یہ ایک عالم کا فرمان ھے،، اسے سمجھنے میں ان کے قریبی دوستوں کو بھی پسینے آ گئے ھیں اور وہ اس سے اختلاف کر رھے ھیں،، حالانکہ عالم بھی عربی ھے اور ان کے دوست بھی عربی ھیں !
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ساری حیثیتیں ھیں،، آپﷺ شارع بھی ھیں اور چیف جسٹس بھی ھیں اور داعی اور مبلغ بھی ھیں،، آپ جب کوئی بات فرماتے تھے تو یہ دیکھنا پڑتا تھا کہ یہ فرمان کس حیثیت سے دیا جا رھا ھے،،مبلغ کی حیثیت سے گفتگو فرما رھے ھیں تو یہ ترغیب و ترھیب ھے،، یا جج کی حیثیت سے پہلے سے موجود کسی قانون کی وضاحت فرما رھے ھیں یا مقنن کی حیثیت سے کوئی نیا قانون دے رھے ھیں،، اب یہاں سے اختلاف کی بنیاد پڑتی ھے،، ایک فقیہہ اس کو مقنن کی گفتگو سمجھتا ھے تو دوسرا کہتا ھے کہ نہیں یہ تو عدالت بول رھی تھی جو فلاں قانون کی تشریح کر رھی تھی،، تیسرا فقیہہ کہتا ھے کہ نہیں جناب یہاں آپﷺ بطور مقنن بات کر رھے تھے اور فلاں قانون کی فلاں شق میں ترمیم کر کے اسے خاص یا عام کر رھے تھے ! چوتھا فقیہہ کہتا ھے کہ نہیں جناب یہ تو ایک مبلغ کا خطاب تھا جو لوگوں کو جھنجوڑ رھا تھا اور بس ،، اس سے کوئی چیز واجب یا فرض نہیں ھوتی !
الغرض حدیث کے حدیث ھونے میں کسی کو اختلاف نہیں بلکہ اس حدیث کی حیثیت پر اختلاف ھے ،،
کلام کی یہی تینوں قسمیں خود کلام الہی میں بھی موجود ھیں کہیں ترغیب و ترھیب ھے تو کہیں وضاحت و تشریح ھے تو کہیں قانون سازی کی جارھی ھے ! قرآن کی ترغیب و ترھیب اور دعوت و تبلیغ ، وجود باری تعالی کے دلائل اور توحید کے دلائل نہایت واضح اور عام اسلوب میں ھیں جن کو ” ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر "کے طور پر متعارف کرایا ھے،،مگر قانون اور قانونی وضاحتیں اپنے پرت کھولنے کے لئے راتوں کا رت جگا اور جگر کا خون مانگتے ھیں اور قیامت تک مانگتے رھیں گے !
کچھ لوگ ایک حدیث مولانا گوگل سے لیتے ھیں اور شیخ الحدیث بن کر لوگوں پر منکر حدیث ھونے اور کافر ھونے کے فتوے لگانا شروع کر دیتے ھیں ! اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے کلام کو بہت ایزی لیتے ھیں گویا وہ ان کے کلاس فیلو کی بات ھے !! علماء اگر چاھئیں تو عربی عبارت پر رائے دے سکتے ھیں !