تضاد نمبرـ1. مریم سے ایک فرشتے نے کلام کیا(سورہ مریم آیات 16-19) مریم سے کئ فرشتوں نے کلام کیا(آل عمران آیت 42 اور 45)
الجواب ـ ۱
سورہ مریم میں مریم علیہ السلام سے جبرائیل امین نے کلام کیا بچہ القاء کرتے وقت ـ
سورہ آل عمران میں عیسی علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش پر بہت سارے فرشتوں نے مبارکباد دی اور ان کو شکر کرنے کا طریقہ بتایا ـ
یہ دو مواقع کے واقعات ہیں اس میں تضاد کیا ہے ؟
تضاد نمبرـ2۔قوم ثمود کو ہولناک آواز کے عزاب سے تباہ کیا گیا(ھود آیت 67) قوم ثمود کو زلزلے کے عزاب سے تباہ کیا گیا(الاعراف آیت 78)قوم ثمود کو بجلی کے عزاب سے تباہ گیا(الزاریات آیت 44)
الجواب ـ۲
یہ ایک طوفانِ باد باراں ہے جس میں بجلیاں بھی ہیں ، کڑک بھی ہے اور ہر چیز ڈول بھی رہی ہے ،، اللہ پاک نے کہیں ان میں سے ایک کا ذکر کیا ہے کہیں دو کا ، زلزلے کی بجائے رجفہ یعنی کانپنے کا ذکر کیا گیا ، ایک طوفان خوفناک آوازوں ، گرجتے بادلوں اور کڑکتی بجلیوں کا مجموعہ ہوتا ھے ،، اس میں بھی کوئی تضاد نہیں ـ
یہ ایسے ہے کہ ایک ماں اپنے فوت شدہ بچے کے بارے میں بتائے کہ اس کو بخار تھا ، پھر کسی کہے کہ اس کی ناک سے خون آیا تھا اور مر گیا ،، اور پھر کسی کو کہے کہ وہ تھرتھر کانپ رہا تھا ،،ایک ڈاکٹر تو ان باتوں سے تعین کر لے گا کہ بچہ برین ہیمبرج کا شکار ہوا ہے ، مگر ایک ملحد کہے گا کہ بچے کی ماں جھوٹ بول رہی ہے اس کے بیان میں تضاد ہے کبھی کچھ کہتی ھے اور کبھی کچھ کہتی ہے ـ
تضاد نمبر 3۔ زمین بنائے جانے کا زکر پہلے آیا(البقرہ آیت 29) آسمان بنائے جانے کا زکر پہلے آیا (النازعات آیات 27-30)
الجواب ـ ۳
کسی واقعے کے بیان کرتے وقت اس کی ترتیب کو موقعے کی مناسبت سے آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے ، سورہ البقرہ میں چونکہ زمین کا ذکر پہلے کیا گیا ہے کہ زمین کو تمہارے لئے فرش بنایا اور آسمان کو چھت بنایا تو پہلے زمینی نعمتوں کا ذکر فرمایا جو روزمرہ ہمارے استعمال میں رہتی ہیں ،، پھر آسمان کا تذکرہ فرمایا ،، جیسے کہ سورہ الغاشیہ میں پہلے اونٹ کی پیدائش کا احسان جتایا پھر آسمان کا ذکر بعد میں کیا ، کیونکہ بدو کی نظر سب سے پہلے اپنے اونٹ کی گردن پر پڑتی ہے ، [ أَ فَلا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ «17» وَ إِلَى السَّماءِ كَيْفَ رُفِعَتْ «18)) کیا یہ دیکھتے نہیں کہ اونٹ کو کیسا پیدا کیا گیا ہے اور آسمان کو کیسا بلند کیا گیا ہے ـ
سورہ النازعات میں انسان کی تخلیق اور آسمان کی تخلیق کا تقابل فرمایا تو کہ کیا تم زیادہ مشکل تخلیق ہو یا آسمان ،،؟ أانتم اشد خلقاً ام السماء؟
جاری ہے
ملحدین کی اعتراضات میں بھی خیانتیں ـ
اعتراض نمبر 4۔ استطاعت رکھتے ہوئے بھی روزہ چھوڑا جا سکتا ہے فدیہ دے کر(البقرہ آیت 184) استطاعت رکھتے ہوئے روزہ نہی چھوڑا جا سکتا چھوڑے روزے بعد میں ہر حال میں رکھنے ہونگے(البقرہ آیت 185)
جواب ـ
یہ حکم میں تدریج ہے تضاد نہیں ،، اگر کوئی مریض ہے تو روزہ نہ رکھے بعد میں تعداد پوری کر لے یا فدیہ دے دے[ کیونکہ بعض مرض دائمی ہوتے ہیں ،، فدیہ دینے کے باوجود بھی اگرکوئی افاقہ محسوس کرے اور اپنی مرضی سے روزہ بھی رکھ لے تو یہ اس کے لئے خیر ہے ، اور اگر تم روزہ رکھ لو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے ـ
[ أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
مزے کی بات یہ ہے کہ دوسری آیت میں رمضان اور قرآن کی عظمت بیان کر کے وہی حکم دوبارہ دیا ہے کہ تم میں سے جو بھی رمضان کے ماہ کو پالے وہ روزہ رکھے اور اگر تم مریض ہو تو تعداد دوسرے دنوں میں پوری کر لو ـ باقی فدیئے کی تفصیل چونکہ پہلی آیت میں بیان کی جا چکی ہے چنانچہ اس کو یہاں نہیں دہرایا ـ
(184) شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (185)
اعتراض نمبر 5۔ زمین اور آسمان چھ دن میں بنائے گئے(الاعراف آیت 54)
زمین اور آسمان آٹھ دن میں بنائے گئے(فصلت 9-12)
الجواب ـ
زمین اور آسمان چھ مراحل میں بنائے گئے اور ایک مرحلہ کتنے لاکھوں کروڑوں سال پر محیط ہے یہ رب ہی جانتا ہے ،، اس سے ہمارا دن تو مراد نہیں ہو سکتا جو سورج کے چڑھنے سے شروع ہوتا ھے اور ڈوبنے پر ختم ہو جاتا ھے جب سورج ہی نہیں تھا تو دن کیسے ؟
سورہ فصلت میں کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ زمین اور آسمان ۸ دن میں بنائے گئے ہیں ،
وہاں ان تفصیل بیان کی گئ ہے ان مراحل کی ـ
[ قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ (9) وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ (10)
کہہ دیجئے کہ کیا تم انکار کرتے ہو اس ہستی کا جس نے زمین بنائی دو دن میں اور اس کے اوپر سے لنگر رکھے [ پہاڑوں کی شکل میں تا کہ ڈول نہ جائے] اور اس میں برکت رکھی اور قیامت تک اس کی ضرورتوں کا اندازہ لگا کر بندوبست کیا چار دن میں،یہ پہلے دو دن ملا کر ٹوٹل چار دن ہوئے ، کیونکہ زمین کی تخلیق میں پہاڑ بھی شامل ہیں جن کی تخلیق کا ذکر اگلی آیت میں کیا ، گویا زمین کی تخلیق کا معاملہ پچھلی آیت میں ختم نہیں ہوا تھا بلکہ زمین کی روٹیشن میں بینلس رکھنے کے لئے مخصوص جگہوں پر وزن رکھے گئے جیسے ویل بیلنسنگ والے مخصوص جگہوں پر پانچ یا دس یا پندرہ گرام والے وزن چپکا کر ویل کو بیلنس رکھتے ہیں ، سب تسلیم کرتے ہیں کہ پہاڑ زمین کی پہلی شکل کے بعد اس کی حرکت کے نتیجے میں زمین کے سکڑنے سے ابھرے ہیں ۔ پھر اس انگارے کی طرح دھکتی زمین پر کئ سو سال مسلسل بارش برستی رہی اور پہاڑ بننے سے جو گڑھے پیدا کیئے گئے ان میں پانی بھر کر سمندر بنائے گئے ـ یہ سارے کام چار مراحل میں ہوئے ،، اس کے بعد آسمان جو دھوئیں کی شکل میں تھا ،اس کی طرف توجہ فرمائی گئ اور زمین و آسمان کو بیک وقت حکم دیا گیا کہ چلو بھی اپنے اپنے کام پر لگ جاؤ چاہے مرضی سے یا مجبوری سے ، انہوں نے کہا کہ جناب ہم اپنی مرضی سے حکم بجا لاتے ہیں تب سورج کی روشنی زمین پر پڑی ، سماء ہر وہ چیز ہے جو آپ کے سر سے اونچی ہے ،، السماء ما فوق الرأس ،، جو آپ کے سر کے اوپر ہے وہ آپ کا سماء ہے ،، گھر کی چھت بھی ، بارش والے بادل بھی سماء ہیں اور اس کے بعد جو بھی گلیکسیز اور ان میں موجود اربوں کھربوں سیارے اور ستارے ہیں وہ ہمارا سماء ہی ہے ،،
ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (11)
فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (12) پس اس دھوئیں سے سات سماوات بنا ڈالے دو دن میں اور ہر آسمان میں اس کے لاء آف نیچر رکھے گئے اور جو آسمان زمین کی طرف نظر آتا ھے اس کو ہم نے ستاروں سے مزین کر دیا جو چراغ بھی ہیں اور حفاظت کا سامان بھی ،،
اعتراض نمبر 6۔ اور جو تم میں سے مر جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو ان بیویوں کو چار مہینے دس دن تک اپنے نفس کو روکنا چاہیے (البقرہ آیت 234)جو لوگ مر جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو بیویوں کو سال بھر کے لیے گھروں سے نہی نکلنا چاھیے(الہیںہ آیت 240)
جواب ـ
جو عورت بیوہ ہو جائے اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے ، جس دوران وہ نکاح نہیں کر سکتی ـ
دوسری آیت میں بتایا گیا ہے کہ اگر وہ عورت دوسری شادی نہیں کرتی تو اس کا سال بھر کا خرچہ شوہر کی وراثت میں سے دیا جائے ،، اس کے بعد اس کا حق اس گھر سے ختم ہو جائے گا ،، اس کے بعد وراثت کا قانون بن گیا اور عورت کو اپنے شوہر کی وراثت میں مستقل حصہ مل گیا ،، اس میں تضاد کہاں ہے ؟
اعتراض نمبر7۔ بدکار عورت کو گھر میں بند کر دو موت تک(النساء آیت 15) بدکار عورت کو سو کوڑے مارو(النور آیت 2)
الجواب ـ
پہلی آیت میں کہا گیا ہے کہ اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی بدکاری کا ارتکاب کرے تو ان پر اپنے میں سے چار گواہ قائم کرو ،، اگر گواہی سے جرم ثابت ہو جائے تو [ تم ان کو غیرت کے نام پر قتل مت کرو جیسا کہ پرانی جاھلیت اور موجودہ جاھلیتس کے زمانے میں لوگ کرتے ہیں ] بلکہ ان کو گھروں میں مقید رکھو باہر مت جانے دو یہانتک کہ اللہ پاک ان کے لئے کوئی راہ نکالے یا ان کو طبعی موت آ جائے ،، اللہ راہ نکالے سے مراد لازم وہ رستہ ہے جس میں موت نہیں ہے ، یا راہ نکالے یا موت آ جائے ،، تو گویا اللہ جو راہ نکالے گا اس میں موت نہیں ہوگی ،، اور سورہ نور میں اللہ پاک نے ان کو ۱۰۰ کوڑے کی سزا دے دی ،، راہ نکال دی ـ اب اس میں تضاد کیا ہے ؟ اللہ نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دیا ،،
[ وَاللاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [مِنْ نِسَائِكُمْ ]فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلا (15)
[ الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منھما مانۃ جلدۃ (النور : 2)
یہاں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں قسم کی عورتوں کو گھر میں قید کرنے کا حکم اور دونوں کے لئے وعدہ کیا گیا کہ اللہ راہ نکالے گا ،،، اگر رسول اللہ ﷺ پر چھوڑنا تھا تو پھر اسی وقت رسول اللہ ﷺ فیصلہ کر دیتے ،، لہذا سو درے کی سزا شادی شدہ او غیر شادی شدہ دونوں قسم کے عورتوں کے لئے یکساں ہے ، یہ ممکن نہیں کہ اللہ پاک اپنا کوئی شرعی حکم سمجھانا چاہے اور سمجھانے سے عاجز ہو جائے ـ تورات میں سنگسار کی سزا دونوں قسم کی عورتوں کے لئے تھی ،، اور آج بھی موجود ہے ،، قرآن میں اللہ پاک نے تخفیف فرمائی ہے تو دونوں قسم کی عورتوں کے لئے فرمائی ہے ، کسی روایت کے زور پر اللہ کے حکم میں تبدیلی کرنا پورے قانون کو کالعدم کر دیتا ھے ، جیسے پاسپورٹ ویزے اور سرٹیفیکیٹ سمیت ہر سرکاری لیٹر پر لکھا ہوتا ہے کہ ان مندرجات میں کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ یا تبدیلی سے پورا وثیقہ کالعدم [ Nul&Void] ھو جائے گا ـ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں دی گئ سنگسار کی سزاؤں کا سورس سابقہ شریعت تھی ـ