ایک بچہ جب کوئی شرارت کرتا ھے ، دوسرے بچے کی کوئی چیز توڑ دیتا ھے ، یا اس سے گر کر ٹوٹ جاتی ھے ، ھر کوئی اسے ڈانٹ ڈپٹ کر رھا ھوتا ھے لعن طعن کر رھا ھوتا ھے اور جس کا موڈ بنتا ھے اسے لات مکا بھی مار لیتا ھے ،، کہ اچانک ایک آدمی کہتا ھے اسے اس کے باپ کے پاس لے چلو ،،،، بچے کے چہرے پہ شانتی ھی شانتی چھا جاتی ھے ،، لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون کی کیفت اندر سے باھر تک نظر آتی ھے ،،جہاں جس کے پاس لے کر جایا جا رھا ھے میرا چھٹکارا اسی کے ھاتھ میں ھے ، میرا آخری سہارہ وھی ھے ،، میں اسی کے پاس تو جانا چاہ رھا تھا –
مجمع اسے باپ کے قدموں میں لا پھینکتا ھے ، باپ ایک نظر اپنے بیٹے کے حال کی بدحالی پہ ڈالتا ھے ، اور اس کی جھکی نگاھوں ،پھٹے کپڑوں کو دیکھتا ھے تو اس کا دل رحم سے بھر جاتا ھے ،، پھر پوچھتا ھے اس نے تمہارا جو نقصان کیا ھے اس کی قیمت کیا ھے ؟ اور قیمت نکال کر ان کے منہ پہ مارتا ھے اور انہیں ڈانٹتا ھے کہ تمہیں اس کو کچھ کہنے سے پہلے میرے پاس لانا چاھئے تھا ،،
و الینا تُرجعون ،، مومن کے لئے بہت بڑا سہارا ھے ،، اور تم ھمارے پاس ھی لوٹائے جاؤ گے ،، فرشتے مار رھے ھیں ڈانٹ رھے ھیں اسے ڈرا اور دھمکا رھے ھیں مگر اسے اطمینان ھے کہ بات میرے رب کے پاس جائے گی ،میرا چھٹکارا اسی کے ھاتھ میں ھے ، ،
وہ جب رب کے پاس لایا جاتا ھے ،، اللہ اس کے حال پہ رحم کی نظر ڈالتا ھے ،، اس کے بعد اپنے اور اس کے تعلق کو تسلیم کرتا ھے اور فرماتا ھے اچھا اس نے کتنا نقصان کیا ھے ؟ وہ سارے نقصانات سارے چالان ھمارے ذمے ھیں ،، اور اس کی جان بخشی کر دیتا ھے !! یہ وہ سہولت ھے جو کافر کو حاصل نہیں ، لا یکلمھم اللہ یوم القیامہ ولا ینظر الیھم ولا یزکیھم ،، نہ اللہ ان سے کلام کرے گا،،گویا مومن سے کرے گا ،، نہ ان کی طرف دیکھے گا ،، گویا مومن کی طرف دیکھے گا ،، ولا یزکیھم اور نہ ان کو پاک کرے گا ،، گویا مومن کو پاک کرے گا ،، یہ پاک کرنا ،، مومن کے حقوق العباد اپنے ذمے لینا اور حقوق اللہ معاف کرنا ھے ،، امام شافعی جو ایک مسجد میں فرقہ وارانہ پتھراؤ کا شکار ھوئے ، مالکیوں نے پتھروں سے آپ کو سنگسار کر دیا ، زیادہ خون بہہ جانے سے آپ چند دن بیمار رہ کر اللہ کو پیارے ھو گئے ،، دوران بیماری آپ نے وصیت کی کہ فلاں تاجر ھی مجھے ٖغسل دے گا ، وھی مجھے پاک کرے گا ،،
اتفاق سے وہ تاجر کہیں قافلہ لے کر گیا ھوا تھا ،، لہذا آپ کو کفن دے کر دفن کر دیا گیا اور جب وہ تاجر واپس آیا تو اسے آپ کی وفات کا علم ھوا ، وہ جب تعزیت کے لئے آیا تو گھر والوں نے امام شافعی کی وصیت کا ذکر کیا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ فلاں تاجر مجھے غسل دے گا ،، اس پہ وہ تاجر بہت پشیمان ھوا اور کہنے لگا کہ امام مقروض تھے اور ٖسل دینے سے مراد اس قرض سے پاک کرنا تھا ،مجھے ان لوگوں کے نام بتائے جائیں کہ امام جن کے مقروض تھے ، اگلے دن اعلان کر کے ان لوگوں کو بلایا گیا اور امام صاحب کا تمام قرض ادا کر دیا گیا ،، اس منظر کی عکاسی بہت ساری احادیث میں کی گئ ھے !