیرہ لگاتے ھیں باقی کام دوسرے محدثین پورا فرما دیتے ھیں )
—–
اب بعض شارحین نے بات کو ہلکا کرنے یا دبانے کے لئے تاویل کی کہ یہ واقعہ کسی سفر سے واپسی کا ھے ،مگر حدیث کے الفاظ اس بات کو قبول نہیں کرتے ” کان ” کا لفظ استمرار کو ثابت کرتا ھے کہ یہ آنجنابﷺ کا معمول تھا ، اس طرح کیا کرتے تھے – کان یصلی کا مطلب ھو گا اس طرح نماز پڑھا کرتے تھے ، نہ کہ بس ایک دفعہ اس طرح نماز پڑھی تھی ، دوسری بات یہ کہ نبئ کریم ﷺ کی جنسی قوت کے تذکرے صحابہؓ میں سر عام ھوتے تھے (کنا نتحدث ) ھم آپس میں بات کیا کرتے تھے سے یہی مترشح ھوتا ھے – بعض روایتوں میں وقت کا تعین بھی کیا گیا ھے کہ ایسا دن میں عصر کے بعد کیا کرتے تھے اور رات کو عشاء کے بعد – اس ساعت سے مراد شمسی ایک گھنٹہ تو نہیں لیا جا سکتا کیونکہ اس وقت ایجاد ھی نہیں کیا گیا تھا – بس گھڑی کا لفظ ھی استعمال کیا جا سکتا ھے کہ دن یا رات کی ایک گھڑی میں – ایک مصری عالم تشریح فرما رھے تھے کہ سلیمان علیہ السلام ایک پلک چھپکنے میں تخت یمن سے فلسطین لا سکتے ھیں تو رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج کے پاس ھی ایک گھنٹے میں نہیں جا سکتے – سوال پھر وھی ھے کہ مکے میں بھی یہی رسول ﷺ تھے ، مدینے میں کیا ھو گیا تھا ؟ کہ دوستوں کی مجلس میں بیٹھے ھیں ، ایک عورت سامنے سے گزری ھے ، اٹھ کر اپنی زوجہ زینب کے پاس تشریف لے گئے ھیں جو بقول راوی کھال کی دباغت کر رھی تھیں ، کھال کی دباغت کافی گند والا اور بدبودار کام ھوتا ھے ، اسی حالت میں ان کو ازدواجی تعلق کے لئے کہا گیا اور پھر غسل فرما کر سر سے پانی کے قطرے بہتے ھوئے دوستوں میں واپس تشریف لائے اور ان کو بتایا کہ یہ عورت نام کی مخلوق آ رھی ھو یا جا رھی ھو دونوں صورتوں میں اس کے ساتھ شیطان ھوتا ھے جو اس میں کشش پیدا کر دیتا ھے آگے سے بھی اور پیچھے سے بھی ، ابھی ایک عورت گزری تھی تو مجھے دل میں تغیر محسوس ھوا اور میں اپنی زوجہ کے پاس جا کر اپنی حاجت پوری کر آیا ھوں ، تم میں سے بھی اگر کسی کو کوئی عورت دیکھ کر ایسا محسوس ھو تو اپنی بیوی کے پاس جائے کیونکہ اس کے پاس اس کا علاج ھے –
(( يروي مسلم فی کتاب النکاح : أن رسول الله رأى امرأة . فأتى امرأته زينب وهي تهمس فيئة لها فقضى حاجته ثم خرج إلى أصحابه فقال : إن المرأة تقبل في صورة شيطان وتدبر في صورة شيطان فإذا أبصر أحدكم امرأة فليأت أهله فإن ذلك يرد ما في نفسه ))
خیر اب آیئے ابن حجر کی شرح کی طرف کہ وہ اس طواف النساء کو کس پسِ منظر میں دیکھتے ھیں اور دلیل میں عیاض کا قول پیش کرتے ھیں ، اس سے ایک تو احصان کی تشریح ھو جائے گی اور دوسری یہ بات بھی واضح ھو جائے گی کہ ھمارے اسلاف کس جرأت کے ساتھ بہت بڑی بات کتنے ہلکے انداز میں کر جایا کرتے تھے کیونکہ اس زمانے میں توھین توھین اور گستاخ گستاخ کا کھیل نہیں کھیلا جاتا تھا اور لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی مسلمان توھین کی نیت سے بھی نبئ کریم ﷺ یا ازواجِ مطھرات کے بارے میں کوئی بات کر سکتا ھے – جبکہ آج کا مولوی اپنے سوا کسی کو پکا مسلمان سمجھتا ھی نہیں اس کو ھر مسلمان گستاخ نظر آتا ھے اور وہ سب سے پہلے اس کی نیت پر ھی وار کرتا ھے –
ابن حجرعیاض کا قول بلا تنقید لکھتے ھیں کہ رسول اللہ ﷺ ساری ازواج کے پاس بیک وقت اس لئے جاتے تھے تا کہ ان کو محصنات بنا کر رکھیں ،( یعنی ان کی جنسی ضرورت کو بدرجہ اتم پورا کر دیں ) تا کہ وہ اس ضرورت کے لئے کسی دوسرے شوھر کا خیال یا چاہت یا تمنا نہ کریں –
اگر اس کو امھات المومنین کی گستاخی سمجھا جائے تو یقیناً یہ زمین آسمان سے بھی بڑی گستاخی ھے – رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج سے سب سے زیادہ غزوہ تبوک میں دور ھوئے تھے جس میں دو ڈھائی ماہ کی دوری ھوئی تھی ، ان دو ڈھائی ماہ کی دوری کو اس درجے تک لے جانا کہ ازواج مطھرات امھات المومنین کو کسی اور مرد کا خیال بھی آ سکتا ھے ایک بہت بڑی جسارت ھے ،مگر ھم کیا کر سکتے ھیں ،، اسلاف جنگل کے شیر ھیں –
(( ونقل ابن حجر عن عياض قوله : أن الحكمة في طوافه عليهن في الليلة الواحدة كان لتحصينهن . وكأنه أراد به عدم تشوفهن للأزواج . إذ الاحصان له معان منها الإسلام والحرية والعفة . والذي يظهر أن ذلك إنما كان لإرادة العدل )