سوال: دنیا میں بہت سے مذاہب پائے جاتے ہیں۔ کیا یہ سبھی مذاہب صحیح ہیں یا ان میں سے کوئی ایک مذہب اور اگر صحیح مذہب اسلام ہے تو وہ کیسے؟
جواب: اس سوال کو قرآن مجید نے سورۂ آل عمران میں موضوع بنایا ہے۔ اور اس میں مذہب کی تاریخ بیان کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اللہ کے نزدیک کبھی دو دین نہیں رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے انبیا علیہم السلام بھی آئے ہیں، ان سب کو ہم نے ایک ہی دین دیا تھا۔ اور وہ دین یہ تھا کہ تم خدا کے بندے بن کر رہو۔ اور اس دین کا نام اسلام ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ ’ إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الإِسْلاَمُ‘ (آل عمران ۳:۱۹)(اللہ کے ہاں صحیح دین اسلام ہے)۔اسلام کا مطلب ہے: اپنے آپ کو پروردگار کی رضا کے سپرد کر دینا۔ یہ بڑا ہی خوب صورت لفظ ہے جواللہ نے اپنے دین کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس کی حقیقت کو قرآن نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں واضح کیا ہے۔ جب ان سے یہ کہا گیا کہ ’ اَسْلِمْ‘ ، آپ اپنے آپ کو اپنے پروردگار کے حوالے کر دیجیے۔ انھوں نے کہا کہ ’أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔‘ (البقرۃ۲:۱۳۱) میں نے اپنے آپ کو جہانوں کے پروردگار کے حوالے کر دیا۔ اس حوالگی اور سپردگی کو اسلام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس بات کا اقرار کہ میرا ایک پروردگار ہے، میں اس کا بندہ ہوں اور اس دنیا میں میری حیثیت کسی ایسی مخلوق کی نہیں ہے کہ جو آپ سے آپ وجود پذیر ہو گئی ہے، بلکہ میرے خالق نے مجھے وجود بخشا ہے اور میں اپنے وجود،اپنی زندگی اور موت اوراپنے احوال و مقامات کے لیے بھی اس کے حضور ہی میں جواب دہ ہوں اور اس کی رضا کا مرہون منت ہوں۔ اس بنیادی حقیقت کو مان لینے کے بعد میرا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق پیدا ہوتا ہے، وہ یہی ہے کہ میں اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دوں، اپنی بندگی کا اعتراف کر لوں۔ قرآن مجید نے جب یہ کہا کہ: ’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ‘ (الذاریات۵۱:۵۶) تو اسی بنیادی حقیقت کو بیان کیا کہ جن او رانسان اسی لیے وجود پذیر ہوئے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے بن کر رہیں۔ یعنی علم اور عمل دونوں میں اس اعتراف کے ساتھ جئیں کہ ہم اس زمین کے اوپر کسی خالق کی مخلوق ہیں،کوئی ہمارا پروردگار ہے اور ہمیں دنیا میں اس کابندہ بن کر رہنا ہے۔ خدا کا بندہ بن کر رہنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے، وہ دین کی تفصیلات ہیں۔
اسلام کا آغاز
سوال: اسلام کے بارے میں عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کا آغاز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا ہے ۔ جبکہ آپ یہ فرماتے ہیں کہ حضرت آدم سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا کا دین اسلام ہی تھا۔ آپ کی بات کی دلیل کیا ہے؟ میرے علم تو ہے کہ قرآن میں ایک جگہ آیا ہے کہ ابراہیم ہی نے تمھارا نام مسلم رکھا۔اس سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم سے اس نام کی ابتدا ہوئی ، لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آدم علیہ السلام سے اس نام کا آغاز ہوا۔
جواب: لوگ یہ بات قرآن مجید اور انبیا علیہم السلام سے ناواقفیت کی بنیاد پر کہتے ہیں۔ اسلام کی ابتدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہوئی ہے۔ اسلام کی ابتدا سیدنا آدم علیہ السلام سے ہوئی ہے۔ اور جس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ ابراہیم ہی نے تمھارا نام مسلم رکھا ، تو اس آیت میں بنی اسماعیل مخاطب ہیں۔ بنی اسماعیل کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ تم نے اپنے لیے جومشرکانہ مذہب ایجاد کر لیا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ تمھارے باپ نے جب تمھیں اس بات کی نصیحت کی کہ تم نے اللہ کا بندہ بن کر رہنا ہے تو یہی نام تمھارے لیے پسند کیا تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے ماننے والوں کا کوئی اور نام تھا۔
اس وقت دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں وہ سب کے سب اپنے آپ کو مختلف شخصیات، قبیلوں اور علاقوں سے نسبت دیتے ہیں۔ ان تمام نسبتوں سے بالاتر نسبت اسلام کی نسبت ہے ، وہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کا نام اسلام رکھا ہے۔ یہ کسی وطن یا رنگ تک محدود نہیں اور نہ ہی کسی خاص شخصیت سے اس کی وابستگی ہے۔ یہ تمام انبیا علیہم السلام کا دین ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دین کی بنا نہیں رکھی، اس کی تجدید کی ہے،اسے زندہ کیا ہے۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اس دین میں جو خرابیاں اور بدعتیں پیدا کر دی گئی تھیں، وہ انحرافات دور کر کے بالکل صاف صورت میں دنیا کو دیا ہے۔ حضور کا اصل کارنامہ یہی ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے قدیم علمارسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو ’ملت حنیفی کا مجدد‘ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔
( شیخ الاسلام شفیق احمد ) من مقولات الشیخ الاسلام