فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں،،
ڈور کو سلجھا رھا ھے اور سرا ملتا نہیں !
فلاسفہ اصلاً عقل دشمن رھے ھیں،،ان کے نظریات ھمیشہ عقل کے خلاف محاذ آرا رھے ھیں،،یوں فلاسفہ نے انسانیت کی کوئی خدمت نہیں کی،،اور ھر فلسفی آخر کار ایک بند گلی میں پہنچ کر مر گیا،،اس کے شاگرد نے اس کے اوزار اٹھائے اور دوسری سمت سرنگ کرنی شروع کی جو کہ ظاھر ھے فلسفے میں سرنگ تھی اور آخرکار اپنے استاد کی طرح لاکھوں کو گمراہ کر کے اور کروڑوں کی گمراھی کا سامان کر کے سسک سسک کر مر گیا ،،اور اپنے اوزار ایک نئے احمق کو سونپ کر رخصت ھوا،،یہ وہ وقت ھوتا تھا،،جب نبی مبعوث ھوتے تھے،اور انسانیت کا ھاتھ پکڑ کر انہیں اس فلسفیانہ دلدل اور بند گلی سے نکال کر علم کے سفید چٹیل رستے پر چھوڑ جاتے،گویا انبیاء انسانیت کے ریسکیو کا کام کرتے رھے اور اللہ ان کو انسانیت کی عقلی راھنمائی کے لئے بھیجتا رھا،،انبیاء نے انسانوں کو اللہ کی زبان میں،تصور کے کمزور گھوڑے سے عقل کے طاقتور ذریعے کی طرف متوجہ کیا،یوں مذھب نے عقل کی نمائندگی کی ،، مگر آج کم عقلی اور جہالت کا طعنہ بھی اھلِ مذھب کو ھی سننا پڑتا ھے،،،
گویا دو طبقات نے انسانیت کو فلسفیوں سے بچا کر نکالنے کی سعی کی،،جن کا ذکر اللہ پاک نے سورہ بقرہ میں قصہ آدم و ابلیس میں کیا ھے،،یعنی علم الاسماء اور علم الہدی والوں نے،،ابنِ خلدوں نے لکھا ھے کہ”العلمُ علمان،،علم الابدان و علم الادیان” اس نے ترتیب وھی رکھی ھے جو قرآن میں آئی ھے،،کہ علم در حقیقت علوم کے مجموعے کا نام ھے،،1-knowledge of physical sciences
2-knowledge of normative sciences علم الاسماء میں حضرت آدم علیہ السلام نے فرشتوں کو شکست دی تھی اور علم الھدی میں شکست کا مزہ چکھا تھا،،،
علم الاسماء پر کام کیا سانسدانوں نے اور انسانیت کی بے مثال خدمت کی اور کر رھے ھیں،،یہ بھی عقل کا شعبہ ھے،،اور علم الھدی پر کام کیا انبیاء اور علماء نے اور انسانیت کی لا زوال خدمت کی،مگر جو تنوع سائنس میں نظر آیا ،وہ مذھب میں تنگ نظری نے پیدا نہ ھونے دیا،،یوں عقل کی گاڑی کے یہ دونوں پہیے غیر متوازن ھو گئے،،اور مذھب اپنے جمود کی وجہ سے پچھڑتا چلا گیا،،پھر یہ فرق عداوت ،رقابت اور مخاصمت کا سبب بنتا چلا گیا،،جسطرح دو بھائیوں میں سے ایک محنت کرے ھاتھ پاؤں چلائے ،روزی کے نئے ذرائع تلاش کرے اور نتیجے میں صاحبِ ثروت اور امیر ھوتا چلا جائے،،جبکہ دوسرا بھائی جو صرف باپ کی کمائی پر ھی گزارہ کرتا رھا اور محنت سے جی چراتا رھا آخر کار غربت اور در بدری سے دوچار ھوا،، status کا یہ فرق حسد اور عداوت میں تبدیل ھوا اور بجائے اس کے کہ وہ اس غربت کا ذمہ دار اپنی سستی ،اور لا پرواھی کو قرار دیتا،،اس نے یوں شور مچانا شروع کر دیا ،،گویا بھائی کے پاس جو کچھ ھے وہ اسی کا چھینا ھوا حق ھے،،اور دلیل یہ دیتا کہ جناب،،ایک ھی باپ کی اولاد ھیں مگر فرق دیکھو ! میری بیٹی کے کپڑے دیکھو اور اسکی بیٹی کے کپڑے دیکھو،،میرا گھر دیکھو اور اس کا گھر دیکھو ! کیا بھائی ایسے ھوتے ھیں؟
علماء جب تک انبیاء کی روش پر رھے ،وہ زمانے کو لیڈ کرتے رھے،،مگر جب انہوں نے عمرانی ارتقاء کو تسلیم کرنے کی بجائے اس کا رستہ روکنے کی کوشش کی تو یہ چلتی ٹرین کے آگے چھلانگ لگانے والی بات تھی،،اللہ کی چلائی گاڑی کا رستہ بھلا کیسے روکا جا سکتا تھا !
فلاسفہ اور صوفیاء (ابھی صرف عیسائی مذھب کے صوفیاء تک بات پہنچی ھے) نے اینگری ینگ مین کا رول ادا کیا ،،عقل کے سکول سے بھاگ کر تصور کے گھوڑے پر سوار ھوئے اور خود بھی گمراہ ھوئے اور انسانیت کو بھی گمراہ کیا،،یاد رکھیں جب انسان منزل اور ذریعہ غلط چنتا ھے تو پھر اس کی ذاتی نیکی انجام پر کوئی فرق نہیں ڈالتی،وہ بھی اسی انجام سے دو چار ھوتا ھے،جس سے کوئی بدکار دوچار ھوتا ھے،،مثلاً ایک نیک آدمی کراچی جانا چاھتا ھے،مگر پشاور والی گاڑی پر سوار ھو گیا ھے،،دوسرا ایک آدمی جو اسی ڈبے میں سوار تھا اور پشاور جا رھا تھا،،،،نیک آدمی سارے رستے نفل پڑھتا رھا،،جبکہ دوسرا شخص شراب پیتا رھا،،،مگر دونوں پشاور ھی پہنچے حاجی صاحب کو ان کے نفل کراچی نہیں پہچا سکے،،اگرچہ ان کے آخرت کے سٹیٹس میں فرق واقع ھو گیا ھو گا،،مگر دنیاوی انجام دونوں کا ایک ھی ھوا،،،جیسا کہ ھلاکو کی آمد جس کو مسلمانوں کی بد انتظامی اور مذھبی کشمکش نے دعوت دی تھی،جہاں عمرانی تباھی کا سبب بنی اور محلات و عمارات تباہ ھوئیں وھاں علمی سرمایہ بھی لٹا ،علماء بھی تہہ تیغ ھوئے اور دین کتب جن کو ھلاکو کے لشکر نے دجلہ میں پل کے طور پر استعمال کیا ،،اور جن کی سیاھی سے دجلہ مدتوں سیاھی مائل بہتا رھا،،،،
جب ذریعہ ایک تھا یعنی تصور ،،تو فلسفی بھی گمراہ ھوا ،،صوفی بھی بھٹکا،،اور دونوں وحدۃ الوجود کی منزل پر پہنچے،،، مگر دونوں نے جو رپورٹ کیا اور اخذ کیا وہ ایک دوسرے سے 180 ڈگری مختلف تھا،،
فلاسفہ کی رپورٹ تھی کہ کائنات مخلوق ھی مخلوق ھے خدا کوئی نہیں،،،، اور صوفیاء کی رپورٹ تھی کہ جناب ھر جگہ خدا ھی خدا ھے،مخلوق کا نام و نشان نہیں،،جو مانے کہ خدا کے سوا بھی کچھ ھے وہ مشرک،،،،،،،ابھی بات پلاٹینس تک پہنچی ھے