فرشتوں کی دعا سے محروم لوگوں کے لئے مقامِ عبرت ،،
1985 کی بات ھے ابوظہبی میں ایک ڈیڑھ سال کی جماعت آئی تھی جس کے ساتھ ایک بہترین خطیب تھے جن کا تعلق پنجاب سے تھا ،، مولانا طارق جمیل صاحب بس ان سے کچھ ھی کم ھونگے ،، واللہ جب بیان شروع ھوتا تو لوگوں کے ٹھٹھ لگ جاتے ،، لوگ ایک دوسرے کے اوپر گرتے مگر نہ گرنے والے کو ھوش ھوتی اور نہ جس پر گر پڑو اسے غصہ کرنے کی فرصت تھی ،آنکھیں خطیب پر جمی ھوتیں جیسے کہ سارا مجمع ھپناٹائز ھو چکا ھو –
ان صاحب نے ابوظہبی سے نقد جماعتوں کی لائن لگا دی ، جو پہلی بار بیان سنتا وھیں سے نقد نکل پڑتا ،، انہوں نے بیان میں بتایا کہ جب حق زوجیت ادا کرنے کے بعد غسل کرتے ھیں تو اللہ پاک اس غسل کے پانی کے ھر قطرے کے عوض ایک فرشتہ بناتا ھے ،، اور وہ فرشتے اس جوڑے کے لئے قیامت تک مغفرت کی دعا کرتے رھیں گے ،[ یہ روایت ہم نے متعے کے فضائل میں بھی پڑھی ھے ] اس کے بعد تو اجڑی ھوئی کھیتیاں سرسبز ھو گئیں ،، اجڑے گھر بس گئے – اور یہ کنایہ ضرب المثل بن گیا کہ ” کیا خیال ھے آج فرشتے نہ بنا لیں ؟” کون کافر اس سے انکار کر سکتا تھا ،،
ھمارے پلانٹ کی پوری الگ جماعت ھوتی تھی جس کے امیر حاجی اسداللہ صاحب ھوا کرتے تھے جنہوں نے غالباً 30 حج کئے ھوئے تھے ،وہ کوئی حج مس نہیں کیا کرتے تھے ھیڈ آف ایڈمنسٹریشن تھے ،، ان کو ھمارے ایک ساتھی نے اردو میں چھٹی کی درخواست لکھ کر دی اور آخر میں بریکٹ میں لکھ دیا کہ "(سر جی قسم سے دو سال سے فرشتے نہیں بنائے ) مینیجر Mr Pangbourn گورا تھا ،،
1985 کی بات ھے ابوظہبی میں ایک ڈیڑھ سال کی جماعت آئی تھی جس کے ساتھ ایک بہترین خطیب تھے جن کا تعلق پنجاب سے تھا ،، مولانا طارق جمیل صاحب بس ان سے کچھ ھی کم ھونگے ،، واللہ جب بیان شروع ھوتا تو لوگوں کے ٹھٹھ لگ جاتے ،، لوگ ایک دوسرے کے اوپر گرتے مگر نہ گرنے والے کو ھوش ھوتی اور نہ جس پر گر پڑو اسے غصہ کرنے کی فرصت تھی ،آنکھیں خطیب پر جمی ھوتیں جیسے کہ سارا مجمع ھپناٹائز ھو چکا ھو –
ان صاحب نے ابوظہبی سے نقد جماعتوں کی لائن لگا دی ، جو پہلی بار بیان سنتا وھیں سے نقد نکل پڑتا ،، انہوں نے بیان میں بتایا کہ جب حق زوجیت ادا کرنے کے بعد غسل کرتے ھیں تو اللہ پاک اس غسل کے پانی کے ھر قطرے کے عوض ایک فرشتہ بناتا ھے ،، اور وہ فرشتے اس جوڑے کے لئے قیامت تک مغفرت کی دعا کرتے رھیں گے ،[ یہ روایت ہم نے متعے کے فضائل میں بھی پڑھی ھے ] اس کے بعد تو اجڑی ھوئی کھیتیاں سرسبز ھو گئیں ،، اجڑے گھر بس گئے – اور یہ کنایہ ضرب المثل بن گیا کہ ” کیا خیال ھے آج فرشتے نہ بنا لیں ؟” کون کافر اس سے انکار کر سکتا تھا ،،
ھمارے پلانٹ کی پوری الگ جماعت ھوتی تھی جس کے امیر حاجی اسداللہ صاحب ھوا کرتے تھے جنہوں نے غالباً 30 حج کئے ھوئے تھے ،وہ کوئی حج مس نہیں کیا کرتے تھے ھیڈ آف ایڈمنسٹریشن تھے ،، ان کو ھمارے ایک ساتھی نے اردو میں چھٹی کی درخواست لکھ کر دی اور آخر میں بریکٹ میں لکھ دیا کہ "(سر جی قسم سے دو سال سے فرشتے نہیں بنائے ) مینیجر Mr Pangbourn گورا تھا ،،
حاجی اسداللہ صاحب ظھر کی نماز پڑھنے نیچے اترے تو اسلم صاحب کو پکڑ کر ڈانٹا کہ وہ بریکٹ میں لکھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ گورا سائن کرنے سے پہلے بار بار پوچھ رھا تھا کہ بریکٹ میں اس نے کیا لکھا ھے ،، بڑی مشکل سے اس کو ٹالا ھے ،،