دین میں کچھ چیزیں تو وہ ھیں جو توقیفی ھیں ،،یعنی ان کو پارک کر دیا گیا ھے ، اور قیامت تک کوئی ان کو ریورس یا فارورڈ ڈرائیو نہیں کر سکتا ! کچھ وہ ھیں جن میں حالات و واقعات کے مطابق تبدیلی ھوتی ھے اور وہ حالات تبدیل ھوتے ھی پہلے والی فیکٹری سیٹنگز بحال ھو جاتی ھیں ، جیسے بارش میں اسپیڈ کا کم کر دینا ڈرائیور کی صوابدید اور عقل سلیم پہ چھوڑ دیا گیا ،، جبکہ بورڈ ھمیشہ 120 کلومیٹر کا ھی لگا رھتا ھے ،،
آپ تحقیق کر سکتے ھیں ،، نہ اس تحقیق پہ پابندی لگائی جا سکتی ھے اور نہ لگائی جانی چاھئے،، مگر اس تحقیق کو ماننا کسی پہ لازمی بھی نہیں ھے ، اس کی کوئی سرکاری حیثیت بھی نہیں ھے ، یہ تو اس مقالے کی طرح ھے یا تھیسس کی طرح ھے جو پی ایچ ڈی کے لئے پیش کر دیا گیا اور بس ،، اب فیصلہ تو اس نے کرنا ھے جس کے سامنے یہ ھے ،، اس تحقیق کی حیثیت ان دلائل کی طرح ھے جو وکیل پیش کرتا ھے ،، قانون وھی دلیل بنتی ھے جسے جج اپنے فیصلے میں کوٹ کر کے فیصلہ دیتا ھے !
اس بات کو یوں سمجھیں کہ ھمارے پیدائش کے سرٹیفیکیٹ میں غلطی ھو جاتی ھے ،، یہ ھمارا پیدائشی سرٹیفیکیٹ ھے ھم قلم پکڑیں اور درست کر لیں ،، بھلا کیا حرج ھے ؟ کیا ھمیں اپنی پیدائش کی تاریخ یا سال میں کوئی شک ھے ؟ مگر ھمارا یقین ہمیں یہ اختیار نہیں دیتا کہ ھم خود سے سرکاری دستاویز میں کوئی تعدیل یا کوریکشن کریں ،، کیونکہ پیدائش اگرچہ ھماری ھے مگر یہ دستاویز سرکار کی ھے اور یہ دوسروں کے حقوق کو متأثر کر سکتی ھے ،مثلاً ایک چیف جسٹس کا دستاویز میں خود سے کمی کر لینا ،، دسرے جج کو چیف جسٹس بننے سے روک دیتا ھے جو کہ اس کی حق تلفی ھے ،، یہی سب کچھ تعلیمی اسناد ،، اور پاسپورٹ یا ویزے کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ،، گویا جس ادارے نے اسے جاری کیا ھے وھی اس میں تبدیلی کا حق رکھتا ھے ،،
تحقیق کیجئے ،، کتابیں چھاپیئے اپنا نقطہ نظر بیان کیجئے اور اسے امت کے حوالے کر دیجئے ، آپ کا کام مستقبل کے لئے ھے اور آپ کے بارے میں آنے والا وقت فیصلہ کرے گا ،، امام ابو حنیفہؒ کے اشباہ اور نظائر پر مبنی فتوے کو امام مالک کے فتوے سے تبدیل ھونے میں صدیاں لگی ھیں ،، یعنی اگر ایک عورت کا شوھر غائب ھو گیا ھے تو وہ تب تک دوسرا نکاح نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کے ھم عمر اس گاؤں میں زندہ ھیں ،ظاھر ھے کہ یہ عمر 80 سال بھی ھو سکتی اور 90 سال بھی ،،مگر اب اسے دو صورتوں میں تبدیل کر دیا گیا ھے ، یا تو 8 سال یا پھر عورت چاھے تو تنسیخِ نکاح کا مطالبہ کرے ،،مگر عرض کرنے کا مقصد یہ ھے کہ ایک رائے موجود تھی جسے امت کے فیصلہ ساز لوگوں نے لیا اور مسئلہ حل ھو گیا ،، تحقیق کرنے والے کسی فوری کامیابی کی امید نہ رکھیں ،، اللہ پاک نے ان سے جو کام لینا تھا وہ لے کر رھے گا،، مگر موجودہ چلتے فتاوی کو وھی لوگ تبدیل کریں گے جو اس کے ذمہ دار ھیں !!