اذا عاھد غدر،،، او اذا وعد اخلف ،،
جب بھی وعدہ کرے اس کی خلاف ورزی کرے، جب عہد باندھے تو بے وفائی یا غداری کر دے !
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت میں فرمایا ،،
لا دین لِمن لا عہد لہ ،،، اس شخص کا کوئی دین نہیں جو اپنے عہد کا پابند نہیں !
اس کو تفصیل سے سمجھنے کے لئے اس مثال کو دیکھیں ،،،،،،،،،،،،،،،،،،
عدالت میں ھر شخص سے اس کے مذھب کی کتاب پر حلف لیا جاتا ھے اس حسن ظن کے ساتھ کہ یہ کتنا بھی گنہگار ھو مگر اپنی کتاب پر ھاتھ رکھ کر جھوٹ نہیں بولے گا ،، اب اگر وہ کتاب پر حلف لے کر بھی جھوٹ بول دے تو پھر اس کا کوئی دین نہیں،،
اس نے قرآن پر ھاتھ رکھ کر جھوٹ بولنا ھے ،، گیتا اور بائیبل پر ھاتھ رکھ کر بھی جھوٹ ھی بولنا ھے ،، گویا” لا دین لہ "،، ( اللہ کی قسم اس لئے نہیں لی جاتی کہ اللہ سب مذھبوں کا ایک ھے )
ھر مذھب کی کتاب اس شخص کا اللہ سے کیا گیا عہدنامہ ھوتا ھے ، ایک تحریری معاہدہ ھوتا ھے ، اسی لئے اسے Testament کہا جاتا ھے ،عہدنامہ قدیم old Testament, عہد نامہ جدید New testament , عہد نامہ اخیر Last testament ،،،،
اس کی مزید تشریح اللہ کے رسول ﷺ نے کچھ یوں فرمائی ھے کہ ” ما آمنَ بالقرآنِ من استحل محارمہ ” وہ شخص قرآن پر ایمان نہیں لایا جس نے اس کے حرام کو حلال کر لیا ،، یا اس کی حرام کردہ حدوں میں جا پڑا ،،،
عہد چھوٹا ھو یا بڑا ، اس کی بد عہدی پر مؤاخذہ ضرور ھونا ھے ،، و اوفوا بالعہد ، ان العہد کان مسئولا ،، وعدوں کی پابندی کرو یقیناً وعدوں کے بارے میں پرسش ھونی ھے ( بنی اسرائیل ) یہ بد عہدیاں گھر سے شروع ھوتی ھیں اور پھر محلوں اور بازاروں ، عدالتوں اور پارلیمنٹوں میں آتی ھیں ،، بد عہدیوں کا کوئی درخت یا پودا نہیں ھوتا ، یہ انسانی کردار کا ھی پھل ھے ،، ھم بچوں سے بدعہدی کرتے ھیں تو وہ اسے معمولی بات سمجھ کر دوسروں سے بد عہدی کرتے ھیں ، ھم نے بیوی سے ایک وعدہ کیا اسے امی کے دباؤ پر توڑ دیا ،، ماں سے ایک وعدہ کیا تھا کہ چھوٹے بھائی کو باھر بلواؤں گا ، اسے بیوی کے دباؤ پہ توڑ دیا ، ایک بچے سے وعدہ کیا تو اسے دوسرے بچے کی ضد پر توڑ دیا -الغرض یہ عفریت ھمارے گھر پرورش پاتا ھے ،،
مکے سے دو مہاجر نکلے مگر مشرکین مکہ کے ھاتھ لگ گئے ،، مکے سے مشرکین کا لشکر بدر کی جنگ کے لئے نکل چکا تھا ،، مشرکین نے مہاجروں سے سارا مال لے لیا اور ان سے یہ وعدہ لیا کہ وہ مکی لشکر کے خلاف نہیں لڑیں گے ،، اور ان کو چھوڑ دیا ،، مکے والوں نے محمد مصطفی ﷺ کے کردار پر اعتماد کرتے ھوئے ان دونوں کو چھوڑا تھا کہ اگر یہ لوگ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کر کے لڑنا بھی چاھئیں گے تو محمد ﷺ ان کو عہد کی خلاف ورزی نہیں کرنے دیں گے ،، اور نبئ کریم ﷺ نے اپنے کردار سے مکے والوں کے اس حسنِ ظن کو ثابت کر دکھایا -یہ مکی مہاجر سیدھے میدانِ بدر پہنچے اور سارا واقعہ بیان کر کے جہاد میں شرکت کا شوق ظاھر کیا ،،،،،، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تم دونوں عہد دے چکے ھو ، اب تم اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے تم لوگ مدینے چلے جاؤ ،، اور آرام کرو ، مجھے یقین ھے میرا رب مجھے تمہارے بغیر بھی فتح دے گا کیونکہ فتح اس کے حکم سے ملتی ھے ،، تعداد سے نہیں ملتی ،، انہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ وہ عہد ھم سے تلوار کی نوک پر لیا گیا تھا ،، آپ نے فرمایا میں جانتا ھوں ،مگر مومن جب کسی سے عہد کر لیتا ھے تو اپنا ھاتھ دوسرے آدمی کے ھاتھ میں دے دیتا ھے ،، تم بظاھر اس وقت آزاد ھو مگر تمہارے دونوں ھاتھ اس عہد سے بندھے ھوئے ھیں جو تم دے آئے ھو ،،،،،،، اسی کے Symbol کے طور پر ھمارے یہاں وعدہ کرتے وقت ھاتھ پہ ھاتھ مارا جاتا ھے اور ” سَٹ سَجۜی ” کا نعرہ لگتا ھے یعنی مجھے داہنا ھاتھ دو ،،، نہ کوئی سلامتی کونسل تھی ، نہ اقوامِ متحدہ نہ جنیوا کنوینشن اور نہ انٹرپول ، نہ تحریری معاہدہ تھا اور نہ ھی حدیبیہ کا صلح نامہ ، مگر نبئ کریم ﷺ کی ذات نے کسی ڈر کے بغیر مجرد سیرت کے زور پر عہد کی پابندی کی اور صحابہ سے بھی کروائی ، جب کوئی اپنی ذات میں بدعہد ھو تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کی گارنٹی نہیں دے سکتی ،، اسی لئے فرمایا ،، لا دین لمن لا عہد لَہ ،، وعدہ خلاف کا چونکہ کوئی دین نہیں لہذا کتاب اللہ پر اس کے عہد کا بھی کوئی اعتبار نہیں ،،،،،،،