کافر اور غیرمسلم !!
مسلمانوں کے سوا باقی تمام مذاھب غیر مسلم ہیں ، جن کو اسلام کی دعوت دینا اور اپنے عمل و کردار سے اسلام کے بہترین اخلاق اور قابلِ عمل ھونے کی گواھی دینا واجب ھے ؛ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے ھم پر عائد کردہ ذمہ داری ہے جس کے بارے میں قیامت کے دن ہم سے پرسش ھونی ھے ، فانما علیہ ما حمل و علیکم ما حملتم اس کی نص ھے کہ رسولﷺ کے ذمے وہ ھے جو ان کو اٹھوایا گیا ھے یعنی تم ( صحابہؓ) تک دین کو پہنچانا اور تمہارے ذمے وہ ھے جو تم کو اٹھوایا گیا ھے یعنی تابعین تک اسلام کو پہنچانا ،، یوں نسل در نسل اسلام کی دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری قیامت تک منتقل ھوتی رھے گی !!
کافر ،،
کافر غیر مسلموں کی وہ قسم ھے کہ جس کو دعوت اپنی تمام تر شرائط کے ساتھ پہنچ چکی ھوتی ھے اور وہ جان بوجھ کر ہٹ دھرمی یا معاشی و معاشرتی مفادات کی خاطر اسلام کو قبول نہیں کر رھا ھوتا ، جس نے نتیجے میں اللہ پاک اس کے دل و دماغ کو سربمہر کر دیتا ھے اور اس کو دعوت دینا یا نہ دینا برابر ھوتا ھے ، ان کی حیثیت اس شخص کی سی ھوتی ھے جو جاگتے ہوئے آنکھیں بند کیئے ھوئے ھے اور جاگتے ھوئے کو جگانا ممکن نہیں ھوتا ، اس طبقے کا ذکر اللہ پاک نے قرآن حکیم کے شروع میں ھی کر دیا ھے ،،
[ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (6) خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (7) البقرہ ]
بےشک وہ لوگ جو کافر قرار پا گئے برابر ھے ان کے لئے کہ آپ ان کا خبردار کریں یا نہ کریں وہ ایمان لانے کے نہیں ، کیونکہ اللہ نے ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مہر کر دی ھے ان کے دلوں پر اور ان کی سماعت پر اور ان کی آنکھوں پر پردے ہیں اور ان کے لئے ( اب دعوت نہیں بلکہ ) عظیم عذاب ھے ،،
گویا ھمیں یہ تو کنفرم ھوتا ھے کہ فلاں غیر مسلم ھے مگر یہ کنفرم نہیں ھوتا کہ دعوت اس تک تمام تر شرائط کے ساتھ پہنچ چکی ھے اور حق واضح ھو چکا ھے اور وہ کفر میں مبتلا ھو چکا ھے یا وہ ابھی واقعی کسی حقیقی شک و شبہ میں مبتلا ھے ، یہ بات صرف اور صرف نبی کی موجودگی میں وحی کی صورت ہی نبی پر واضح کی جاتی ھے ، اور نبی کو وہ بستی چھوڑ کر نکل جانے کو کہا جاتا ھے ، خود بخود نبی بھی یہ فیصلہ کر کے بستی نہیں چھوڑ سکتا ، رسول اللہ ﷺ آخر وقت تک اللہ کے فیصلے کے منتظر رھے جبکہ یونس علیہ السلام نے اپنے اجتہاد سے یہ فیصلہ کر لیا کہ یہ قوم اب مزید دعوت کا محل نہیں رہی اور کافر ھو چکی ھے ،، جس کا نتیجہ ان کی سرزنش کی صورت میں برآمد ھوا !!
رسول اللہ ﷺ کی عدم موجودگی اور ختم نبوت کے سبب اب حشر میں اللہ پاک ھی اس بات کو واضح فرمائے گا کہ کون اتمام حجت کو پہنچ کر کافر کے درجے تک پہنچا اور کون کس وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی رسالت اور تعلیم کے بارے میں شک میں مبتلا رھا ؟؟ اس لئے کہ جو رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے بارے میں مشکوک رھا وہ قرآن کی قرآنیت پر ایمان بھی کبھی نہیں لائے گا ،
اگر تو رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ھماری بیان کردہ کوئی کہانی ھی اس کے شک کا سبب بنی ھے تو یقین جانیں کہ وہ سارے راوی جو اس کہانی کو بیان کرنے والے ہیں اور وہ سارے کاتب جو اس قصے کو لکھنے والے ہیں وہ اس کٹہرے میں کھڑے ھونگے اور اس شخص کے کفر کے ذمہ دار گردان کر سزا کے مستحق ٹھہرائے جائیں گے ، اس کو لینے کے لینے پڑ جانا کہتے ہیں کہ جو ثواب کے کوہ گراں لینے کے لئے میدان میں کھڑے ھونگے ، وہ موقعے پر ہتھکڑیاں لگوا دیئے جائیں گے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں کوئی بھی ایسا قصہ بیان کرنا جس سے کسی انسان کی طبیعت و فطرت واقعی نفرت کرے اور انتہائی رسک کی بات ھے ،،، رسول اللہ ﷺ کو اپنا ذاتی اور پرائیویٹ رسول سمجھ کر ھر قصہ کہانی ان کی طرف منسوب کرنا معقول بات نہیں کیونکہ رسول اللہ قیامت تک آخری پیدا ھونے والے بندے کے لئے بھی داعی رسول ﷺ ہیں ، اور داعی کا دامن صاف رھنا دعوت کی اولین شرط ھے !!