الــــــــــرجی ، گیـــــس اور جاوید احمد غامدی !
محترم قارئین ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ! ڈاکٹروں کو جب کسی بیماری کا سر پیر نظر نہ آئے ! تو وہ فوراً کہہ دیتے ھیں کہ الرجی ھے، اب یہ الرجی ھر قسم کی ھو سکتی ھے، جتنے باڈی پارٹس ھیں اتنی ھی الرجی کی قسمیں ھیں، بلکہ جتنے فیملی ممبرز ھیں اتنی ھی الرجی کی قسمیں ھیں،،شوھر بیوی سے الرجک تو بیوی شوھر سے الرجک،،جتنی شوھروں کی قسمیں ھیں اتنی ھی الرجیاں ھیں اور جتنی بیویوں کی عادتیں ھیں اُتنی ھی الرجیاں ھیں بلکہ والدین اولاد سے الرجک تو اولاد ماں باپ سے الرجک ! اسی سے یاد آیا یہ جو مائیں ھوتی ھیں انہیں چھاپہ مارنے کا بہت جنون ھوتا ھے،غالباً اس جنون کو دیکھتے ھوئے ھی لیڈیز پولیس کے تھانہ جات قائم کیئے گئے ھیں، جہاں بیویاں اپنی سہیلی انسپکٹر کے ذریعے شوھر کو رات بھر چھترول کروا کر اس کی الرجی نکلواتی ھیں جیسے شوھر پیر صاحب کے ڈنڈے سے بیوی کا جن یعنی الرجی نکلواتے تھے ! خیر اپنا تو کام ھی بچوں کی شرارتیں پکڑنا ھے ،کیونکہ اب ھم خود شرارت کے قابل نہیں رھے ،، عمر کے لحاظ سے نہیں عہدے اور مقام کی بات کر رھا ھوں ! خوش قسمتی سے گھر بھی کالج کے احاطے میں ھے اور ھم ھر جگہ سے شرارتی بچہ برآمد کر سکتے ھیں،، جس پر وہ پریشان ھو کر پوچھتے ھیں کہ آپ کو پتہ کیسے چلا کہ ھم یہاں بھی ھو سکتے ھیں؟ جس پر ھمیں ان کو بتانا پڑتا ھے کہ ھم بھی کبھی بچے تھے اور اسی قسم کی جگہوں سے برآمد ھوا کرتے تھے،،خیر چار پانچ بچے بیٹھے سگریٹ سے استفادہ فرما رھے تھے کہ ایک کی امی برقعے میں نمودار ھوئیں،، ان کے برقعے کا اسٹائل کچھ یوں تھا کہ وہ نقاب کو ڈھاٹے کی طرح استعمال فرماتی تھیں،، جس سے ان کی آنکھیں ننگی رھتی تھیں،، ان کو دیکھنا تھا کہ ایک بچے نے دوسرے کا نام لے کر کہا ،” اوئے ثاقب تیری امی ! پھر غصے سے کہا ” یار یہ تیری امی ننجا ٹـرٹل ( Ninja Turtle )ھر جگہ پہنچ جاتی ھے ! میں تو حیران ھوں کہ جب یہ الرجی لفظ دریافت نہیںن ھوا تھا تو ڈاکٹر اس کی جگہ کونسا لفظ استعمال کرتے ھوں گے اور شوھر بیویوں سے الرجک ھونے کی بجائے کیا ھوتے ھونگے ؟ خیر الرجی کے لئے وجہ کا ھونا ضروری نہیں،ھمیں گردن کے پیچھے دونوں شانوں کے درمیان گرمی دانے سے نکل آئے اور وہ بھی کڑاکے کی سردی کے موسم میں ، ایک دوست سے ذکر کیا بولے لیپ ٹاپ کی وجہ سے ! ھمارا طراہ جو اکثر ” تے ” کے ساتھ نکلتا تھا وہ باقاعدہ ” ط ” کی تفخیم کے ساتھ نکلا ،، ان سے پوچھا کہ حضرت یہ لیپ ٹاپ کا ھماری گردن اور شانوں کے ساتھ کیا تعلق ھے؟ خاص کر جبکہ ھم نے آپ کے سامنے لیپ ٹاپ کو تکیے پر رکھا ھوا ھے رانوں پر نہیں ؟ بولے یہی اصل وجہ ھے،،یہ تکیہ چارج ھو جاتا ھے جب آپ اسے سر کے نیچے رکھتے ھیں تو یہ چارج کی وجہ سے الرجی پیدا کر دیتا ھے ! جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ لیپ ٹاپ سے الرجک تھے،جتنی دیر وہ بات کرتے رھے ھم ان باکس سوالوں کے جواب دیتے رھے،جو کہ کافی نامناسب بات تھی جس سے انہیں الرجی ھو گئ جو کہ انہوں نے پلٹا کر ھماری گردن میں ڈال دی ! طب یونانی میں حکیم صاحب کو جب کسی بیماری کی سمجھ نہ لگے یا جس کی وضاحت وہ نہ کر سکیں اسے وہ گیس کہتے ھیں،، گیس ھو گئ ھے، یہ گیس کی وجہ سے ھے،،یہ گیس آپ کے دانتوں میں بھی چڑھ سکتی ھے، دماغ کو بھی چڑھ سکتی ھے،، معدہ تو فیکٹری ھے گیس کی،، اس کے علاوہ بدن کے کسی حصے میں جانے کے لئے بھی گیس کو پاسپورٹ ویزے کے تکلف کی ضرورت نہیں،، حکمت میں جعلی عکس ڈالنے کے لئے چیزوں کے نام عربی اور فارسی رکھے جاتے ھیں،، لعوق سپستاں ،، کا مطلب ھے لسوڑے کی چاٹ ،، تخم ریحان نیاز بو کے بیج ھوتے ھیں اور عقر قرحا بھی اسی بلا کا نام ھے ! چنڈ تپھہ ،، یعنی ایسی مار جس کا نشان نہ پڑے اسے حکمت میں ” ضربِ غیر مبرھن ” کہتے ھیں ! یہ بیماری عورتوں کو اکثر رھتی ھے کیونکہ شوھر کام پر جانے سے پہلے ھاتھ کو چارج کر کے جاتے ھیں ! ریح کا درد آپ نے سنا ھو گا بلکہ اگر آپ خوش قسمت ھیں تو آپ کو ھوا بھی ھو گا ! یہ بھی اردو میں گیس ھی ھوتی ھے ! چک چکوڑا ھمارے قریب ایک گاؤں ھے وھاں ایک حکیم تھے ،، بہت مشہور تھے،ھم بھی بچے کو ان کے پاس لے گئے ،،کافی بڑا مجمع تھا لوگ مرد عورتیں سارے ایک کھلی جگہ بیٹھے تھے ،حکیم صاحب گلے میں ٹوٹی (اسٹیتھو اسکوپ ) لٹکائے پھر رھے تھے ان کی پوری کوشش تھی کہ یہ ٹوٹی کسی بندے کے بدن سے چھو نہ جائے جبکہ ٹوٹی بھی ایسی شوخ تھی کہ جھٹ اگلے کو چوم لیتی جس پر شرمندہ ھو کر حکیم صاحب کبھی اسے دائیں کندھے پہ لٹکاتے تو کبھی بائیں کندھے پر ،مگر گلاں سن کے ماھی دے نال میریاں دوپٹہ بے ایمان ھو گیا والا معاملہ لگتا تھا ٹوٹی بھی گیس کی مریض لگتی تھی !خیر حکیم صاحب جدھر رخ کرتے ایک ھی آواز آ تی جا رھی تھی ” اماں جی تساں کی گیس اے” اماں جی تساں کی وی گیس ھے” لالہ جی تساں کی وی گیس ھے ” جب ھمارے پاس پہنچے تو ھم نے خود ھی کہہ دیا کہ حکیم جی ھمارے بچے کو بھی گیس ھے ! حکیم جی بھڑک گئے کہ آپ خود حکیم بن گئے ھیں جبکہ ھم نے بال سفید کر کے حکمت حاصل کی ھے ! ھم بھی گرم ھوگئے کہ جناب ایسی حکمت تو بھنڈیاں یا چنے کی دال کھا لو تو خود بخود حاصل ھو جاتی ھے ! سوچتا ھوں جب گیس دریافت نہیں ھوئی تھی تو مریضوں کو کیا ھوتا ھو گا ! علماء کو جب کسی سوال کی سمجھ نہ لگے یا جواب نہ آئے تو وہ سائل کو غامدی نام کی بیماری تجویز کرتے ھیں ! ایک صاحب بیٹے کی شکایت لے کر جامعہ میں گئے ،، بیٹا امریکہ سے آیا تھا اور اس کو کچھ اشکالات تھے،، باتیں سنتے ھی مولانا صاحب نے والد کو بتایا کہ ان کا بیٹا غامدی ھو گیا ھے ! وہ صاحب حیران پریشان گھر واپس آئے اور اسے بتایا کہ اس کو غامدی ھو گیا ھے ! بیٹا بھی پریشان ھو گیا اور گوگل پہ بیماریوں کی لسٹ میں غامدی ڈھونڈنے لگ گیا ! کبھی چھوٹی g سے لکھتا تو کبھی بڑی G سے لکھتا ،،کبھی جی کے بعد ایچ ڈالتا اور کبھی صرف جی کے ساتھ گامدی لکھ کر بھی دیکھتا مگر بیماری تھی کہ مل کر نہ دی،، البتہ گوگل اسے بار بار تجویز دیتا کہ شاید آپ کو غامدی نام کے اسکالر کی تلاش ھوں،، یوں وہ غامدی تک جا پہنچا ! غامدی کی دریافت سے پہلے ھم جب اپنے استادوں کو تنگ کرتے تو وہ ھمیں ” محقق ” کا طعنہ دیا کرتے تھے ! دوران تدریس کوئی سوال اٹھتا تو شیخ فرماتے ھاں جی محقق صاحب آپ نے اگر کوئی گولہ چھوڑنا ھے تو چھوڑ دیں تاکہ ھم زخمیوں کو فوری طور پر اسپتال پہنچا کر پھر اپنی بات شروع کریں ،، کبھی کبھار ھم بھی کہہ دیتے کہ حضرت ھمارے زخمی اور ھلاک شدگان کا فوری طور پر پتہ چل جاتا ھے مگر آپ کے ایڈز کے مریضوں کا تو آخری اسٹیج پر پتہ چلتا ھے ! خیر غامدی صاحب کی دریافت کے بعد بہت آسانی ھو گئ ھے ! اب ھر سوال اٹھانے والے کو غامدی ھو جاتا ھے،، اسٹیج کا تعین بعد میں سوالات کی گہرائی دیکھ کر کیا جاتا ھے ! اتنی شہرت سنی تو ھمیں بھی غامدی دیکھنے کا شوق ھو گیا ! یہ شوق ھمیں بچپن سے تھا،، اس شوق کی تفصیل بعد میں بیان کی جائے گی ! خیر ھمیں شرف ملاقات حاصل ھوا !! اور پھر غامدی صاحب کو بھی چونکتے دیکھا ،یعنی ان کا بھی طراہ نکل گیا کہ ” دوجا چن کدھروں چڑھ آیا ” جب سے ھماری ملاقاتیں شروع ھوئی ھیں،، بس میں ھی بول رھا ھوں اور میری ابھی اے سائڈ (A Side ) بھی ختم نہیں ھوئی ،، اس دفعہ ارادہ تھا کہ غامدی صاحب کی ائے سائڈ بھی سن لی جائے مگر ان کی طبیعت ذرا ناساز تھی ! پچھلے ھفتے جماعت کی شوری کے ایک رکن سے ایک دعوت میں ملاقات ھوئی ،پرانے واقف ھیں غامدی صاحب کے بارے میں ھمارا موقف جاننے کے متمنی تھے،، وہ اپنا دل کھولنے سے پہلے غالباً ھمیں ٹٹولنا چاھتے تھے کہ ھمیں کہیں غامدی صاحب سے الرجی یا گیس ٹائپ کی کوئی چیز تو در پیش نہیں،، فرمانے لگے غامدی صاحب یوں کہتے ھیں،، ھم نے ان کے مقطعے پر جواباً پوری غزل سنا ڈالی ،، جس پر انہوں نے کہا کہ ” آپ تو غامدی صاحب سے بھی آگے کی چیز لگتے ھیں ” میں نے عرض کیا کہ ابھی بس یہی فیصلہ کرنے ھم دونوں بیٹھتے ھیں کہ کون کتنی گہرائی میں ھے،،مگر غامدی صاحب نہایت نفیس آدمی ھیں ،، جو کہ پنجابیوں میں بہت کم یہ بیماری پائی جاتی ھے ! جب کہ ھم خالص پینڈو واقع ھوئے ھیں بغیر کسی رکھ رکھاؤ کے اگلے کی تسلی گارنٹی کے ساتھ کرتے ھیں !