آدم علیہ السلام اور فرشتے !
فرشتوں کی دوڑ تسبیح و تحمید تک تھی انہوں نے وھی بات کی کہ تسبیح و تحمید کے لئے ھم موجود جو ھیں ! ان کی تسبیح سوائے USB میں بھری گئ یا میموری کارڈ میں محفوظ کئے گئے ڈیٹا سے زیادہ کچھ نہ تھی،،وھی دن رات بجتی رھتی تھی اور وھی ان کو چارج کرتی رھتی ھے ،، وھی ان کی خوراک بھی ھے اور زندگی بھی اور ڈیوٹی بھی !
انہیں سمجھانے کے لئے کہ آدم علیہ السلام اور ان میں کیا فرق ھے ! ایک کورس شروع کرایا گیا ،جس میں علم الاسماء کو موضوع بنایا گیا،، یہ سارا علم فرشتوں کے سر کے اوپر سے گزر گیا،، جبکہ آدم علیہ السلام نے اسے حفظ و محفوظ کر لیا،، جبکہ فرشتوں کی میموری میں مزید کسی ڈیٹا کی گنجائش ھی نہیں تھی لہذا کوئی چیز محفوظ بھی نہیں ھوئی،، جب انہیں نئے اسباق سنانے کو کہا گیا اور انہوں نے اپنے ڈیٹا کو بار بار ریفریش کر کے دیکھ لیا کہ ان کے یہاں تو صرف وھی محفوظ ھے جو پہلے اللہ پاک نے ھی save کر کے سی ڈی لاک کر دی تھی ! تو انہوں نے اقرار کر لیا کہ ” لا علم لنا الا ما علمتنا ” یعنی ھمارے پاس تو سوائے آپ کے پہلے سکھائے گئے علم کے سوا کچھ نہیں ” تو پھر آدم علیہ السلام سے کہا گیا کہ اب انہیں وہ پڑھ سنائیے سارے نام ان چیزوں کے !!
فرشتوں میں سوائے جبریل کے کسی میں قرآن کی تلاوت یا اس کو حفظ کرنے کی صلاحیت نہیں ،، وہ تو تلاش میں پھرتے رھتے ھیں کہ کسی تلاوت والے کا قرب حاصل کر کے اس سے توانائی حاصل کریں اور ھمیں اس نعمت کی قدر نہیں !
یہ جبر کی تسبیح ھے ،جس طرح آپ کیسٹ پلیئر میں تلاوت کی کیسیٹ لگا کر سنتے ھیں،، اللہ پاک کچھ نیا کرنا چاھتے تھے،،
آپ کا بچہ ھر وقت آپ کے پاس ھوتا ھے ! پیار کرتا بھی ھے اور پیار لیتا بھی ھے ! مگر اس کا پیار آپ کو زیادہ قیمتی اس وقت لگتا ھے ،جب اس کے ماموں اور چچا آئے ھوئے ھوتے ھیں ،، دیگر مہمانوں سے بھی کمرہ بھرا ھوتا ھے ! اچانک آپ کا بیٹا یا بیٹی کمرے میں داخل ھوتے ھیں،،
اب ماموں بھی چند کھلونے نکال لیتا ھے اور چچا بھی روپے نکال کر ھاتھ پر رکھ لیتا ھے ،، ماموں کھلونے دکھا کر اپنی طرف بلاتا ھے اور چچا روپے دکھا کر لالچ دیتا ھے اور اپنی طرف بلاتا ھے ! بچہ ایک نظر کھلونوں کو شوق سے دیکھتا ھے ،، اور آپ کا دل دھک دھک کر رھا ھے، آج آپکی عزت داؤ پر لگی ھوئی ھے،، بچہ ایک نظر کھلونوں کی طرف دیکھتا ھے ،پھر آپکی طرف دیکھتا ھے، ایک نظر چچا کے ھاتھ میں پکڑے پیسوں پر ڈالتا ھے ،، پھر آپ کی طرف دیکھتا ھے،، کھلونے بھی اس کی فطرت کی آواز ھیں،، پیسے بھی اسے عزیز ھیں ،، وہ ان سب کو شوق سے دیکھتا ھے،، پھر آپ کی طرف دیکھتا ھے،، آپکی محبت ، آپ کے احسانات کے کلپ اس کے اندر ٹھک ٹھک کر کے لگ رھے ھیں ! وہ ماموں کے کھلونوں اور چچا کے پیسوں پر الواداعی نگاہ ڈالتا ھے اور مسکرا کر گولی کی طرح آپ کی طرف دوڑتا اور آپ کے سینے سے لگ جاتا ھے ! آج جیسی ٹھنڈک اور اس کے پیار کی اھمیت آپ کو کبھی محسوس ھوئی تھی ؟ آج اس کے پاس آپشنز موجود تھے،مگر اس نے ان پر لات مار کر آپ کے رشتے کی عزت رکھی ھے!
بس یہی ایمان ہے ، اللہ پاک نے ہمیں ڈھیر ساری چیزیں دی ہیں پھر ایک ایسا موقع آتا ھے جب ان چیزوں میں سے کوئی ایک ھم سے کسی کے لئے مانگ لیتا ھے ِ من ذالذی یقرض اللہ قرضاً حسناً فیضٰعفہ لہ اضعافاً کثیراً ، کون ھے جو اللہ کو قرض دے بہترین نیت کے ساتھ تا کہ وہ اس کو زیادہ سے زیادہ بڑھا کر دے ؟ بس یہی موقع ھوتا ھے ایمان ثابت کرنے اور مزید ایمان بڑھانے کا ،،
میرے قافلے میں لٹا دے اسے !
لُٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے !
اور جتنی تنگدستی میں دو گے، ویسا ہی زیادہ ریٹ لگے گا کیوں کہ آپ نے بچت نہیں لگائی بلکہ پیٹ کی روٹی اٹھا کر لگا دی جو آپ کے اللہ کے وعدے پر اعتبار کو ثابت کرتی ھے ،، یہ غربتیں یہ مسائل اصل میں اھل ایمان اور اھل مال کا امتحان ہیں ،لہذا اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جس نے خود پیٹ بھر کر کھا لیا اور اس کا پڑوسی بھوکا سو گیا وہ ایمان والا نہیں ،،
فرشتوں کے پاس آپشن کوئی نہیں وہ تو بجتا ھوا ایک ٹیپ ھیں،، ابلیس کی ان تک رسائی نہیں،، جبکہ انسان بال بچے میں پھنسا ھوا ھے، روزی روٹی میں لگا ھوا ،،جب حی علی الصلاۃ سنتا ھے اور سب کچھ چھوڑ اللہ کے گھر کی راہ لیتا ھے تو اللہ کی محبت ٹھاٹھیں مارنے لگتی ھے، کوئی دو ملین درھم کی گاڑی سڑک کے کنارے پارک کر کے سر ریت پر رکھے سجدہ کر رھا ھے،، یہ وہ منظر ھے جس کا انتظار اللہ نے صدیوں کیا ھے ! اللہ کے بندو اپنی قدر پہچانو !
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی !
تـُو اگـــر میــرا نہیں بنتا نہ بن اپنــا تو بن !