مشتری ھوشیار باش ،،،
نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، اقدس کے لئے یہ جملہ کہنا کہ ” فلاں کو قتل کرا دیا ” مناسب نہیں ھے ” قتل قانون کی زبان میں غیر قانونی جان لینے کے لئے بولا جاتا ھے ، یا میدانِ جنگ کے قتال میں کسی فریق کے قتل ھو جانے کے لئے بولا جاتا ھے ،،
عدالت کی طرف سے سزائے موت پر عملدرآمد کرنے کو قتل کرنا نہیں کہتے یہ توھینِ عدالت کے زمرے میں آتا ھے ،، عدالت کا مارا ھوا مرڈر نہیں ھوتا اور نہ Assassination کہلاتا ھے ، جبکہ "قتل کرا دیا ” سیاسی قتل اور ماوراءِ عدالت قتل کے لئے استعمال ھوتا ھے ،،
نبئ کریم ﷺ ریاستِ مدینہ کے چیف جسٹس تھے ، آپ کی عدالت سے جو بھی احکامات صادر ھوئے وہ سزائے موت کے احکامات تھے جو تمام قانونی تقاضوں کو مد نظر رکھ کر صادر کیئے گئے ، ان پر آج بھی قانونی پہلو سے انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی ،، آپ ﷺ نے کوئی جذباتی خطاب کر کے بندے بھڑکا کر کسی کو نہیں مروایا ،،،
اللہ پاک نے مکے میں صحابہؓ کے ھاتھ رسی سے نہیں بلکہ اپنے حکم سے باندھ کر رکھے تھے کہ ” کفوا ایدیکم ” 13 سالہ مکی دور میں انسانیت سوز مظالم کے باوجود نبئ کریم ﷺ نے انتہائی جذباتی ماحول میں بھی کہ جب حضرت سمیہ کو شرمگاہ میں نیزہ مار کر دیوار میں پرو دیا گیا اور وہ سسک سسک کر شھید ھو گئیں ، ان کے شوھر کو 4 اونٹوں سے چاروں ھاتھ پاؤں باندھ کر مخالف سمت دوڑا کر چار ٹکڑے کر دیا گیا ، تب بھی کسی کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا ،، اور بس یہ فرما کر رہ گئے کہ ،، اصبروا آل یاسر فان موعدکم الجنۃ ،، اے آل یسر صبر کرو تمہارا ٹھکانہ جنت ھے ،،
یہ سب اس لئے تھا کہ کل کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ” محمدﷺ نے فلاں کو مروا دیا ،،
اگر اللہ کے رسول ﷺ صرف چار پانچ ٹارگٹ کلرز کا گروہ بنا دیتے تو مکے کے بڑے بڑے سردار بدر سے پہلے ھی مارے جا سکتے تھے ،مگر پھر اسلام ایک فاشسٹ تحریک کے نام پر مشہور ھو جاتا ، دین اللہ کے نام سے کبھی نہ جانا جاتا ،، دعوتی دین اس طرح بندے مروانے سے نہیں پھیلتے ،،
مدینے میں جتنے آدمی بھی نبئ کریم ﷺ کی عدالت سے موت کی سزا دیئے گئے ، ان کی باقاعدہ ھسٹری موجود ھے کہ ان کے جرائم کتنے گھناونے تھے ،، اور قرآن کے علاوہ یہود کی اپنی کتاب میں بھی وھی سزا موجود تھی ،،