بچے بہترین استاد ،،
جی ھاں زندگی اور خوشی کشید کرنا کوئی بچوں سے سیکھے ،،
ھماری خوش قسمتی ھے کہ ھم بچے پیدا ھوئے تھے اور بچپن گزار کر بڑے ھوئے ، اس لئے ہمیں بات کو سمجھنے کے لئے گوگل سرچ نہیں کرنا پڑے گا ،،
آج جب انسان ھر قسم کی سہولتوں سے مالا مال ھے ، جدید ٹیکنالوجی ھر گھر پر دستک دے چکی ھے ،مہنیوں کا سفر گھنٹوں میں طے ھوتا ھے اور دنوں کا منٹوں میں ،، گدھے پر مٹی ڈھونے والے بھی آرڈر موبائیل فون پر بک کرتے ھیں ، مٹی کے مختلف نمونوں کی تصویریں وٹس ایپ پر بھیج کر منظوری لیتے اور ریٹ طے کرتے ھیں ،، مگر ان سب کے باوجود خوشی ھے کہ انسان کے قریب آنے سے بدکتی ھے ، نفسیاتی ڈاکٹروں کے یہاں رش کا عالم ھے اور لوگ افسردگی کا شکار ھیں ، مرنا چاہتے ھیں ،،، اور سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ ھے کہ ان سب امراض کی دوا اور ماھر ڈاکٹر دونوں چیزیں تقریباً ھر گھر میں دستیاب ھیں ،مگر ھم نے گھر کے اس ڈاکٹر کو اپنی افسردگی کی وجہ اور اس کی دوا کو زھر بنا لیا ھے ،،،،
بچے بہترین استاد اور مشیر ،،
بچے میں زندگی اپنے پورے جوش و خروش کے ساتھ لشکارے مار رھی ھوتی ھے ،، نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ ارد گرد کی ھر چیز اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ھے اور اپنی زندگی بچے کو سونپ دیتی ھے ،، بچہ جہاں جس جگہ جاتا ھے وھاں کا ماحول زندگی کی لہروں سے معمور ھو جاتا ھے ،ایک نہ ایک دن ھم خوشی کی ان لہروں کو ریکارڈ کرنے والا آلہ بنانے میں بھی کامیاب ھو جائیں گے تب ھمیں بچے کے گرد زندگی اور خوشیوں کا ھالہ اسی طرح نظر آئے گا جس طرح ایٹمی فضلے کے چاروں طرف ریڈیائی لہریں اور ان کی ریڈی ایشن نظر آتی ھے ،،
بچے ھر چیز سے خوشی اور زندگی کس طرح کشید کرتے ھیں ؟
بچوں میں خوش رھنے اور جینے کی امنگ ،خواھش اور جذبہ اپنی کمال کی حد تک پہنچا ھوا ھوتا ھے ،وہ کسی مردہ چیز سے بھی زندگی کشید کر لیتا ھے ، وہ کسی چیز سے بھی خوشی کشید کر لیتا ھے یہانتک کہ غمی کو بھی خوشی میں کنورٹ کر لیتا ھے ،، جیسا کہ مثل مشہور ھے کہ ،، He Can make things from nothings ,,
کئ دفعہ یہ منظر نظروں سے دیکھا اور خود پہ گزرا ،،کہ بچے کو ماں نے کسی غلطی پر یا اپنی ڈپریشن کی کیفیت میں مجرد اونچا بولنے پر ھی چماٹ لگا دی ، بچے نے رونا شروع کیا اور روتے میں اس کی ناک کے مواد سے بلبلہ سا بن گیا،، بچے کا رونا اپنی یہ تخلیق دیکھتے ھی قہقے میں تبدیل ھو گیا اور وہ قہقے لگاتا لگاتا دہرا ھو کر بیٹھ گیا ،، آپ اس کو خالی ماچس دیجئے وہ بہترین گاڑی بنا کر اس سے گھنٹوں کھیل سکتا ھے ، اس کا ایکسیڈنٹ کر کے زخمیوں کا نکال رھا ھو گا ،، چند مزید ماچسیں پکڑا دیجئے وہ ان کی ریل گاڑی بنا لے گا ، جوتیاں اکٹھی کر کے کھیل لے گا ،، کسی بھڑ ، مکڑی یا اور کیڑے کو پکڑ کی پلے اسٹیشن گیم جیسی دلچسپی پیدا کر لے گا ، اور کچھ نہیں تو ڈنڈے پر بیٹھ کر دوڑے گا اور اس کو گھوڑا سمجھے گا ، سائیکل کا ٹائر دوڑا کر منہ سے انجن چلائے گا اور ھارن بجائے گا ، کسی بھی ناکارہ سے ناکارہ چیز سے خوشی کا موقع تخلیق کر لے گا ،، کچھ بھی نہ ھو تو دیوار پر لکیریں کھینچ کر کچھ بنا لے گا ورنہ اپنا پاؤں مٹی میں رکھ کر اس پر شداد کی جنت کے محل تخلیق کر لے گا ،، کاش ھم یہ سب اس کو کرتے دیکھ کر سیکھیں کہ کچھ نہ ھوتے ھوئے بھی خوش کس طرح رھا جا سکتا ھے ، انتہائی نامساعد حالات میں بھی جینے کی امنگ کیسے پیدا کی جاتی ھے اور دکھوں اور مصائب کو انجوائے کیسے کیا جاتا ھے ،،
ھم نے انتہائی غربت سے سفر شروع کیا تھا ، آج بچوں کو ننگے پاؤں کچرا چنتے دیکھ کر جن تصویروں کو دیکھ کر لوگ حکومت کو گالیاں دیتے ھیں ھم اس دور سے گزر کر آئے ھیں ،، مگر ھم نے اس وقت بھی ان چیزوں کو اپنے غم کا جنریٹر نہیں بننے دیا تھا اور آج بھی بچوں میں بیٹھ کر ان کو وہ واقعات و حالات سنا کر انجوائے کرتے ھیں بلکہ ھنسی سے لوٹ پوٹ ھو جاتے ھیں کہ کبھی ھماری خوشی کس قدر Potent ھوا کرتی تھی ،، آج ھمارے پاس سب کچھ ھے مگر خوشی نہیں کیونکہ ھم نے خوشی کشید کرنے کی بجائے غم کشید کرنے والے پلانٹ اپنے سینوں میں فٹ کر رکھے ھیں ، ایک چیز ھمارے پاس ھوتی ھے مگر اس کے چلے جانے کا غم ھمیں مارے ڈال رھا ھوتا ھے ، ایک چیز ھمارے پاس ھوتی ھے اور ھمیں یہ فکر مارے ڈال رھی ھوتی ھے کہ میرے فلاں عزیز یا سہیلی کو بھی یہ حاصل نہ ھو جائے ،، جب ھم نے قسم ھی کھا لی ھے کہ اللہ جو مرضی ھے نعمت عطا فرما دے ھم نے اس میں کیڑے ھی نکالنے ھیں ، اور ڈو مور کا تقاضہ ھی کرنا ھے تو اللہ پاک نے بھی پھر غم ھم پر مسلط کر دیئے ھیں اور زمین اپنی وسعت کے باوجود ھم پر تنگ ھو گئ ھے ،، جس طرح والدین اپنے بچے کو خوش دیکھ کر خوش ھوتے ھیں اسی طرح 99 ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا بھی ھمیں خوش دیکھ کر خوش ھوتا ھے ، ھم چھوٹی چھوٹی چیز پر جب خوش ھوتے ھیں تو وہ ھمیں مزید بڑی نعمت عطا کر کے ھماری خوشی کا عالم دیکھنا چاھتا ھے کہ بھلا اس پر اس کے رد عمل کا عالم کیا ھو گا ،،
اور یاد کرو وقت جب تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر تم شکر کرو گے تو ھم تمہیں یقیناً زیادہ عطا کریں گے ،لیکن اگر ناشکری کرو گے تو بےشک میری سزا بھی بڑی سخت ھے ،
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ ( ابراھیم -7)
آج ھم بحیثیت قوم اس عذاب میں مبتلا ھیں کہ ھم سے جینے کی امنگ اور خوشی چھن گئ ھے ،، ھم اپنی قبر اپنے منہ پہ لئے پھرتے ھیں ، دیکھنے والے کو پتہ چل جاتا ھے کہ اس منہ کے پیچھے ایک مردہ شخصیت دفن ھے ،، شہر میں گاڑی چلاتے ھوئے دائیں بائیں والے ڈرائیوروں کے چہرے ملاحظہ کیجئے گا یا پاس سے گزرتے لوگوں کے چہروں پہ نظر کیجئے گا ، پتہ چلتا ھے ھم بھی چلتی پھرتی لاشوں کے درمیان چلتی ھوئی ایک لاش ھیں ،،
خدا ھر گھر میں بچے بھیج رھا ھے کہ ان سے جینے کی امنگ سیکھو اور ھر ھر چیز سے خوشیاں کشید کرنا سیکھو ،، ھم ان بچوں کو بھی اپنے جیسا مریض بنا لیتے ھیں جیسے ہیضے کے مریض کا معدہ ھر طاقت بخش غذا کو بھی زھر میں تبدیل کر لیتا ھے ،،
بترین گوالہ وہ ھوتا ھے جو دودھ دوہتے وقت مڑ کر دیکھنے والی گائے کو چند دھاریں اس کے منہ پر مار کر چکھا دیتا ھے کہ وہ کیا خزانہ اپنے اندر چھپائے بیٹھی ھے اور گائے کے اندر بیٹھا بچہ خوش ھو جاتا ھے کیونکہ اس نے بچپن میں یہ ذائقہ چکھا ھوتا ھے لہذا اس کوخوشی یہ ھوتی ھے کہ آج وہ خود اس کو پروڈیوس کر رھی ھے ، بچے بہترین گوالے ھوتے ھیں جو ھمیں خوشی کی چند دھاریں چکھاتے ھیں اور سمجھاتے ھیں کہ آپ کے اندر بھی ایک بچہ قید ھے خدا را اس کی قید کوٹھڑی کا دروازہ کھول دیں ،، بچہ مالی طور پر فقیر مگر بھرپور زندگی سے مالا مال ھوتا ھے وہ ھمیں خوش دیکھنا چاھتا ھے وہ ھمارے گلے لگ کر ھماری آنکھوں میں جھانکتا ھے کہ خوشی کی کوئی جوت جاگی ھے یا نہیں ،بچوں کی خوشیوں پر خوش ھونا سیکھ لیجئے ،بچے کو احساس دلایئے کہ واقعی اس نے آپ کو خوش کردیا ھے ،، ھل جزاء الاحسانِ الا الاحسان ،،